تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 15 جنوری، 2014

آپ کی آگہی کیلئے



فاسٹ فوڈ کو بڑے تو سمجھ گئے ہیں کہ مضر صحت ہیں مگر بچوں  کا کیا کیا جائے کہ اُن کے سامنے کوئی دلیل نہیں چلتی۔ ویسے توآئے روز  نت نئی تحقیات  سامنے آتی  رہتی ہیں کہ ان کھانوں کے کے کیا اضرار ہیں، تاہم درج ذیل چھ باتیں ہو سکتا ہے آپ کیلئے نئی ہوں۔



کوکا کولا اپنے مشروبات میں فاسفورک ایسڈ کو ملا کر چینی کی تیز مٹھاس کو پیئے جانے کے قابل بناتا ہے۔ ان مشروبات میں فاسفورک ایسڈ نا ملایا جائے تو چینی کی کثیر مقدار ایک عام پینے والے کو قے کرنے پر مجبور کر دے۔ کوکا کولا مشروبات کے ہر ڈبے میں   10 چمچے چینی ہوتی ہے۔



تقریباً ہر فاسٹ فوڈ کمپنی  اپنے کھانوں کیلئے  گوشت کی تیاری کیلئے  ایک آٹومیٹک سسٹم  کے ذریعہ سے کرتی ہے جس میں گوشت ہڈیوں سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ اس طریقے میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہڈیوں کی کافی مقدار بھی اس گوشت میں مل جاتی ہے جو گوشت میں بکٹیریا کے پھیل جانے کا سبب بنتی ہے۔ اس ہڈیوں کا چورا ملے  گوشت کو کھانے کے قابل بنانے کیلئے اس میں گوشت کے مصنوعی رنگ اور مصنوعی خوشبو اور ذائقے ملائے جاتے ہیں۔


بازار میں ملنے والی گوشت کی بنی بنائی ٹکیوں یا گوشت سے بنائے کچھ روسٹو کی قسموں میں جمے  ہوئے خون کی آمیزش کی جاتی ہے۔ اس خون کو کاروباری اصطلاح میں گوشت کے قیمے کو  آپس میں مضبوطی سے چپکانے والی گوند  یا  (ٹرانس گلوٹامینیز ) کہا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اجزاء  کی ترکیب جو ان ٹکیوں کے  ڈبوں پر لکھی ہوتی ہے اُن  میں اس  مادے کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ یہ مادہ یورپ کے کئی ملکوں میں تو منع ہے مگر امریکا، جاپان اور سویڈن کے ساتھ ساتھ یورپ کے کئی  ساتھ ساتھ ملکوں میں اس کو استعمال کرنے  کی اجازت بھی ہے۔ اب پتہ نہیں اپنے ہاں کیا صورتحال ہے اس  مادہ کے بارے میں؟



ایک عالمی جائزے کے مطابق ہر وہ شخص جو اپنے کھانے کو انتہائی تحمل اور غور سے دیکھ کر کھاتا ہے وہ بھی سال میں اوسطاً بارہ بال کھا جاتا ہے۔ بالوں کے بارے میں یہ رائے دی جا سکتی ہے کہ ہر ریسٹورنٹ کے کھانوں میں پائے جاتے ہونگے مگر فاسٹ فوڈ کے اپنے انداز میں پیک یا لپٹے ہوئے اور پھر ان کو اندھا دھند کھائے جانے والے کھانوں میں بالوں  کا تناسب کہیں زیادہ ہوتا ہے۔



امریکی ادارہ ایف ڈی اے جو کھانوں اور دوائیوں میں حفظان صحت کے اصولوں کی ذمہ داری لیتا ہے وہ بھی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مونگ پھلی کے بنے ہوئے مکھن کے ہر سو گرام میں تیس کیڑے پائے جانا قابل قبول ہے۔ تو اس کا مطلب سیدھا سادا یہی بنتا ہے کہ ہم جو پینٹ بٹر بازار سے لیکر کھاتے ہیں اس میں کیڑے بھی پسے ہوتے ہیں جن کو ہم شوق سے کھاتے ہیں۔



فاسٹ فوڈ بنانے والی مشہور کمپنی میکڈونالڈ کے مینیو میں صرف سات ایسے کھانے ہیں جن میں چینی کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کا سیدھا سا  مطلب یہ بنتا ہے ان کے ہر کھانے میں چینی بدرجہ  اُتم چھپی ہوئی ہوتی ہے، حتٰی کہ فرنچ فرائیز میں بھی۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ 

23 تبصرے:

  1. بچے پھر بھی نہیں مانیں گے بھائی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر چہ بہت ہی مفید معلومات ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ۔ پڑھ کر یکدم میکڈونلڈ کی یاد آگئی۔
    میں‌اور میرے دوست ہمیشہ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ میکڈونلڈ اور کے ایف سی میں سے کونسا زیادہ لذیذ ہے۔ اکثریت کی رائے میکڈونلڈ کے حق میں ہے۔ اس کی وجہ ذائقے اور اشتہاانگیز خوشبو میں اس کی برتری ہے۔ جو کہ ظاہری بات ہے، بعد میں‌شامل کیے گئے کیمیکل اجزاء کی وجہ سے ہے۔

    میری رائے میں آپ کے مضمون میں ایک بات الٹی لکھی ہوئی ہے۔
    آپ نے کہا کہ کوکا کولا میں ٹنوں چینی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے فاسفورک ایسڈ ملایا جاتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق کوک کا فارمولا مختلف قسم کے سٹرس آئلز جیسے لیموں، نیرولی کا آمیزہ ہے (جن میں قدرتی طور پر سٹرس ایسڈ اور فاسفورک ایسڈ ہوتا ہے)۔ اسی لیے اگر چینی نہ ملائی جائے تو ذائقہ بہت ہی کڑوا ہوجائے گا۔ تبھی انتہائی ترش ذائقے کو چھپانے کے لیے اتنی چینی ملائی جاتی ہے۔ باقی جہاں تک چینی پینے سے قے آنے کی بات ہے، میرا خیال ہے کہ اتنی چینی پی کر قے نہیں‌آسکتی۔ تجربہ کیا ہے تو بتائیں۔

    جہاں تک بالوں کا اور کیڑے مکوڑوں کا تعلق ہے تو آپ جتنی مرضی گھن کھائیں، ان سے مکمل جان چھڑانا ممکن نہیں۔ صرف میکڈونلڈ یا پی نٹ بٹر بنانے والوں کو الزام دینا غلط ہے۔ اپنے سر پر موجود بالوں کی قسم کھا کر بتائیں، میکڈونلڈ والے صفائی کا زیادہ خیال رکھتے ہیں یا آپ کے ملتان کینٹ کا بھٹی چاولوں والا؟
    ویسے دو چار بال آپ اگر کھا بھی لیں گے۔ تو خدا کی قسم معدہ ہضم کرنے سے انکاری ھوجائے گے۔ بالوں کو صرف شیمپو ہی تباہ کرسکتا ہے۔ ورنہ کسی قسم کے تیزاب کا اس پر اثر نہیں ہوتا۔
    جہاں تک کیڑوں‌کی بات ہے تو جس حساب سے اپنے ریجن میں کیڑیوں کی بھرمار ہے، ایمانداری سے بتائیں کہ کھیت سے چکی تک کتنے سیر کیڑے گندم/آٹے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ؟ سو پچاس تو پس ہی جاتے ہوں گے!
    ملتانی ھو کر گوشت میں‌بیکٹیریا والی بات کرنا ۔ ۔ ۔:) ۔ ۔ ۔ میکڈونلڈ کا گوشت زیادہ صاف ہوگا یا چھیمے قصائی کا۔ ؟

    سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
    :)

    جواب دیںحذف کریں
  3. تجزیئے ایک طرف مجھے تو ویسے ہی ازل سے کوکا کولا پیسی وغیرہ اچھے نہیں لگتے ۔ ایک دہائی سے زیادہ ہو گیا کہ میں سیون اپ سپرائٹ مرندا وغیرہ سے بھی بچنے کی پوری کوشش کرتا ہوں قسم نہیں کھا سکتا کہ چند میزبان زبردستی پلا دیتے ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. کوک کے حوالے سے ذاتی تجربہ ہے گلاس میں دس منٹ پڑی رہنے دیں‌ پھر پی کر دیکھیں۔ تصور بھی نہیں ہو گا کہ اتنی چینی ہے اس میں۔
    بالوں کی بات پائے کھانے والوں سے پوچھیں۔ بڑے پائے، چھوٹے پائے یا سری کو جتنا بھی صاف کر لیا جائے اس میں‌ بالوں کی جڑیں‌ لازمی رہ جاتی ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی ہڑپ کر لیے جاتے ہیں۔ بال پروٹین ہی ہوتے ہیں ان کے نہ ہضم کا سوال ہی پیدا نہیں‌ ہوتا۔
    کیڑے تو آج کل بطور خوراک فروغ پا رہے ہیں۔ اور غریب ممالک کی آئندہ پروٹینی غذا کا نام پا رہے ہیں۔ خاص طور پر ٹڈیاں، جن کی رسول پاک ﷺ سے بھی روایت ملتی ہے۔ ٹڈی دل ہو یا عام ٹڈی، ایک وقت آئے گا کہ پریمیم گوشت کم ہو جانے پر اس کی جانب متوجہ ہونا پڑے گا اور پھر اجتہاد بھی ضروری ہو گا۔ یہی اجتہاد مصنوعی گوشت کے لیے بھی کرنا پڑے گا۔
    صفائی کے معاملے والی بات قابلِ فکر ہے۔ لیکن ہم تو چکن ونگز وغیرہ ہی کھاتے ہیں وہ بھی میکڈونلڈز سے نہیں۔ وہاں اتنا سارا ٹیکس جو دینا پڑتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ نے معلومات تو بہت خوب دیں لیکن اب بندہ اس " چسکے " کا کیا کرے بھلا :)

    جواب دیںحذف کریں
  6. جناب ملک صاحب ، کیا کیا جائے، پہلے چسکا لگاتے ہیں اور بعد میں اس سے منع کرتے ہیں۔
    بات صرٖف فاسٹ فوڈ کی نہیں ہر اس مصنوعی غذاء یا مصنوعی طریقے سے پرورش پائی غذا کی ہے جسے پہلے ہمارے روزمرہ کے استعمال میں جزو بناتے ہیں بعد میں کہتے ہیں یہ تو مضر ہے۔ اللہ مستعان۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. پیارے بھائی باسم جوانی پٹا، بلاگ پر خوش آمدید۔ اھلاً و سھلاً۔
    کوکاکولا کے بارے میں آپ کی بات زیادہ حقیقت سے قریب نظر آتی ہے۔
    ایران کے ایک مشہور طبیب آقائی جمشید خدادادی پہلے ایئرفورس میں پائلٹ تھے ریاٹائر ہونے کے بعد قرآنی احکامات پر غور کرنے لگے تو کئی باتوں کو نیا پایا۔ ان میں ایک بات یہ بھی بھی جب بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو نیک اعمال کرنے کا کہا تو اس سے پہلے طیب چیزیں کھانے اور ساتھ ہی بعد میں نیک عمل کرنے کا کہا میں کیا حکمت ہے۔ ان پر یہ راز آشکارا ہوئے کہ مصنوعی غذائیں یا کیمیاوی اجزاء سے تیار پائی غذائیں کس طرح انسانی حواس کو مختل اور فطرت سے بد ظن کرکے کے اس کے عبادات کے نظام کو توڑ پھوڑ رہی تھیں۔ ان صاحب سے متاثر ہو کر ایک بار میں اپنے غذائی نظام کو قدرتی کھانوں کی طرف موڑا تو چینی سے بھی یاتھ روکنے پڑے۔ مسلسل چینی سے پرہیز کے بعد جب کبھی کسی میزبان کے ہاتھوں مجبوراً کچھ لینا پڑا تو انتہائی شدید سر درد اور الٹیوں کا شکار ہوا۔
    میٹھا سوڈا کی کچھ مقدار انسانی صحت کیلئے خراب شمار ہوگی مگر وہی مقدار ہم مراحل میں کئی گنا زیادہ کھا گئے۔
    کولا پر تحقیق کرنے والوں نے ثابت کیا کہ اس کے عادی بچے انتہائی چڑچڑے، کسلاہٹ کا شکار اور بد تمیز پائے گئے۔ اس کے عادی افراد ہڈیوں کے بھربھرے پن کا شکار ہوئے۔
    مرغی کی غذاء کیسے بنی ہے جاننے والوں کی تو ہمت ہے کہ مرغی کھا لیتے ہیں، تاہم کوئی نفیس انسان اس غذاء کو ہتھیلی پر رکھ کر کچھ دیر بغور معائنہ کر لے تو آئندہ مرغی نا کھا سکے۔ کہنے والے تو یوں کہنے لگے کہ یہ مرغی پنتالیس دنوں میں یہ کچھ کھا کر ایک بم کی مانند تیار ہو چکی ہے اور یہ آہستگی کے ساتھ کچھ نا کچھ نقصان ضرور پہنچائے گی۔
    چینی کو سفید کرنے کے چکروں میں اس پر جتنے ایک ظلم کیئے گئے، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ہماری صحت کی بربادی کیلئے کیا کچھ نہیں کرتی۔
    گائے جیسے چھ یا سات لیٹر دودھ دینے والے جانور کو چالیس لیٹر دودھ دینے والی مشین بنا دیا گیا مگر واقف حال جانتے تھے کہ گائے سے نکالا گیا یہ سفید محلول دودھ نہیں تھا۔
    انڈیا میں تو آگہی دینے والوں نے شکار مچانا شروع کر دیا ہے کہ بھینسوں کو اوکسی ٹوسن ٹیکے لگا کر دودھ بیچنے والو ہماری بچیوں کو وقت سے پہلے برباد کرنے والو باز آ جاؤ۔
    آرگینک کے نام پر سبزیاں، دالیں اور دوسری غذائی اجناس کھانے والے کچھ تو سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں انہیں کی نارمل چیزوں سے دس گنا مہنگی لیکر کیوں کھا رہے ہیں۔
    اچھا، میں آپ کو بتانا بھول گیا کہ آقائی جمشید خدادادی کا تعارف مجھے میرے ایک افغانی دوست نے کرایا تھا جس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر میں چند مہینوں میں اپنا وزن تیس کیلو کم کیا تھا کئی امراض سے راحت بھی پائی تھی۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. سر افتخار اجمل بھوپال صاحب، تشریف آوری کیلئے شکریہ قبول فرمائیں۔
    محض مذاق میں پیئے گئے کولا کے چند گھونٹوں کو ہضم کرنے کیلئے ہمارے جگر کو چار گنٹے اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے کاموں میں کولا کے رنگ، کیمیاوی عناصر، چینی اور پانی کو علیحدہ کرنا۔ مضر صحت اجزاء کی اتلافی اور کارآمد کو استعمال کرنا شامل ہوتا ہے۔ آپ اس سے بچ کر رہتے ہیں تو اچھا کرتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. شاکر بھائی۔ اھلاً و سھلاً۔
    ٹڈی کو عربی میں جراد کہتے ہیں اور اس کے کھانے کے جواز کے بارے میں اکثریت جانتے ہیں۔ ذیک کی تصویر دیکھیں جس میں ایک عربی ٹڈیوں کو بیچ رہا ہے۔
    http://alwanarabiya.se/wp-content/uploads/2013/03/150499_jarad.jpg
    ابھی پچھلے دنوں ایک تحقیق سامنے آئی ہے کہ مرغیوں کے سب سے زیادہ متاثرہ اجزائ اس کے ونگز ہیں جن میں ٹیکے کے اثرات محفوظ رہتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. محترم محمد اسلم فہیم صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ جی ہاں، یہ چسکا لگا کر ہی تو ہمیں بغیر دھاگے سے باندھ کر رکھتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. محمد سلیم بھای،،،اب ان سے چھٹکارہ کیسے حاصل کریں؟ ایک پوسٹ اس پہ بھی بنتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  12. سلیم بھائی اچھا معلوماتی مضمون لکھا آپ نے-
    لیکن جدید زندگی کے جزولنیفک بن چکے ہیں اور جان چھڑانا کافی مشکل ہے-
    جہاں تک کھانے میں بال اور اس طرع کی چیزیں نکلنے کا تعلق ہے اس معاملے میں ہماری قسمت تیز ہے- یہاں تک سسرال میں جب مسلسل ہماری پلیٹوں سے بال اور اس انواع کی دوسری چیزیں برآمد ہوئیں تو فیصلہ ہوا کہ داماد جی کو اندھرے میں روٹی پیش کی جائے
    اور بیگم صاحب سے آرڈر ہوا کہ اگر کچھ نکل آئے تو چپ کرکے پھینک دیا کریں-
    مرغی کی غذا اس کے گوشت پر اثر کرتی ہے یہ بات شواہد چاہتی ہے :)

    جواب دیںحذف کریں
  13. برادر ابو عبداللہ، تشریف آوری کا شکریہ۔
    آپ کی قسمت پر رشک کیا جا سکتا ہے جی۔ اللہ پاک آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھیں۔
    مرغی کو بیسٹ کیریئر فار دی ڈیسیسز کہا جاتا تھا کسی زمانے میں۔ عرب ملکوں میں اشتہار بازی مرغی کی نہیں، مرغی کس خوراک پر پلی ہے کی جاتی ہے۔ 45 دن تک آتش اثر غذاء کھانے سے بغیر سوئے اور بغیر کسی آرام کیئے مسلسل پانی پینے اور کھانے سے پل کر جوان ہوئی مرغی جسم میں جا کر کیا گل کھلاتی ہے اس کیلئے کسی طبی ماہر کی نہیں اپنے دل سے پوچھنا پڑتا ہے۔
    درج ذیل اشتہارات میں مرغی بتا رہی ہے کہ اس کی پرورش قدرتی کھانوں سے ہوئی ۔

    http://www.fakiehfarms.com/Lists/PhotoGallery/Attachments/147/5-big.jpg
    http://www.fakiehfarms.com/Lists/PhotoGallery/Attachments/30/9-big.jpg

    جواب دیںحذف کریں
  14. عامر خاکوانی16 جنوری، 2014 کو 8:14 AM

    ممکن ہو تو اآقائے خدادادی کی تعلیمات، ان کا فلسفہ خوراک اور وزن کم کرنے کے ٹپس بھی بیان کیجئے۔/ شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. بہت عمدہ اور نہایت معلوماتی تحریر ہے اور یہ موضوع جتنا سیدھا سا نظر آتا ہے درحقیقت کافی پیچیدگیاں اور تفاصیل لیے ہوئے ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی حضرت انسان کو بہت مہنگی پڑتی ہےاور امراض کی کثرت اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اسی لیے آج کی ترقی یافتہ دنیا میں آرگینک فوڈ کو نہایت اہمیت دی جارہی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  16. محترمی خاکوانی صاحب، آخر میں کچھ اس بارے میں لکھ رہا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  17. ہو سکتا ہے درج ذیل باتیں بے ربط ہوں، تاہم فائدے پر توجہ دی جائے:
    ایک توانا زندگی کیلئے ہمیں اپنے جسم کی راحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے اور جن چیزوں کا زیادہ خیال رکھا جائے وہ اعضائے رئیسہ جگر معدہ اور گردے وغیرہ ہیں۔ فضول، بے وقت اور بلا ضرورت کھانا ان سب پر برا تاثر چھوڑتا ہے۔ پانی کس طرح پینا ہے سنت نے قاعدہ بنا دیا کہ کھانے سے پہلے افادیت ہے تو کھانے کے بعد ضرر ہے اور درمیان والا بس چل جاتا ہے۔ شہد لوگوں کیلئے شفاء مقرر کی گئی، جس گھر میں کھجور نا ہو اس کو احسن نا کہا گیا اور دیگر کئی چیزوں کو دواء کہا گیا گیا مگر ہوا یوں کہ کام و دہن غالب اور پیٹر و مائیکل کے اقوال زیادہ با اثر، دین ثانوی چیز بن گیا۔
    عرب علماء بھی بول پڑے کہ موجودہ عرب معاشرے میں اندر خانہ (ان ڈور) تبرج (ننگا پن) دراصل اس سور کے کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہوا جو ٹن پیک فوڈز یا فاسٹ فوڈز اور دیگر لوازمات میں کلی یا جزوی طور پر ان کے استعمال میں آیا۔ کئیوں نے تو یوں بھی کہا بھائی آنکھیں بند رکھو اور چلنے دو، زیادہ غور کیا تو بیزا بھی نا کھا پاؤ گے کہ اس میں ڈالا گیا پنیر چیزی چیزی لگتا ہی تب ہے جب سور کی آنتوں سے حاصل شدہ مادے رینیٹ کو ملا کر نا بنایا گیا ہو۔ باقی سور کہاں کہاں استعمال ہوا اس کو چھپانے کیلئے اجزاء ناموں میں نہیں کوڈز میں لکھے جانے لگے۔
    کھانا زندگی کیلئے نہیں، زندگی کھانے کیلئے مقصد بن گئی۔ لوگ جانتے ہیں کہ رات کو پیٹ بھر کر کھا کر سو رہنا جبکہ رات کو ھضم کرنے کا نظام اپنی کارکردگی جاگتے وقت کے حساب سے نصف بھی ادا نہیں کر پا رہا ہوتا، تو یہ کھانا پیٹ میں گیسیں بنا کر دماغ کو ساری رات شل اور مختل رکھتا ہے۔ ایسے لوگ صبح کو دیکھنے والے ہوتے ہیں، کوئی بات کرے تو کاٹ کھائیں جب تک ان کے جاگنے کے بعد کا مناسب وقت ان کے پیٹ کے نظام کو درست نا کر دے۔ بلکہ کئیوں کے بارے میں تو مشہور ہوتا ہے کہ ان کو بندہ صبح سویرے ملنے ہی نا جائے۔
    معدہ انسان کا ایماندار ترین نظام ہے کہ جو کچھ ہم کھائیں اس میں سے رنگ، غذائیت والے اجزاء، پانی اور فضلہ ٹھیک ٹھیک علیحدہ کرتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نے رنگ علیحدہ نا کیئے ہوں اور واپس بھیج دیئے ہوں۔ ایسے میں اس کا کام بہت بڑھ جاتا ہے جب ہم کئی اقسام کے کھانے معدے میں انڈیل لیں۔ ساری رات ہضم کی کوشش کرے گا، ہو سکا تو ٹھیک ورنہ احباب خود بتاتے ہیں کہ صبح قے آئی تو تب جا کر طبیعت اچھی ہوئی۔ ہوا یوں تھا کہ معدے نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ میں نہیں ہضم کر سکتا جو کچھ اور جتنا کچھ آپ رات کو کھا کر آئے تھے اور اس کام میں ناکام ہو چکا ہوں۔ یاد رکھیئے زیادہ کھانا ایک علت ہے ضرورت ہرگز نہیں، کچھ دن توازن سے کھائیں، ابتدائی دو تین دن مسئلہ بنے گا بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
    اب ایسا کیا کیا جائے اور کیسے کھایا جائے جو ہمارے لیئے مفید ہو، سنت سے متصادم نا ہو اور ہمیں فوائد دے؟
    صبح معدے کو مشقت والا کام نا دیں، ایک یا آدھا سیب، کچھ خشک میوہ جات، سات دانے کھجور اور ایک چمچ شہد پانی کے گلاس میں لیموں کے ساتھ ملا کر ناشتہ کریں۔ ہلکا پھلکا کھانا ناشتہ آپ کو بارہ ایک بجے تک تقویت دے گا، تاہم اس سے آپ کے معدے سے تمام زہریلا مواد بھی خوب خارج ہو چکا ہوگا اور آپ دوپہر کو ایک اچھے کھانے کیلئے تیار ہونگے۔ کھانے سے گھنٹہ بھر پہلے تک اپنے حساب سے جتنا پانی نوش کرتے ہیں وہ کوٹا پورا کر لیجیئے۔
    دوپہر کو صرف ایک قسم کا کھانا کھائیے۔ ہو سکے تو ہفتہ بھر کا نظام بنالیجیئے کہ کس دن سبزی اور کس گوشت، مچھلی، دالیں یا چاول کھانے ہیں۔ کھانے کے دوران ٹیلیویژن ہرگز نا دیکھیں، زمین پر دسترخوان بچھا کر کھائیں، خاندان کے ساتھ مل کر کھائیں، کھانے کے دوران خوشگوار گفتگو کریں۔ کھانے کے بعد قیلولہ کرنا عادت بنائیں خواہ یہ قیلولہ چند لمحے ہی کیوں نا ہو۔
    رات کو کبھی بھی پکا ہوا کھانا نا کھائیں۔ صبح جیسا کھانا آپ کو ایک پر سکون نیند دیتا ہے، دماغ کسی گیسوں کے زیر اثر نہیں ہوتا، برے خواب نہیں آتے اور سب سے بڑی بات ہلکا کھانا چار گنٹوں میں ہضم ہو کر آپ کو صبح ہشاش بشاش جگاتا ہے، آپ کو اچھائی کی طرف راغب کرتا ہے اور نماز قران پڑھنے کی توفیق ملتی ہے۔ کھانے کا ایک اچھا نظام نا صرف یہ کہ آپ کی صحت کا ضامن بنتا ہے بلکہ آپ کے خاندان کو بھی آپس میں جوڑتا ہے۔
    یاد رکھیئے تن آسانی، بیکری آئٹم میں کھایا گیا سوڈا اور دوسرے کیمیکل اور دن بھر دوسرے کیمیاوی مرکبات جو ہم بازاری چیزوں یا کھانوں میں ملے کھاتے ہیں وہ آج تو ہماری صحت یا ہمارے جگر کے توانا اور معدے کے تندرست ہونے کی وجہ سے ہمیں محسوس نہیں ہوتے مگر یہ وقت کے ساتھ ہمارے جسم پر اپنا اثر ضرور دکھاتے ہیں۔ گھٹنوں کے درد، ذیابیطس اور دیگر ناقابل ذکر موذی امراض انہی تن آسانیوں اور منہ کے ذائقوں کے اثر سے ہم تک پہنچتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  18. عامر خاکوانی17 جنوری، 2014 کو 5:05 AM

    بہت عمدہ۔ جزاک اللہ۔ دوپہر کو دفتر میں ہونے کی وجہ سے قیلولہ وغیرہ پر عمل مشکل ہے، کھانا بھی گھر میں‌کھانا ممکن نہیں کہ اکثر جگہوں پر نو سے پانچ بجے والی ٹائمنگز ہی چلتی ہیں۔ اس حساب سے تو لنچ بھی ہلکا پھلکا چلتا ہے ، شام یا رات کو کھانا گھر کھایا جا سکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  19. بھر پور معلوماتی تحریر ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ تبصرات ۔ ۔ ۔ خود بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔

    جواب دیںحذف کریں
  20. برادرم ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، کیا حال ہیں؟ واپسی ہو گئی آپ کی جدہ؟
    اللہ پاک ہم سب کو ہم قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھیں۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  21. محبوب بھوپال23 جنوری، 2014 کو 9:45 AM

    اسلام و علیکم رحمۃاللہ مگر بچوں کا کیا کیا جائے کہ اُن کے سامنے کوئی دلیل نہیں چلتی۔ ؟
    تبصرے میں بڑی کارآمد باتیں بتائی ہیں‌آپ نے۔ آللہ خوش رکھے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  22. سیلم بھائی، آپ نے یارے بھائی باسم جوانی پٹا کا جواب مکمل نییں دیا۔

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں