تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 26 فروری، 2014

ماں کی بد دعا



ویسے تو میری ساری زندگی ہی لوگوں سے اُن کی زندگی کے قصے اور کہانیاں سنتے گزری ہے مگر جو قصہ مجھے کبھی
 نا بھول پائے گا ایک ایسے شخص کا ہے جو میرے پاس بہت ہی دل شکستہ  و دل گرفتہ  آیا، کہنے لگا؛ میری گھریلو  زندگی برباد ہو گئی ہے، نا پہلی بیوی سے بن پائی اور نا اب دوسری بیوی سے نباہ ہو رہا ہے، میرے بچے  میرا  احترام نہیں کرتے، گھر میں میری  کوئی قدر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں  اپنے بچوں کو بالکل ایسے ہی کھو چکا ہوں  جیسے میرے  سارے کاروباری پروجیکٹس گھاٹوں کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں، لگتا ہے اب اس  دُنیا کا ہر دروازہ میرے  منہ پر بند ہوتا جا رہا ہے، زندگی کی اب کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہی  جو میرے  لئے کھلی رہ گئی ہو۔
میں نے اُس سے کئی سوالات کرنا چاہے تاکہ پتہ چلا سکوں کہ اُس کی ان ساری ناکامیوں کے پیچھے کیا اسباب ہیں مگر اس شخص پر اتنی مایوسی طاری تھی کہ وہ میری کسی بات کا سیدھا جواب ہی نہیں دے پاتا تھا۔ پھر  اچانک اُس نے میری باتوں کو کاٹتے ہوئے خود ہی کہا؛ میں آپ کا وقت بچانا چاہتا ہوں اور مختصراً بتائے دیتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ میری ان ساری ناکامیوں کا سبب میری ماں کی بد دعائیں ہیں۔ میں ہمیشہ اُس کی ہر بات کو ٹالتا ٹھکراتا اور نا فرمانی کیا کرتا تھا، اُس کا احترام تو بالکل ہی نہیں کرتا تھا بلکہ کبھی کبھی اُس پر ہاتھ بھی اُٹھاتا تھا۔ بیوی کو ہمیشہ ماں پر ترجیح دیتا تھا۔ میری ماں کو ویسے تو چپ سی لگی ہوئی تھی مگر میں جب بھی گھر آتا تو ایسے لگتا جیسے وہ زیر لب کچھ بڑبڑا رہی ہو۔ اب مجھے سمجھ آتی ہے کہ اُس کا بڑبڑانا در اصل  مجھے بد دعائیں دینا ہوتا تھا۔ بس جان لیجیئے کہ میری  ساری مشکلات کو واحد سبب  بس یہی ہے۔

میں نے کہا؛ بات تو تیری بالکل ٹھیک ہے کہ وہ  واحد گناہ جس کی سزا  دینے کی جلدی اسی دنیا میں ہی کی جاتی ہے وہ  ماں باپ کی نافرمانی ہے۔ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، میں تو  بس یہی کہتا ہوں کہ فورا جا کر اپنی ماں سے معافی مانگ لو، بس ایک بار اس کے پاؤں پڑو گے اور اس کے سر پر پیار کرو گے تو اُس نے تیری ساری کوتاہیاں بھول کر تجھے گلے لگا لینا ہے۔  میری یہ بات سُن کر اس شخص کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے ،  روتے ہوئے کہنے لگا؛  اب یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ  تو مر چکی ہے۔ میری اس سے بڑی بد نصیبی یہ بھی رہی کہ میں نے اس کے جنازے میں بھی شرکت  کرنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔

موقعے کی مناسبت سے آپ کو اپنے ایک عزیز  دوست کا قصہ سناتا چلوں؛   یہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، اس کا  ایک بہت ہی چھوٹا سا کاروبار تھا مگر صاف ستھرا گھر ،  راضی بازی گھر والی اور سکول پڑھتے پیارے بچے۔ میں نے ایک بار اُس سے اُس کی خوشیوں کا راز اور کامیابی کے اسباب پوچھے تو کہنے لگا یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ کہتا ہے میں جب میری ماں حیات تھی اور گھر جاتا تو جاتے ہی اپنی ماں کے سر پر بوسہ دیتا، وہ مجھے دعا دیتی اللہ تیرے سر کو ہمیشہ بُلند رکھے۔ بس یہی سبب ہے کہ میں اس دعا کے طفیل آج برکتوں کے میلے میں گھرا رہتا ہوں۔  میں ایک ایسے کاروباری شخص کو بھی جانتا ہوں جو اس دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ اُس نے ایک دن خود مجھے بتایا تھا میری ساری ترقی اور مال و دولت کے پیچھے  میری والدین سے محبت و عقیدت ، اُن کی رضا اور  دعائیں ہیں۔

یہ ایسے قصے ہیں جنہیں میں کبھی بھی نہیں بھلا پاتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی والدین کی اُن کی اولاد کے ساتھ ناراضگی اور اُن کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات اور بد دعاؤں کا  بھی مشاہدہ کیا ہے۔  جیسے ایک بار میں جہاز پر سفر میں تھا۔ مجھ سے چند نشستوں کے فاصلے پر بیٹھی ایک ماں اپنے ایک ایسے بچے کو کوسنے دے رہی تھی جس کی عمر بمشکل چار سال بھی نہیں تھی۔ اُس کے کوسنے اس نوعیت کے تھے کہ میرا دل ڈوبنے لگا، مجھے لگا کہ آج تو یہ جہاز گرے ہی گرے۔ میں بھاگ کر اس ماں کے پاس گیا اور اُسے نہایت شفقت سے سمجھاتے ہوئے کہا؛ بہن یہ تو کیسی باتیں کر رہی ہے؟ کیا تجھے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول مبارک یاد نہیں ہے کہ تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک ہی نہیں؛ مظلوم کی بددعا ، مسافر کی دعا ، اور والد کی دعا اولاد کے حق میں۔

پس یہ بات تو طے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں واضح موقف موجود ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ہمیشہ خیر کی دعا دیں نا کہ اُن کی بربادی اور برائی کے درپیش رہیں۔  ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم کچھ  یوں ہے کہ: اپنی ذات پر اوراپنی اولاد پراوراپنے مال پر بد دعا مت کرو ،اللہ کی طرف سے ایسی گھڑی نہ آجائے جس میں کسی نوازش کا سوال ہو اور تمھارے حق میں قبول ہو جائے۔

والدین کیلئے  اپنے غصے پر قابو رکھنا اور خاص طور پر غصے کے دوران  اپنے الفاظ پر قابو رکھنا بہت ضروری چیز ہے۔  ہو سکتا ہے ایسے لمحات میں اُن کے منہ سے نکلے الفاظ اُن کی اولاد کی زندگیوں کو برباد کر دیں۔ کویت میں چند قصے بہت مشہور ہیں اور ہر زبان پر زد عام رہتے ہیں، اں میں سے ایک قصہ یہ بھی ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے پر ناراض ہوئی تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا جا تجھے اللہ کبھی بھی بیٹے نا دے۔ اللہ پاک کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس کی یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور وہ بیٹے کے رزق سے ہمیشہ محروم رہا۔

اولاد سے غصے  کے وقت بد دعاؤں اور کوسنوں کے بھی کئی متبادل ہیں۔  ہم اُن کیلئے یوں کہہ دیا کریں؛ اے اللہ میرے ان بچوں کو ہدایت دیدے، ان کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور راحت بنا دے، میری مدد فرما کہ میں ان کی اچھی اور بہتر تربیت کر سکوں، ان کو عزت دار بنا، ان کا اخلاق اچھا بنا دے، ان کو نیک اور صالح دوستوں کی صحبت عطا فرما دے، ان کو قرآن کا حافظ بنا دے، ان کو بری صحبت سے محفوظ رکھیو، ان کے سینوں کو کھول دے ، ان کے سارے کاموں کو آسان بنا دے، ان کو ہدایت دیئے رکھنا، شیطان کے مکر و فریب سے پناہ میں رکھنا۔ یا اللہ میرے بچوں کو مؤمنین، صالحین، تائبین، قانتین، عابدین، طائعین میں سے بنا دے، انہیں اپنے دین کا خدمت گزار بنا دے۔ اے اللہ ان کا اخلاق اچھا ہو، ان کی عبادت مقبول ہو، ان کی زندگی خوشیوں سے بھر پور ہو، ان پر حلال رزق کی فراوانی ہو، حرام سے محفوظ رہیں، تیرے سوا کسی کے محتاج نا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔

میں نے ایک بار ایک ماں کو ایسی خوبصورت دعا کرتے ہوئے بھی سنا؛ کہہ رہی تھی: اے اللہ میرے بچوں کو ایسا بنا دے کہ ان میں  سیدنا یوسف علیہ السلام  کا حسن جھلکتا ہو، لقمان جیسے دانائی ہو، سیدنا ایوب علیہ السلام جیسا صبر ہو اور آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اخلاق پایا جاتا ہو۔حضرت

میں نے تفسیر ابن کثیر میں یہ بھی پڑھا ہے  کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے لطف اور تحمل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ ان کی وہ بد دعائیں،  جو انہوں نے  ایسے وقت میں، اپنے آپ پر کی ہوں  یا اپنے مال مویشی پر یا اپنی آل اولاد پر، جب کہ وہ پراگندہ ذہن اور غصے کی حالت میں تھے اور اُن کا دلی مقصد  ایسی ایذا اور نقصان مقصود نہیں تھا قبول نہیں فرماتا۔ اللہ تبارک و تعالٰی وہ دعائیں یا بد دعائین قبول فرماتے ہیں جو ان کی رضا اور سکون کی حالت میں مانگی ہوں۔  یہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر بہت ہی لطف اور احسان ہے۔ یہ باتیں مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تفسیر سے لی گئی ہیں: اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں (سورة يونس - 11)

دعا اور بد دعا کے  قبول کیئے جانے یا رد کیئے جانے میں  نیت اہم کردار ادا کیا کرتی ہے۔ اللہ پاک ہماری اولاد کی بہتری فرمائیں اور ہمیں اس فریضے سے سبکدوش ہونے میں مدد فرما دیں۔ آمین

مندرجہ بالا مضمون  ڈاکٹر جاسم الکویتی کا مقالہ ہے ایک عربی اخبار میں چھپا تھا۔ فائدے کیلئے میں نے اسے ترجمہ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔

16 تبصرے:

  1. بلاشبہ والدین اور ان میں بھی ماں کے منہ سے بد دعا بہت ہی کم نکلتی ہے لیکن کہتے ہیں کہ ماں کی بد دعا عرش چیر کے نکل جاتی ہے ۔ اللہ نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ ماں کی خواہش منہ سے پوری نکلنے سے پہلے ہی میں پوری کرنے میں لگ جاتا تھا ۔ باپ کی بھی حتی الوسع خدمت کی ۔ اللہ کا کرم ہے کہ اُس نے میرا سر ہمیشہ بلند رکھا ۔ یہی نہیں اللہ کے کرم سے میرے بچے میری خدمت میں ہر وقت مستعد رہتے ہیں ۔ اور بچوں کے بچے بھی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ اپنے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بلاشبہ والدین کی دعائیں انسان کی کامیابی کی ضمانت ہیں ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے اللہ تعالٰی ہمیں والدین کی خدمت سے دنیا وآخرت کی کامیابی سے سرفراز کر دے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. رب ارحمهما كما ربياني صغيرا
    "خوبصورت تحرير

    جواب دیںحذف کریں
  4. عامر خاکوانی27 فروری، 2014 کو 10:02 AM

    بہت خوب ، سلیم بھائی ، اللہ آپ کو اجر دے ، ایسے اچھے مضامین شئیر کرانے کا ۔ دل کو حقیقی خوشی ہوتی ہےآپ کی تحریر پڑھ کر۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. سر افتخار اجمل بھوپال صاحب المحترم، اللہ پاک آپ کو سحت کی دولت سے مالا مال رکھیں، آپ ہم سب کیلئے ایک زندہ مثال ہیں۔ ہمیں آپ کی باتوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. ڈاکٹر صاحب، اھلاً و سھلاً۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہمیں والدین کی خدمت سے دنیا وآخرت کی کامیابی سے سرفراز کر دے آمین۔ جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  7. سید عمر صاحب، میرے بلاگ پر خوش آمدید۔ آپ کو تحریر پسند آئی کیلئے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ تشریف لاتے رہا کریں۔
    والدین کیلئے بہترین دعا جو رب کریم نے ہمیں سکھائی ہے وہی ہے جو آپ نے لکھی ہے۔
    رب ارحمهما كما ربياني صغيرا
    اللہ آپ ہمارے والدین کو ہم پر راضی رکھیں۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  8. محترم عامر خاکوانی صاحب، آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔ میرے مضمون پڑھ کر آپ کو خوشی ہوتی ہے یہ جان کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ آپ کی حوصلہ افزائی کیلئے از حد ممنون ہوں۔ شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. I m also a fiction writer i read ur stories these r wonderfull.

    جواب دیںحذف کریں
  10. محبوب بھوپال28 فروری، 2014 کو 10:31 AM

    آسلام و علیکم اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کے درجات بلند کرے ۔ آج جو کچھ بھی ہیں ان کی دعا سے ہیں۔
    کیا تجھے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول مبارک یاد نہیں ہے کہ تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک ہی نہیں؛ مظلوم کی بددعا ، مسافر کی دعا ، اور والد کی دعا اولاد کے حق میں۔
    اللہ کرے یہ بات ہماری اولاد کو بھی سمجھ آ جائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  11. بہت خوبصورت تحریر ہے
    اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ ماں اور باپ دونوں کو سب سے پہلے اپنی اہمیت کا احساس ہو، جیسے ہی وہ والدین کے منصب پر فائز ہوں۔ اہمیت یہ کہ آپ بطور ماں یا باپ اپنے بچے کے لئے رحمت اور شفقت کا ایسا منبع ہیں جو اُس کو دنیا میں کبھی بھی کہیں اور نہیں ملے گا۔ چنانچہ اپنی زبان سے ادا کئے گئے ہر لفظ کی اہمیت کو سمجھیں۔ محبت سے مضبوط اور کوئی ڈوری نہیں جس میں والدین اور اولاد بندھے ہوں، یہ آسان کام نہیں ہوتا ۔ بارہا نامناسب باتوں پہ ضبط کرکے حکمت سے اولاد کو سمجھانا پڑتا ہے یہاں تک کہ ایک حقیقت پسند اور گہرا تعلق قائم ہو جائے اور محبت کا پودا تناور ہوجائے۔ اللہ کسی ماں باپ کو اولاد کی ، اور کسی اولاد کو ماں باپ کی آزمائش میں نہ ڈالے

    جواب دیںحذف کریں
  12. محمود احمد غزنوی28 فروری، 2014 کو 9:22 PM

    عمدہ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. بھت خو ب۔ سلیم بھا یی۔ سچ ھے کھ ما ں کے قد مو ں تلے جنت ھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. " امام ِکعبہ شیخ عبدالرحمٰن السُدّیس "
    بسم اللہ الرّحمٰن الّرحیم
    "اولاد کے لیے دُعا "
    شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ اے ماؤں اپنی اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہو،چاہے کتنا ہی غصّہ کیوں نہ ہو اُن کے لیے منہ سے خیر کے کلمے ہی نکالا کرو -
    اولاد کو لعن طعن اور بددُعائیں دینے والی مائیں سُن لیں کہ والدین کی ہردُعا و بددُعا قبول کی جاتی ہے-
    یہ سب باتیں شیخ صاحب نے جُمعہ کے خُطبے میں اپنے بچپن کی باتیں دُہراتے ہوئے فرمائیں-شیخ صاحب فرماتے ہیں ایک دفعہ ایک لڑکا ہوا کرتا تھا اپنے ہم عمرلڑکوں کی طرح شرارتی اورچھوٹی موٹی غلطیاں کرنے والا مگر ایک دن شاید غلطی اور شرارت ایسی کر بیٹھا کہ اس کی ماں کو طیش آگیا غصّے سے بھری ماں نے لڑکے کو کہا "چل بھاگ ادھر سے اللہ تجھے حرم پاک کا امام بنائے " یہ بات بتاتے ہوئے شیخ صاحب پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے ذرا ڈھارس بندھی تو رُندھی ہوئی آواز میں بولے اُمتِ اسلام
    دیکھـ لو
    وہ شرارتی لڑکا میں کھڑا ہوں تمہارے سامنے
    " امام ِ حرم عبدالرحمٰن السُدّیس"
    http://noureennoor.blogspot.com/2012/12/blog-post_24.html

    جواب دیںحذف کریں
  15. السلام علیکم !
    سر آپ کا بلاگ بہت اچھا ہے ،
    میں‌ آپ کے بلاگ سے مضامین اپنے بلاگ پر شیئر کرتا ہوں
    اور آپ سے بلاگ کو مزید معلوماتی بنانے میں‌راہ نمائی بھی درکار ہے ۔
    شکریہ
    رضوان علی ۔
    پاکستان

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں