تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 12 دسمبر، 2013

لا پتہ افراد کا دکھ

اسی مردم بیزار معاشرے کے ہی کچھ افراد اپنے گھروں میں ناصرف  جانور پالتے ہیں بلکہ اپنے ان پالتو جانوروں کے اچھے خاصے ناز نخرے بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ کوئی معاشرتی تضاد نہیں انسان کا اندرونی احساس ہے جو یہ شعور دیتا ہے کہ جان تو آخر جان ہوتی ہے خواہ وہ انسانی ہو یا کہ کسی جانور کی، ہاں کچھ لوگوں کو اللہ نے اگر اس شعور اور احساس سے عاری رکھا ہے تو ان کا اپنا نصیب۔ میں بذات خود ایک انتہائی متوسط طبقے کا ایسا فرد ہوں، جن کا کتے بلی اں  پالنا کبھی بھی شوق  نہیں رہا۔   مگر حادثاتی طور  پر ایک بلی ہماری سرپرستی میں آگئی۔ ہوا یوں کہ:

میری گھر والی نے شام ڈھلے کے کام کاج سے فرصت پر یاد اللہ کی، ایک نظر بچوں پر ڈالنے اور گھر کی اضافی بتیاں بجھانے کیلئے گئی  تو بچوں کو ایک ہی صوفے پر گم صم بیٹھے پایا۔ سب کو جلدی سونے کی تلقین کی اورخود جا کر سو گئی۔ دو گھنٹے کی نیند کے بعد جب اٹھی تو بچوں کو ابھی بھی صوفے ویسے ہی سر جوڑے  بیٹھے ہوئے پایا۔ معاملے کی تحقیق کی تو بھید کھلا کہ یہ لوگ  اپنے کسی دوست کے گھر سے بلی کا ایک نو زائیدہ بچہ اٹھا  تو لائے تھے مگر اب اس کی باقی کی ذمہ داریوں  اور راز کھل جانے کی صورت میں پیدا ہونے والی مصیبتوں  کے آنے سے  پریشان بیٹھے  تھے۔  گھر والی نے ڈانٹ ڈپٹ کر بچہ لے لیا اور کہا کہ رات کو اسے میں سنبھالتی ہوں، تم لوگ صبح اسے جا کر واپس کر آنا ، ہم اس کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے۔  بچہ بھوکا پیاسا تھا، اسے دودھ پلایا، ایک بالٹی میں ریت ڈال کر کچھ دیر حوائج کیلئے بٹھایا، پھر ایک ٹوکری میں کچھ نرم کپڑے رکھ کر اسے گرمائش دیکر اپنے کمرے میں سلا دیا۔

صبح تہجد کیلئے جاگی تو یہ بچہ بھی اس کے ساتھ ہی جاگ گیا اور یہ جہاں جہاں جاتی تو اس کے پیچھے پیچھے چلتا۔ صبح بچے جب تک سکول جانے کیلئے تیار ہوئے بچہ گھر اور گھر والی سے خاصا مانوس ہو چکا تھا۔ بچے سکول سے واپس آئے تو  بلی کا بچہ واپس نا کرنے کی ضد کی تو گھر والی کے لہجے میں وہ پہلے والی شدت نا تھی اور بچے سے  چند دن کھیل کر واپس کرنے  کی شرط پر مان گئی۔

مہینے بھر کے بعد بلی کو واپس لوٹایا گیا مگر دو دن کے اس دوست کا فون آ گیا کہ بھائی تمہاری بلی دو دن سے خاموش ہے اور کچھ کھا پی بھی نہیں رہی، اس طرح تو مر جائے گی، بہتر ہے آ کر لے جاؤ۔ مرنے کا سننا تھا کہ بچے بھاگے اور بلی کو واپس لے آئے۔ گھر والی نے کہا اب یہ ہمارے گلے پڑ گئی ہے تو  بس ٹھیک ہے ۔ پھر رہے پھر ہمارے گھر۔ اور اس طرح یہ بلی ہمارے  گھر کا مستقل فرد شمار ہو گئی۔ فوڈ فیسٹیول سے  لایا گیا مخصوص کھانا، دوپہر کو تھوڑی سی بالائی، دو دن کے بعد شیمپو کے ساتھ نہلانا، تولیہ میں لپیٹ کر ہیر ڈرائیر سے بال خشک کرانا اور پاؤڈر پرفیوم لگا کر رکھنا اس کا مقدر ٹھہرا۔ عادتیں ایسی بگڑیں کہ دوپہر کو فریج کے سامنے کھڑے ہو کر شور مچانا کہ بالائی ابھی نکال کر دو۔ ہر پکتی چیز میں سے اپنے لیئے ضد کر کے حصہ لینا، ٹانگوں سے لپٹ کر روک لینا اور جب تک اس کی پلیٹ میں کھانا نا ڈال دیا جائے تب تک ٹانگیں نا چھوڑنا اس کی عادتیں بن گئیں، اس کی حوائج کیلئے گلی کی صفائی کرنے والے کا تعاون حاصل ہو گیا جو ہر دو دن کے بعد اس کی بالٹی کی ریت تبدیل کر دیتا تھا۔ پانچ چھ مہینے کے بعد اس کی بدلتی ہوئی جسمانی تبدلیوں کی وجہ سے اب ہر مہینے پانچ سو کا ٹیکہ بھی اس کے اخراجات میں شمار ہو گیا۔  بچوں کے دوست ان کو کہتے تھے یہ تمہاری بلی نہیں باجی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا کہ پندرہ سال کے وقفے کے بعد کوئی ننھا جی دار ہمارے گھر میں داخل ہوا تھا۔

اس کہانی میں تبدیلی اُس وقت آئی جب کوئی آٹھ ماہ کے بعد ایک بار اس بلی نے گھر کے کمبل خراب کر دیئے۔ خوب اودھم مچا، کچھ بلی کی سرزنش ہوئی تو کچھ بچوں کو ڈانٹا گیا جنہوں نے بلی کو کمرے میں بند کیا ہی کیوں تھا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ہفتہ بھر کے بعد اس بلی نے ویسی ہی حرکت ایک بار پھر کر دی۔ اس  بار کوئی ایسے آثار نہیں تھے کہ بلی بند ہوگئی تھی یا اُسے آزاد ماحول میسر نہیں تھا۔ اس بار بلی کی سرزنش کے ساتھ پٹائی  (ایک آدھ تھپڑ وغیرہ)بھی کی گئی۔  اگلے مہینہ بھر میں بلی نے پھر چند بار  ایسی حرکت دہرائی تو گھر والی نے بلی کو مارنا چھوڑ دیا کہ معصوم جانور کو اذیت دے کر گناہ نا لیا جائے۔ اُس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ بلی اس قابل ہے ہی نہیں جسے گھر میں رکھا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ بلی کسی کو دے دی جائے اور ساتھ ہی لوگوں سے پوچھ گچھ اور مناسب گھر کی تلاش شروع کر دی گئی، چند ایک ملنے والوں سے کہہ دیا گیا۔ اپنے گھر کی صفائی کرنے والی  ماسی کے ساتھ  ادھر اُدھر کی ماسیوں کے ذمہ بھی لگا دیا گیا کہ کوئی ایسا گھر ڈھونڈھیں جہاں پہلے ہی بلیاں ہوں تاکہ ہماری بلی اُس ماحول میں جا کر ایڈجسٹ ہوجائے۔

بار بار پوچھنے پر، ایک بار ہماری ہی ماسی نے کہا کہ باجی ایک گھر ہے جن کے بچے بلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کے گھر میں پہلے بھی کئی بلیاں ہیں۔ میں خود ان کے گھر میں شام کو کام کرنے جاتی ہوں، ویسے اُن سے بات ہو گئی ہے اور اُن کے بچے آپ والی بلی کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ بات معقول تھی اس لیےے طے پایا کہ بلی انہیں دیدی جائے۔ دوسرے دن بلی نے جانا تھا تو عین موقع پر دل نا مانا، فیصلہ کیا گیا کہ ایک دو دن اور کھا پی لے۔ دو دن کے بعد پھر دل نا مانا۔ جمعہ والےدن بچے نماز کیلئے گئے تو گھر والی نے  بلی کو نہلا،  پاؤڈر اور پرفیوم لگا کر، نئے تولیئے میں لپیٹ کر ماسی کے حوالے کیا کہ بلی  جا کر ان لوگوں کو دیدےاور ان سے فون نمبر لے لے تاکہ بعد میں بلی کی خیر خیریت پوچھ لی جائے۔ ارادہ یہی تھا کہ اگر بلی کا دل نا لگا تو واپس لے آئیں گے۔

دوسرے دن ماسی کا انتظار کیا جاتا رہا مگر وہ نا آئی۔  تیسرے دن آئی تو  پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ہاں بلی ادھر بہت خوش تھی، بچوں نے اُسے بہت پیار کیا، خاتوں خانہ نے فوراً گوشت ابال کر بلی کو کھلایا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ٹیلی فون نمبر کہاں ہے کے جواب میں اس نے بتایا کہ یاد نہیں رہا کل لیتی آئے گی۔

چوتھے دن ماسی آئی تو بھی فون نمبر اُس کے پاس نہیں تھا۔ میری گھر والی نے ماسی سے کہا کام میں خود  کر لیتی ہوں، تمہیں میرا بیٹا وہاں لیکر جاتا ہے جہاں تم بلی دے آئی ہو، اس طرح وہ گھر بھی دیکھتا آئے گا اور فون نمبر بھی لیتا آئے گا۔ میرے بیٹے کو وہاں جا کر پتہ چلا کہ ان لوگوں نے نا تو ہماری ماسی سے بلی مانگی تھی، نا ہی وہ بلیوں کے شوقین تھے اور نا ہی ہماری بلی اب ان کے پاس تھی۔ ماسی ان کے گھر میں بلی لیکر ضرور گئی تھی مگر جیسے ہی ان کے بچے  اتنی صاف ستھری اور پیاری بلی کے پیچھے بھاگے، بلی ان سے ڈر کر بھاگ گئی تھی۔

جیسے ہی میرا بیٹا یہ خبر گھر لایا، گھر میں تو کہرام مچ گیا۔ صرف اتنا سوچ کر ہی کہ بلی چار دنوں سے بھوکی پیاسی ہوگی سب رونے لگ گئے۔ گھر والی اس گھڑی کو کوسنے لگی جب اس نے ماسی پر اعتبار کیا تھا ۔ بلی ڈرپوک تھی کسی کتے نے پھاڑ نا کھایا ہو۔، بلی نازک مزاج تھی اسے صاف پانی کہاں سے ملا ہوگا، بلی  نرم بستر پر سونے کی عادی تھی پتہ نہیں اب کہاں سوتی ہوگی۔ بس دو چار بار ہی تو گھر کو خراب کیا تھا  اس کی عادتیں ٹھیک بھی کی جا سکتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ نجانے کون کون سے خیالات اور کہاں کہاں سے کوند کر دماغ کو احساس جرم دلانے کیلئے آرہے تھے۔ سب نے اپنے اوپر کھانا پینا حرام کیا اور جس کا جس طرف منہ اٹھا بلی کو ڈھونڈھنے چل نکلا۔ بلی وہاں سے دور نہیں گئی ہوگی سوچ کر وہاں کے سارے مکینوں سے بلی کی بابت پوچھا گیا، کسی نے اللہ ترسی دکھائی تو اسے کہا گیا کہ نظر آئے تو ہمیں فون کردے۔ محلے کے دکانداروں  سے سو پچاس کی بوتلیں چاکلیٹ پی اور کھا کر ان سے اتنی سی مروت مانگی گئی کہ ہماری مدد کر دو۔ رات کو سب ناکام لوٹے تو صف ماتم اور گہری ہو گئی۔ ان لوگوں کا گھر ہمارے گھر سے تین کیلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ منطقی لحاظ سے ایسی بلی جس نے پہلے یہ راستہ نا دیکھا ہو کا واپس آنا غیر منطقی تھا مگر میری گھر والی نے وہ رات گھر کے مین گیٹ کے پیچھے کرسی پر بیٹھ کر گزاری کہ کہیں رات کو بلی ادھر تک آئے۔ وہ بولتی رہے اور ہم سوتے نا رہ جائیں مگر ایسا کچھ نا ہوا۔

پانچویں دن جیسے ہی ماسی آئی تو میری گھر والی نے اس سے پوچھا؛ ماں جی تو نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے سادگی سے جواب دیا تم ہی تو اس بلی سے جان چھڑانا چاہتی تھی، اب کہو تو اس بلی کے بدلے میں دس اور بلیاں تم کو لا دوں؟ یہ معاملہ ایک شعور اور محسوس کا تھا جس سے یہ ماسی عاری تھی۔ یہ بات دسیوں بلیوں کی نہیں ایک مخصوص بلی کی تھی جس سے دلی انسیت تھی۔ بات یہ نہیں کہ ہم بلیوں کے عاشق تھے، بات اتنی سی تھی کہ ہم نے ایک بلی کے ساتھ ظلم کیا تھا۔ میری گھر والی کو پتہ چل گیا کہ یہ اماں ان جذبات کو محسوس نہیں کر پائے گی اور اس سے بات کرنا فضول ہے تو اسے پانچ سو روپے دیتے ہوئے کہا؛ ماں جی یہ تمہاری چائے پانی۔ بجائے اس کے تم یہ وقت میرے گھر لگاؤ، تم جا کر اس بلی کو تلاش کرو تمہاری مہربانی ہوگی۔ بچوں نے نے سکول و کالجز سے چھٹی کی ہوئی تھی اور بلی کے پیچھے پھر رہے تھے۔ اور یہ ماسی بھی بظاہر تو بلی کو تلاش کرنے چلی گئی مگر شام کو ہمارے گھر آ کر بولی کہ میرا گھر والا کہتا ہے یہ پانچ سو تھوڑے ہیں، اگر ہمیں پانچ ہزار روپے  دو تو ہم بلی ڈھونڈھ دیں گے۔  تاہم میری گھر والی نے اسے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ اگر تو بلی ڈھونڈھ لائی تو تجھے دو ہزار روپے دیں گے۔ ماسی عقل کی ذرا تھوڑی تھی اس لیئے اسے کوئی بمشکل کام پر رکھتا تھا ، اس وجہ سے میری گھر والی نے  اسے کام سے بھی نا ہٹایا اور آئندہ اس موضوع پر بات نا کرنے کی ٹھانی۔ کیونکہ اس کا قصور کم اور ہمارا اپنا زیادہ تھا۔

بلی جن لوگوں کے گھر پہنچائی گئی تھی شریف لوگ تھے۔ خاتون خانہ ایسوسی ایٹ پروفیسر تھی  اور نفیس جذبات کو سمجھتی تھی۔ اس سے کئی بار مل کر اتنا معلوم ہو چکا تھا کہ بلی ان کے گھر سے بھاگ کر کس گھر میں گھسی تھی اور جن کے گھر میں گھسی تھی انہوں نے پہلے دن تو کچھ بتا دیا بعد میں نا صرف کچھ بتانے سے انکار کیا بلکہ آئندہ نا صرف  تنگ نا کرنے کو کہا بلکہ بچوں کو جھڑک بھی دیا۔ بلی کے ملنے کی امید موہوم سے موہوم تر ہوتی جا رہی تھی۔ بات اب دعاؤں  سے آگے اور منتوں مرادوں تک جا پہنچی تھی۔ سورۃ یٰسین کا ختم (ایک سو بیس بار پڑھنا) اور ایک دیگ کی نیاز مانی گئی مگر چھٹا  دن بھی مایوسی اور رات ویسے ہی دروازے کے پاس جاگتے گزر گئی۔ ساتویں دن لیڈی پروفیسر نے گھر فون کر کے بتایا کہ اسے شک ہے کہ ہماری بلی کہیں آس پاس ہی موجود ہے اور زندہ ہے کیونکہ رات اسے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے ایک بلی نقاہت میں بولی ہو۔ تم لوگ شام کو میرے گھر آنا اور ساتھ والے گھر میں جائیں گے۔ بچے سر شام ہی اس کے گھر پہنچ گئے ۔ خاتون ان کو ساتھ والے گھر لیکر گئی، گزارش کی کہ بچوں کو ان کی بلی اپنے بیسمنٹ یا تہہ خانے میں ڈھونڈھنے دو۔قسمت کو منظور تھا اور بچے بلی کو وہاں تہہ خانے سے ڈھونڈھ نکال لائے۔ بلی کیا تھی ہڈیوں کا ڈھانچہ بچی ہوئی تھی، بقول گھر والی کے اس کا رورو کر گلا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اگلے  دو دن تک بلی کو گلے سے لگا کر رکھا گیا ۔ آج بلی کو ہمارے گھر میں رہتے ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں۔

ہماری سرائیکی کی کہاوت ہے اللہ کرے ان کا   کوئی نا  مرے جن کو رونا نا آتا ہو۔ پچھلے کئی سالوں سے  میں نے ٹیلی ویژن پر بہت سے ایسے خاندانوں کو روتے اور بلکتے ہوئے دیکھا ہے جن کی بلیاں یا کتے نہیں گھر کے جیتے جاگتے افراد کو اُٹھا کر غائب کر دیا گیا۔ صرف ایک بار دیکھنے کی آرزو لیئے ورثاء روتے تھے مگر اربا ب اختیار اور ذمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نا رینگی۔  ایک خاتون بلکتے ہوئے کہہ رہی تھی میرے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے لاوارث ہو گئے ہیں۔ ہمیں کوئی روٹی کا لقمہ کھلانے والا نہیں ہے، ہم در دبر ہو کر بھیک مانگتے ہیں، بچوں کو کیا بتاؤں ہمارے ساتھ کون یہ ہاتھ کر گیا ہے اور کون ظالم ہمارے سر سے سایہ ہٹا گیا ہے۔ اللہ گواہ ہے مجھ جیسا کٹھور آدمی بھی اس عورت کا دکھ محسوس کر رہا تھا اور اسی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا جس   طرح وہ عورت رو رہی تھی مگر نہیں روئے تو وہ لوگ جو ان کو اٹھا کر لے گئے۔ پاکستان میں عدالتوں کا نظام آخر قائم ہی کس لئے کیا گیا ہے اگر ان کے کسی حکم پر عمل نہیں کرنا تو۔ عدالتوں کا مذاق اڑایا گیا اور ان کی باتوں کو غور کے قابل بھی نا سمجھا گیا۔ یہ نادیدہ اور ظالم ہاتھ آخر  کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا آسمان سے ان کیلئے کوئی گرفت اُترے جو ان کی گردنیں دبوچے تو یہ کوئی بات مانیں گے؟

پاکستان میں ایک کمانے شخص کا المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کھانے والے اگر تین چار اپنے بچے ہوتے ہیں تو دو والدین اور تین چار والدین کے بچے بھی ہوتے ہیں۔ ایک کمانے والے کو کچھ ہو جائے تو آٹھ دس افراد ایک پورا گھرانہ تباہ ہوتا ہے۔  مظلوم تو ایک بھی بہت ہوتا ہے باری تعالیٰ کے عرش کو ہلا دینے کیلئے، کیوں یہ اتنے سارے لوگوں کی صفیں باندھتے اور بناتے جا رہے ہیں جو جھولیاں اُٹھا اٹھا کر ان کی  تباہی اور بربادی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اللہ کسی دشمن کو بھی ان کے پیاروں کی جدائی کا دکھ نا دے، کاش یہ لوگ اتنی سی بات سمجھ جائیں۔ میری ایک چھوٹی سی نصیحت ہے ان کے لیئے کہ اے  ارباب  اختیار؛ تم  ان لا پتہ افراد کے ورثاء کا نہیں اپنے خالق کا صبر آزما رہے ہو۔ سمجھ جاؤ کہیں دیر نا ہو جائے۔

13 تبصرے:

  1. کاش کوئی اس بات کو محسوس کر سکتا کہ
    "معاشرے امن وانصاف میں زندہ رہتے ہیں ،ناانصافی اور بدامنی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے"

    جواب دیںحذف کریں
  2. عبداللہ عزام12 دسمبر، 2013 کو 6:55 AM

    ماشآاللہ جی!!!!!!!!!!!!

    جواب دیںحذف کریں
  3. اللہ کا عذاب ہو ان لوگوں پر جو کسی کو ایسا دکھ دیتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بات احساس کی ہے۔
    ایک گناہ ہوتا ہے ،ایک گناہ کیلئے عذر ڈھونڈنا ، سپریم کورٹ میں جس انداز کی یہ لوگ پیشیاں کر رہے ہیں، تو اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور اسکے عوام انکے باپ دادا کی جاگیر ہے، جو یہ کسی بھی وقت اپنے پیٹ بھرنے کیلئے امریکہ کو لیز پر دئے سکتے ہیں،یا پھر اسکو بنگلہ دیش میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

    لاپتہ افراد کیلئے حکومتی وکیلوں کی باتیں سن کر بندے دھنگ رہ جاتا ہے۔

    ایک حکومتی وکیل کہہ رہا ہے کہ جو ہمارے گلے کاٹتے ہیں،انکو کیسے رہا کیا جائے۔
    لیکن اس بد بخت کو علم نہیں کہ جب تم کسی کے گھر والے کو اُٹھا کر 5000 ہزار ڈالر کے عوض فروخت کرتے ہو، تو اسکے اہل وعیال تمہیں گل دستے پیش کریں گے۔وہ گلے نہیں کاٹیں گے تو اور کیا کریں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. سلیم بھائی ۔۔۔جس تن لاگے ،سو تن جانے
    اللہ پاک ہر کسی کو اس آزمائش سے محفوظ رکھے

    جواب دیںحذف کریں
  6. جو طبقہ اپنے جوانوں(سلالہ چیک پوسٹ) کے خون کا سودا کر لے اُنہیں کسی دوسرے کے پیاروں سے کیا لینا دینا۔ بس ڈالر آنے چاہئے۔ چاہے وہ دھرتی ماں کا سودا کر کے ملیں یا اپنوں کو خون میں نہلا کر یا اپنی عوام کو غیروں کے ہاتھ بیچ کر۔ خود کسی قابل ہوتے تو آج کراچی بلوچستان نا جل رہا ہوتا نہ ہی بنگلہ دیش کا کوئی وجود ہوتا۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. السلام علیکم ورحمتہ اللہ
    سلیم بھائی ماشاءاللہ بہت عمدہ بلاگ لکھا ہے جزاکم اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  8. ہماری سرائیکی کی کہاوت ہے اللہ کرے ان کا کوئی نا مرے جن کو رونا نا آتا ہو۔

    یہ قوم واقعی اسی زمرے مین شمار ہوگی جو رونے کی حس سے بھی عاری ہون

    جواب دیںحذف کریں
  9. دل سے لکھی گئی تحریر اور دل پر اثر کرتی ہوئی کہ کہ 16 برس پہلے فروری 98 میں ایسا حادثہ میری بہن کے ساتھ ہو چکا ہے شادی کے 3 سال بعد اور اکلوتی بیٹی جو اس وقت ڈھائی سال کی تھی ابھی تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکلے۔ صرف یہ کہوں گی کہ لاپتہ ہونا موت سے بڑا المیہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے واپس نہ آنے والے کے لیے ہم
    دعائے مغفرت تو کرتے ہیں ۔لیکن کچھ بدنصیب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا نام ونشان نہ صرف قبر کی حد تک بلکہ دعا کے دائرے سے بھی نکل جاتا ہے۔کیا ارباب اختیار اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ایک گمنام چھٹی (خواہ جھوٹی سہی کہ اگر انہوں نے اس "مجرم" کو واپس نہیں کرنا ) ہی لکھ دیں کہ یہ شخص اس دنیا میں نہیں رہا ۔ مجبور لواحقین نے کیا کر لینا ہے کسی کا ۔ یہ جھوٹ شاید بہت سی زندہ لاشوں کے کسی کام آ سکے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. محبوب بھوپال14 دسمبر، 2013 کو 9:18 AM

    اسلا م و علیکم
    سلیم بھائی ۔۔۔جس تن لاگے ،سو تن جانے
    اللہ پاک ہر کسی کو اس آزمائش سے محفوظ رکھے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  11. محبوب بھوپال14 دسمبر، 2013 کو 9:46 AM

    اسی مردم بیزار معاشرے کے ہی کچھ افراد اپنے گھروں میں ناصرف جانور پالتے ہیں بلکہ اپنے ان پالتو جانوروں کے اچھے خاصے ناز نخرے بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ کوئی معاشرتی تضاد نہیں انسان کا اندرونی احساس ہے جو یہ شعور دیتا ہے کہ جان تو آخر جان ہوتی ہے خواہ وہ انسانی ہو

    جواب دیںحذف کریں
  12. ہمیشہ کی طرح‌بہترین تحریر۔۔۔

    جدائی کی تکلیف صرف وہی لوگ جانتے ہیں، جن پر یہ آفت بیتی ہو۔۔۔

    میں اکثر سوچتا ہوں‌کہ ہم ڈرائنگ روم کے آرام میں میں بیٹھے لوگ کیسے ان کی تکلیف محسوس کر سکتے ہیں۔۔۔ ہم تو جو بھی لکھ لیں، ان کے دل کی ایک آہ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. غلام مصطفٰی محمد22 دسمبر، 2013 کو 6:15 AM

    ماشاء اللہ آپ کی تحریر کافی دلچسپ اور مفیدرہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ''احساس'' کا احساس ہونا ہی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس احساس کی بیداری میں لوگوں کو تعلیمی اور تربیتی شعور دینا ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کچھ نہ کچھ تعلیم تو ہے مگر تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ 50 سال پہلے کچھ نہ تربیت تو تھی مگر تعلیم نہ تھی ۔ آج بلکل برعکس ہے۔
    رہی بات انصاف اور عدالتوں کی، جب تک عدل کا پورا نظامِ از سر نو ترتیب نہ دیا جائے اور جو مشاکل ہیں ان کا ازالہ نہ کیا جائے ۔ امیر غریب کے فرق کے بغیر انصاف فراہم نہ کیا جائے، انصاف ناممکن ہے۔ موجودہ حقیقی نظام عدل میں انصاف کا تصور ہی باطل ہے، یہ تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثل ہے۔ ہمیں اس احساس اور شعور کا اجاگر کرنا ہے اور بھرپور کوشش کرنی ہو گی ،کہ انصاف بغیر کسی تفریق کے ہونا چاہئے اور نظامِ عدل کو مضبوط کرنا ہو گا۔

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں