سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہوسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔
دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔
مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔
ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔
ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟
اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔
ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔
ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔
بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟
ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔
ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔
****
دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔۔۔۔ کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ زندگی کی سمت متعین کرنے کیلئے آپ سوچیئے گا ضرور۔۔۔
[...] مُنافع کا سودا Posted on February 18, 2011 by محمد سلیم سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ مزید پڑھیئے۔۔۔۔۔۔ [...]
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی بہت اچھی تحریر ھے لیکین ریفرنس درکار ھے کیونکہ
جواب دیںحذف کریںجناب ارشد صاحب، خوش آمدید۔ تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔ اس عظیم واقعے کو احاطہ قلم میںلاتے ہوئے میں حق واقعہ ادا نہیںکیا جس کا مجھے افسوس اور اپنی کم مائیگی کا پورا اعتراف ہے۔
جواب دیںحذف کریںہو سکتا ہے اس واقعے میں کچھ ادبی رنگ اور قصہ گوئی ہو مگر روایات میں کم و بیش ایسا ہی بیان کیا گیا ہے۔ مشہور اسلامی ویب سائٹ (http://www.islamweb.net/) پر اس واقعے کے بارے میں فتویٰ لیا گیا تو ان لوگوںنے دو مستند روایات سے سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظمبارک کی تصدیق کی مگر دوسری حکایات پر کچھ کہنے سے گریز کیا۔ فتویٰ اس صفحہ پر دیکھیئے:
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&lang=A&Id=108881&Option=FatwaId
اگر آپ عربی جاننے والے ہیں تو مستند عالم دین ڈاکٹر محمد العریفی صاحب کی آواز میںاس واقعہ کی جزئیات جو لگ بھگ میرے بلاگ میںمذکور الفاظجیسی ہی ہیں بذات خود سنیئے، ہاں ایک گزارش کروں؟ اگر سیدنا ابالداحداح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس سودے کی تفصیلات سنتے ہوئے کبھی آنکھیںپر نم ہوںتو میرے لئے ضرور دعا کر دیجیئے گا۔ ویڈیو کا لنک یہ ہے:
http://www.youtube.com/watch?v=1__sqDrtbek
میں نے فتوٰے دیکھا لیکن وھاں بھی ریفرنس نھیں ھے کسی بھی حدیث کا
جواب دیںحذف کریںحوالہ کے لئے دیکھئے
جواب دیںحذف کریںhttp://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=121&hid=12246&pid=672359
جناب ارشد صاحب، یہ مضمون ایک بہت ہی مشہور واقعے پر مبنی ہے تاہم آپ حوالہ مانگ کر ضرور اپنی تشفی فرمائیں۔ ایک تو جناب منصور الحق منصور صاحب نے جو لنک دیا ہے اس پر حدیث مبارک ملاحظہ کریں۔
جواب دیںحذف کریںدوسرا میں نے جو فتویٰ والا لنک دیا تھا اس صفحہ پر جائیں جو کچھ سبز رنگ میں لکھا ہوا ہے وہ احادیث مبارک کے الفاظ ہیں۔
تیسرے نمبر پر یوٹیوب پر جو خطاب کا لنک آپ کو دیا ہے وہ ایک پی ایچ ڈی سکالر کا بیان ہے جس نے عقیدہ میں اعزازی ڈگری لی ہوئی ہے۔
مجھے عربی نہیں آتی آپ مجھے کتاب اور حدیث نمبر دے دیں
جواب دیںحذف کریںمیں اردو ترجمہ دیکھ لونگا
جواب دیںحذف کریںرقم الحديث: 12246 : (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ لِفُلَانٍ نَخْلَةً ، وَأَنَا أُقِيمُ حَائِطِي بِهَا ، فَأْمُرْهُ أَنْ يُعْطِيَنِي حَتَّى أُقِيمَ حَائِطِي بِهَا ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَعْطِهَا إِيَّاهُ بِنَخْلَةٍ فِي الْجَنَّةِ " فَأَبَى ، فَأَتَاهُ أَبُو الدَّحْدَاحِ ، فَقَالَ : بِعْنِي نَخْلَتَكَ بِحَائِطِي ، فَفَعَلَ ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي قَدْ ابْتَعْتُ النَّخْلَةَ بِحَائِطِي ، قَالَ : فَاجْعَلْهَا لَهُ ، فَقَدْ أَعْطَيْتُكَهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَدَاحٍ لِأَبِي الدَّحْدَاحِ فِي الْجَنَّةِ " ، قَالَهَا : مِرَارًا ، قَالَ : فَأَتَى امْرَأَتَهُ ، فَقَالَ : يَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ ، اخْرُجِي مِنَ الْحَائِطِ ، فَإِنِّي قَدْ بِعْتُهُ بِنَخْلَةٍ فِي الْجَنَّةِ ، فَقَالَتْ : رَبِحَ الْبَيْعُ ، أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا .
جواب دیںحذف کریںرقم الحديث: 12246 : (حديث مرفوع)
جواب دیںحذف کریںیہ حدیث کونسی کتاب میں ہے بھائی
قال : كعب بن مالك قال : أول أمر عتب على أبي لبابة أنه كان بينه و بين يتيم عذق ، فاختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقضى النبي صلى الله عليه وسلم لأبي لبابة ، فبكى اليتيم ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : \" دعه له \" ، فأبى ، قال : \" فأعطه إياه و لك مثله في الجنة \" ، فأبى فانطلق ابن الدحداحة فقال لأبي لبابة : بعني العذق بحديقتين . قال : نعم . ثم انطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ! أرأيت إن أعطيت هذا اليتيم هذا العذق ، ألي مثله في الجنة ؟ قال : نعم ، فأعطاه إياه ، قال : فكان النبي صلى الله عليه وسلم يقول : كم من عذق دواح لأبي الدحداح في الجنة - مرارا \" .أخرجه أحمد ( 3 / 146 ) و ابن حبان ( 2271) و الطبراني في \" المعجم الكبير \" ( 22 / 300 / 763 ) و الحاكم ( 2 / 20 )الألباني في \" السلسلة الصحيحة \" 6 / 1131.
جواب دیںحذف کریںمسند احمد بن حنبل
جواب دیںحذف کریںحدیث نمبر 12246 مسند احمد(اردو ترجمہ مولانا ظفر اقبال) جلد 5 میں ھے لیکن اس میں کچھ اور متن ھے۔ بچپن کا واقعہ ھے
جواب دیںحذف کریںمیں پیج کی کاپی ای میل کرتا ھوں
جواب دیںحذف کریںپیج ای میل کر دیا
جواب دیںحذف کریںپتہ نہیں اب آپ کیا کریں گے؟ اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے ہم سب پر۔
جواب دیںحذف کریںمیں کیاکرونگا۔ میں نے تھوڑی تحقیق کی ھے۔ آپ کیوں پریشان ھوتے ھو۔
جواب دیںحذف کریںجناب جس شدومد سے آپ نے تحقیق کی ہے اس کے بعد تو بس ایک فتویٰ لگنے کا ہی دھڑکا تھا بس، بس اسی بات کی پریشانی تھی۔ عربی آپ نہیں جانتے ورنہ یوٹیوب فلم جناب کو کافی معلوماتی لگتی۔
جواب دیںحذف کریںمیرے بھایٰ بات عربی آنے نہ آنے کی نہیں ھے۔ ھمارا مسلہ ہی یہ ھے کہ ھم سن کر بات آگے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے منسوب ھے۔ یہ حدیث صحیح ھے یا غلط ۔ مجھے عربی نہیں آتی لیکن آپ کو تو آتی ھے آپ مجھے صحیح ریفرنس بتا دیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ھوگی۔ سن سن کر ہی تو ھم نے بدعات ایجاد کی ھیں۔ شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںجناب ارشد صاحب، آپ کی کیا رائے ہے مذکورہ بالا واقعہ کے بارے میں؟
جواب دیںحذف کریںاچھی ھے۔ لیکن مسلہ وہ ہی ھے۔ واقعہ صحیح ھے یا نہین یہ پتہ کرنا ھے۔
جواب دیںحذف کریںکسی اور سے منسوب ھوتا تو کوی بات نہین تھی
جواب دیںحذف کریںرسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ھے کہ جو کوئ میری نسبت سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ شخص اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے صحیح بخاری جلد 1 حدیث 109
جواب دیںحذف کریںچہ جائیکہ مجھے آپ کی شرعی حیثیت کا علم نہیںہے تاہم میرے نزدیک ڈاکٹر عریفی صاحب زیادہ معتبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین یا رب
جواب دیںحذف کریںجناب میں اس واقعہ کو رد نہیں کر رہا تسلی چاھتا ھوں کیونکہ حدیث ھے کہ "رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ھے کہ جو کوئ میری نسبت سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ شخص اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے صحیح بخاری جلد 1 حدیث 109" تو جناب وہ عریفی صاحب ھوں یا کوئ اور اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ آپ ناراض نہ ھوں اور مجھے صحیح ریفرنس بتا دیں۔ شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںبھائ جان جواب تو دے دین۔ بخدا میرا مقصد صرف یہ ھے کہ اگر یہ حدیث ھے تو پتہ ھو کہ کہاں دستیاب ھے۔ اور اگر حدیث نہیں ھے تو آپ احتیات کریں۔ آپ کی تحاریر مجھے بہت پسند ہیں لیکن احتیاط کریں اللہ تعالیٰ اور رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان لکھنے میں۔ شکریہ۔
جواب دیںحذف کریں