کہتے ہیں کسی جگہ ایک شخص رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے۔ اس شخص نے اپنے ان تینوں بیٹوں کے نام "عبداللہ" رکھے ہوئے تھے۔ دن گزرتے رہے حتیٰ کہ اسے مرض الموت نے آن لیا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلا کر وصیت کی کہ عبداللہ کو وراثت ملے گی، عبداللہ کو وراثت نہیں ملے گی اور عبداللہ کو وراثت ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی روح قبض ہوگئی۔ یہ خود تو فوت ہو گیا مگر اپنے بیٹوں کو حیرت میں ڈال گیا کہ کیسے فیصلہ کریں کن دو عبداللہ کو وراثت ملے اور اور کس ایک کو نہیں ملے گی۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ شہر جا کر قاضی سے اپنا مسئلہ بیان کریں اور اس سے کوئی حل مانگیں۔
تینوں اپنے زاد راہ کے ساتھ شہر کیلئے عازم سفر ہوئے۔ راستے میں انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنی کسی گم شدہ چیز کو تلاش کرتا پھرتا تھا۔ ان بھائیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی اونٹنی گم ہو گئی ہے جسے وہ تلاش کرتا پھر رہا ہے۔
ایک عبداللہ نے پوچھا کیا تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی تھی۔ اس آدمی نے کہا ہاں ہاں، ایسا ہی تھا۔
دوسرے عبداللہ نے پوچھا کیا تیری اونٹنی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی تو اس آدمی نے جلدی سے کہا، بالکل صحیح، میری اونٹنی واقعی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی۔
تیسرے عبداللہ نے اونٹنی کے مالک سے پوچھا کیا تیری اونٹنی کی دم کٹی ہوئی تھی تو اس نے خوشی سے کہا بالکل ٹھیک، میری اونٹنی کی دُم بھی کٹی ہوئی تھی۔ بس اب جلدی سے بتا دو میری اونٹنی کہاں ہے؟
تینوں عبداللہ نے مل کر جواب دیا؛ بخدا ہمیں آپ کی اونٹنی کے بارے میں کوئی علم نہیں، ہم نے اسے ہرگز نہیں دیکھا۔
اونٹنی کا مالک ان کی یہ بات سن کر غصے سے پاگل ہو گیا، اس نے فیصلہ کیا کہ اس تینوں کو کھینچ کر قاضی کے پاس لے جائیگا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس کی اونٹنی کو یہ تینوں ذبح کر کے کھا چکے ہیں اور اب اپنے جرم کو چھپانے کیلئے جھوٹ بول رہے ہیں۔۔ اونٹنی والے نے جب تینوں کو اپنا ارادہ بتایا تو انہوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم خود بھی قاضی کے پاس ہی جا رہے ہیں
جب یہ چاروں قاضی کے پاس پہنچے تو اونٹنی والے نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا۔ قاضی نے ان تینوں سے کہا جس طرح تم تینوں نے اونٹنی کی نشانیاں بتائی ہیں اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اونٹنی تم تینوں کے پاس ہے، بہتر ہے کہ تم اپنے جرم کا اعتراف کر لو۔
پہلے نے کہا؛ جناب عالی، ہم نے اونٹنی تو نہیں دیکھی تھی، ہاں البتہ اونٹنی کے آثار ضرور دیکھے تھے۔ جب میں نے اسے کہا تھا کہ تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی ہے تو میں نے دیکھا تھا کہ راستے کے ایک طرف کا گھاس تو خوب چرا ہوا تھا مگر دوسری طرف کا ویسے ہی بآمان موجود تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس شخص کی اونٹنی ایک آنکھ سے کانی رہی ہوگی۔
دوسرے عبداللہ نے کہا؛ میں نے دیکھا تھا کہ راستے میں تین قدم تو گہرے لگے ہوئے ہیں جبکہ چوتھا قدم زمین پر معمولی پڑا ہوا تھا جس کا مطلب بس اتنا ہی بنتا تھا کہ یہ جانور لنگڑا بھی تھا۔
تیسرے عبداللہ نے کہا؛ اونٹ جب راہ چلتے ہوئے اپنا گوبر گراتے ہیں تو دم سے ادھر اُدھر بکھیرتے ہیں۔ جبکہ ہم جس راہ سے آئے تھے وہاں پر گوبر ایک ہی لائن میں سیدھا گرا ہوا تھا جس کا ایک مطلب ہو سکتا تھا کہ اونٹنی کی دُم کٹی ہوئی ہے جو اپنا گوبر دائیں بائیں نہیں پھیلا پائی۔
قاضی نے بغیر کسی دیر کے اس آدمی کی طرف دیکھا اور کہا، تم جا سکتے ہو۔ تمہاری اونٹنی ان لوگوں کے پاس نہیں ہے اور ناں ہی انہوں نے اُسے دیکھا ہے۔
اونٹنی والے شخص کے جانے کے ان تینوں بھائیوں نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا جسے سُن کر قاضی بہت حیران ہوا۔ ان تینوں سے کہا تم آج کی رات مہمان خانے میں ٹھہرو، میں کل تمہیں سوچ کر کوئی حل بتاؤنگا۔
یہ تینوں مہمان خانے میں جا کر ٹھہرے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد ان کے لئے کھانا لایا گیا جو گوشت کے پکے ہوئے سالن اور روٹیوں پر مشتمل تھا۔
پہلے نے کھانے کو دیکھتے ہی کہا یہ سالن کتے کے گوشت کا بنا ہوا ہے۔
دوسرے نے کہا روٹیاں جس عورت نے پکائی ہیں وہ حمل کے ساتھ اور پورے دنوں سے ہے۔
تیسرے نے کہا یہ قاضی حرام کی اولاد ہے۔
بات قاضی تک پہنچ گئی، اُس نے تینوں کو دوسرے دن اپنی عدالت میں طلب کر لیا اور تینوں سے مخاطب ہو کر کہا؛ تم میں سے کس نے کہا تھا یہ کتے کا گوشت پکا ہوا ہے؟ پہلا بولا میں نے کہا تھا۔
قاضی نے باورچی کو بلوا کر پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ پکانے کیلئے کچھ نہیں تھا تو اس کو شرارت سوجھی اور اس نے کتا مار کر اس کا گوشت پکایا اور ان کو کھانے کیلئے بھجوا دیا۔
قاضی نے پہلے سے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا یہ گوشت کتے کا ہے تو اس نے بتایا گائے، بکری یا اونٹ کے گوشت کے نیچے چربی لگی ہوتی ہے جبکہ یہ سارا چربی نما تھا جس کے نیچے کہیں کہیں گوشت لگا ہوا تھا۔ قاضی نے کہا تم وہ عبداللہ ہو جس کو اپنے باپ کے مال سے وراثت ملے گی۔
قاضی نے دوبارہ ان سے مخاطب ہو کر پوچھا کس نے کہا یہ روٹیاں ایسی عورت نے بنائی ہیں جو نو ماہ کے حمل کے ساتھ اور اپنے پورے دنوں سے ہے؟ جواب میں دوسرے نے کہا میں ہوں جس نے یہ کہا تھا۔ قاضی نے پوچھا تمہیں کیونکر یہ لگا تو اس نے کہا میں نے دیکھا روٹیاں ایک طرف سے پھولی ہوئی اور خوب پکی ہوئی ہیں تو دوسری سے کچی اور موٹی رہ گئی ہیں۔ میں نے اس سے یہی اخذ کیا روٹیاں بنانے والی ایسی خاتون ہے جس سے تکلیف کے مارے زیادہ جھکا نہیں جا رہا اور وہ سامنے کی چیز بھی نہیں دیکھ پا رہی جس کا مطلب یہی بنتا تھا کہ عورت حاملہ ہے اور روٹیاں بنانے میں تکلیف محسوس کرتی رہی ہے۔ قاضی نے اس دوسرے سے بھی کہا کہ تم وہ عبداللہ ہو جسے اس کے باپ کے ترکہ سے وراثت میں حصہ ملے گا۔
پھر قاضی نے تینوں سے مخاطب ہو کر پوچھا یہ کس نے کہا تھا میں ولد الحرام ہوں؟ تیسرے نے جواب دیا کہ یہ میں نے کہا تھا۔ قاضی اُٹھ کر اندر گیا اور اپنی ماں سے پوچھا کیا یہ سچ ہے کہ وہ حرامی ہے تو اُس کی ماں نے کہا یہ سچ ہے کہ تم حرام کے ہو۔
قاضی نے واپس آکر اس تیسرے عبداللہ سے پوچھا تمہیں کیونکر معلوم ہوا میں حرامی ہوں تو اُس نے جواب دیا؛ اگر تم حلالی ہوتے تو مہمان خانے میں ہم پر نگران نا مقرر کرتے، نا ہی کتے کا گوشت پکوا کر ہمیں کھانے کیلئے بھجواتے اور نا ہی کچی روٹیاں کسی مظلوم عورت سے بنوا کر ہمیں کھلواتے۔
قاضی نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم وہ عبداللہ ہو جسے اُس کے باپ کے مال سے ورثہ نہیں ملے گا۔
تیسرے نے حیرت کے ساتھ قاضی کو دیکھا اور پوچھا مگر ایسا کیوں ہے؟
قاضی نے کہا؛ کیونکہ ایک حرامی ہی دوسرے ولد الحرام کو ٹھیک ٹھیک پہچان سکتا ہے اور تم بھی میری طرح حرام کی اولاد ہو۔
وراثت پانے والے دونوں عبداللہ اپنی ماں کی طرف لوٹے اور دریافت کیا کہ ہمارے تیسرے بھائی کا کیا ماجرا ہے تو اُن کی ماں نے کہا تمہارا باپ ایک بار صبح کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اسے دراوزے پر رکھا ہوا پایا تھا، اسے گھر لایا، اس کا نام بھی تم دونوں جیسا عبداللہ رکھا اور اس کی پرورش کی۔
جی، تو ایسی ہوتی ہیں عربوں کی حکایتیں جن میں حکمت کے درس بھی ہوتے ہیں۔ مضمون عربی سے لیکر آپ کیلئے ترجمہ کیا گیاہے۔
واہ واہ ۔کمال کی پوسٹ
جواب دیںحذف کریںویسے عام زندگی میں بھی یہی ہوتا ہے کہ حرامی ہی حرامی کو پہچانتے ہیں۔شریف اکثر اسکے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
واہ جی کیا بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی اعلیٰ سلیم بھائی
جواب دیںحذف کریںزبردست جی۔ کیا بات ہے
جواب دیںحذف کریںبصارت اور بصیرت کا خوبصورت امتزاج یہ حکمت بھرا قصہ ۔ بہت شکریہ ایسے ہی اچھی باتیں شئیر کرتے رہیں ۔
جواب دیںحذف کریںبہت اچھا
جواب دیںحذف کریںہمیشہ کی طرح ایک خوبصورت کہانی
جواب دیںحذف کریںقاضی نے کہا؛ کیونکہ ایک حرامی ہی دوسرے ولد الحرام کو ٹھیک ٹھیک پہچان سکتا ہے اور تم بھی میری طرح حرام کی اولاد ہو
جواب دیںحذف کریںکہانی میں یہاں کمی محسوس ہوئی ـ قاضی نے یہاں اپنی چھٹی حس کا بیان تو دیا مگر عبادلہ ثلاثہ کی طرح ریزن نہیں دیا
میں نے یہ کہانی ،بچپن میں کچھ اور طرح پڑھی تھی ۔
جواب دیںحذف کریںجس میں اونٹنی والا معامل تو اسی طرح تھا لیکن اس میں دو اور معاملات بھی تھے
ایک معاملہ کسی عورت کا تھا جو کہ گھر سے بھاگی ہوئی تھی اور تیسرا معامل یاد نہیںہے
اور ان تینوںبھائیوں کا مسیلہ بھی کچھ اور تھا
کوئی اونٹوںکی تعدا تھی جو کہ بانٹنے میں حساب کا کوئی مسئلہ بنتا تھا جو ان لوگوںسے حل نہیںہوا تھا
اور قاضی کی بیٹی نے ایک اونٹ اپنی طرف سے شامل کرکے
ان کا مسئلہ حل کیا تھا
خاور بھائی، خوش آمدید، جی آپ کے ذہن میںکئی ایک کہانیاںگڈمڈ ہیں، مجھے ایسی کئی ایک کہانیاںیاد ہیں، جب بھی قلمبند کین آپ کو آگاہ کرونگا۔ تبصرے کیلئے شکریہ
جواب دیںحذف کریںجناب سعید صاحب المحترم، خوش آمدید۔ آپ نے ٹھیک محسوس کیا ہے کہ یہاں پر کہانی میں کچھ کمی ہے۔ اسے آپ دوسری زبان سے اپنی زبان میں منتقل کرنے کے دوران پیدا ہونے والی کوتاہی بھی شمار کر سکتے ہیں۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریںسر افتخار اجمل صاحب، آپ کی آمد بہار کی آمد، حوصلہ افزائی کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںانم فرھاد صاحب، بلاگ پر خوش أمدید، ترجمہ پسند کرنے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںبہن نورین تبسم صاحب، پسندیدگی اور حوصلہ افزائی دونوں کیلئے ممنون ہوں۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریںآپ نے کہہ دیا زبردست ہے تو ہوگا، شکریہ قبول کیجیئے
جواب دیںحذف کریںسر مصطفیٰ ملک صاحب، شکریہ شکریہ شکریہ
جواب دیںحذف کریںبھائی درویش خراسانی (مکرم منصور) المحترم
جواب دیںحذف کریںتشریف آوری اور تبصرے کیلئے شکریہ قبول کیجیئے، اللہ پاک ہمیں شریر لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے آمین
بہت عمدہ جناب۔۔۔۔ نہایت سبق آموز کہاوتیں ہیں کاش آج کل کے عرب لوگ ان کہاوتوں سے کوئی سبق سیکھ پاتے۔
جواب دیںحذف کریںکمال ہے لکھنے کا انداز اتنا اچھا تھا یوں لگا جیسے کہانی باقاعدہ سن رہا ہوں نا کہ پڑھ رہا ہوں۔ مجھے وہ وقت یاد آگیا جب نانا یا نانی جی کے پاس بیٹھ کر کوئی کہانی سنا کرتے تھے رات کے وقت اور اتنا مزہ آتا تھا کہ ایک لمحہ تو آنکھوں کے سامنے فلم چل جاتی تھی۔
جواب دیںحذف کریںبلکل ایسا ہی آج بھی محسوس کیا۔ بہت اچھی اور سبق آموز تحریر ، ہمیشہ کی طرح لاجواب۔
اللہ پاک آپ کو خوش رکھے ------------ آمین ثم آمین
خوبصورت کہانی کا خوبصورت ترجمہ
جواب دیںحذف کریںمجھے ایسامعلوم ہو رہا تھا گویا میں ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ان کے گھر سے قاضی کی عدالت تک
آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے جزاک اللہ خیر
MASHA ALLAH, Sir aap ki kahani parh kr boht aacha laga .. boht hi sabq amoz kahanian hoti hain aaap ki... me apne sub doston se share karta hun. Allah Paaak aap ko lambi sehat aur kamyabian ata farmaye Aameen
جواب دیںحذف کریںاسلام و علیکم
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی کہانی سلیم بھائی خوش رہیں آمین
ذہانت کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ اللہ جس کو چاہے فہم و فراست عطا کر دے
بہت شاندار سلیم بھائی۔
جواب دیںحذف کریںجناب سلیم صاحب اچھی تحریرپر مبارک قبول کریں خطہ عرب کےقدیمی باشندےگوعلمی زیور سے آراستہ نیہں تھےمگربلاغت و فصاحت فہم وفراست جود وسخاوت غیرت وحمیت اورشجاعت جیسی عدیم المثال صفات سے مالامال تھےکاش آج بھی یہ صفات نظر آتیں اس طرح کا ایک واقعہ علامہ سید محمودآلوسیؒ اپنی کتاب"بلوغ الادب"اور پیر سیدکرم شاہالازہریؒ اپنی کتاب"ضیاٴالنبی"میں تحریرکرتےہیں کہ حضوراکرم صلی ا لله علیہ و سلم کےآباوٴاجدادمیں سےنزار بن معد نےزندگی کے آخری ایام میں اپنےچار بیٹوں مضر،ربیعہ،ایاداورانمار کووصیت کی کہ میرے بعد جائداد کے سلسلے میں اگرتنازعہ ہوجاےتوافعی جرہمی کے پاس چلے جاناباپ کے مرنے کے بعدان بھایوں میں جھگڑاپیدا ہوگیاوصیت کے مطابق افعی جرہمی کی طرف روانہ ہوگۓ اثناٴراہ اونٹ والا واقعہ پیش آیااس واقعہ سے افعی جرہمی ان بھایوں کی فہم وفراست سے بہت متاثر ہوا رات کو اس نےپرتکلف کھانادیابعدمیں شراب کا دور چلا مضر کہنے لگاایسی بہترین شراب پہلے کبھی نیہں پی کاش اسکی بیل قبر پر نہ اگتی ربیعہ بولا ایسا لذیزگوشت آج تک نہیں کھایاکاش اس بکری کی پرورش کتیا کے دودھ سے نہ ہوتی ایاد کہنےلگامیں نےآج تک ایسا آدمی نیہں دیکھاکاش اسکی نسبت غیرباپ کی طرف نہ ہوتی انمار کہنے لگامیں نے آج تک ایسی گفتگو نہیں سنی جو ہمارے مقصد کے لۓمفید ہو افعی جرہمی یہ باتیں سن کر مجلس سے نکل کرسیدھا اپنی ماں کے پاس گیااور پوچھا سچ سچ بتامیرا باپ کون ہےاس نے کہامیں ایک سردار کی منکوحہ تھی وہ لاولد تھاتو کسی اور کی اولاد ہےپھر وە ناظم مطبخ کےپاس گیااور شراب کے متعلق پوچھا اس نے جواب دیا کہ میں نے تیرے باپ کی قبرپرانگور کی ایک بیل لگائ تھی یہ شراب اسی بیل کے خوشوں سے تیار کی ہےاسکےبعدچرواہےکے پاس گیاچرواہےنےاسے بتایاکہ بکری نے بچہ دیاتو مر گئ میں نےاس بچہ کو کتیاکے دودھ پرورش کی تھی افعی جرہمی ان بھائوں کی فہم و فراست سے بہت متاثر ہوا اور انکے درمیان فیصلہ کر دیا
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ حکایت کافی دلچسپ رہی
جواب دیںحذف کریں