عنوان ایک ایسی آیت کریمہ سے لیا گیا حصہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے چند ایسے علوم کا ذکر کیا ہے جن میں بارے صرف اور صرف اسی کی ذات باری تعالٰی ہی جانتی ہے۔ اور انہی چند علوم میں سے ایک علم کسی شخص کی موت کس مقام پر ہوگی بھی ہے۔
اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ (سورۃ لقمان - 34)
ہمارے پاکستان میں جب کوئی جانکنی کے عالم میں ہو تو اوپر والے اپنی رنگ برنگی باتوں سے بہت مزے لگاتے ہیں۔ اگر مرنے والا کسی کا والد یا والدہ ہو تو جہاں نیک بخت اور با سعادت اولاد ان آخری گھڑیوں کو سعادت جان کر ان کی خدمت اور خدمت کے بدلے ملنے والے اجر سے فیضیاب ہو رہی ہوتی ہے ، وہیں اوپر والے اپنی اپنی حکمت اور دانائیاں بھی جھاڑنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ مجھے اس بار چند مضحکہ خیز حقائق کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
ایک بہت ہی پیارے عزیز بھائی کی والدہ صاحبہ فراش تھیں۔ میرے یہ بھائی تن من اور دھن سے جان لگا کر ایک ایک لمحے کو امر کر رہے تھے جبکہ کچھ احباب یوں کہہ رہے تھے؛ اس کی امی تو بس واپس ملتان جانے کے انتظار میں پڑی ہے، ادھر ہی جا کر اس کی روح قبض ہوگی۔ جہاں چند توہم پرستیوں کا علم ہوا وہیں ایک ستم ظریف نے تو ان عزیز کی والدہ کی موت کا وقت بمعہ دن، گھنٹوں اور منٹوں کے ساتھ نا صرف مقرر کیا بلکہ اس مقررہ وقت تک متوقع میت پر پہنچ جانے کیلئے اپنی گھر والی کو بھی روانہ کر دیا۔ اللہ مستعان ۔ ایسے حالات میں مجھے چند واقعات یاد آئے، جو آپ کے گوش گزار کرتا ہوں:
1993 کی بات ہے بنکاک سے سنگاپور کے راستے میں میرا جہاز اتنا نا ہموار ہوا کہ مسافروں کو دی جانے والی سروس تک معطل کر دی گئی۔ میرے ڈیلے حقیقی معنوں میں باہر کو آ رہے تھے کہ ساتھ والے سیٹ فیلو انگریز نے میری حالت بھانپ لی، میرے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور پوچھا ڈر لگ رہا ہے ناں؟ اب میں کیا بولتا کہ سیٹی ہی گم تھی۔ کہنے لگا حادثات تو زمین پر بھی ہو جاتے ہیں اگر فضاء میں ہو گیا تو کیا انوکھا پن ہوگا۔ تاہم فضاء کا سفر زمینی سفر سے قدرے زیادہ محفوظ ہے۔ کچھ بھی نہیں ہوگا، پر سکون رہو، یہ سب کچھ نارمل ہے۔ ان لمحات میں جو پیغام ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے دینا تھا مجھے ایک غیر مذہب دے رہا تھا۔
2000 سے پہلے کی بات ہے مکہ روڈ پر چوتھے ٹریک پر ہماری منی بس کے متوازی چلتی ایک بھاری بھرکم امریکی کار نے اپنی پوری رفتار اور تیزی کے ساتھ سارے ٹریکس کو کاٹتے ہوئے ہماری بس کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ کچھ بعید نہیں تھا یہ امریکی کار ہماری بس کے پرخچے ہی اڑا ڈالتی کہ ہمارے ڈرائیور نے بریک لگا کر اسے اپنے سامنے سے گزر کر دو طرفی سڑک کے بیچوں بیچ لگی آہنی باڑ میں جا کر ٹکرانے اور تباہ ہونے دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کار کا یوں بے قابو ہوجانا اس کے اگلے ٹائر پھٹنے کی وجہ تھا۔ موت سیکنڈوں کے فاصلے سے ٹلی تھی۔
شاید 1990 کی بات ہوگی ہانگ کانگ سے گوانزو تک کا آدھے گھنٹے کا سفر اپنی منزل گوانزو ایئر پورٹ کے اوپر تک پہنچ کر بھی اس وقت اٹک گیا جب جہاز کے پائلٹ نے بتایا کہ نیچے موسلا دھار بارش کی وجہ سے ہمارا اگلے ایک گھنٹے تک اترنا ناممکن ہے۔ اور پھر گھنٹے کی بجائے چالیس منٹ کے بعد جہاز کے اترنے کا اعلان کردیا گیا۔ رن وے پر جہاز نے پچھلی پہیئے لگائے ہی ہونگے کہ دھڑام سے اگلی پہیئے زمین پر گرے اور اس ناگہانی حالت کی وجہ سے جہاز کے خانوں میں اوپر رکھا سارا سامان نیچے گر گیا، مسافروں کی چیخیں نکل گئیں اور جہاز کے اندر ایک کہرام مچ گیا۔ جہاز رکنے کے بعد جب پائلٹ نے بتایا کہ ہمارا جہاز پھسل گیا تھا اور اس حالت پر قابو پانے کیلئے ہم نے ایمرجنسی طور پر اگلے پہئے زمین پر گرا کر قابو پانے کی کوشش کی۔ مجھے حقیقت کا نا تو صحیح علم ہوا تھا اور ہی ٹل جانے والے حادثے کا پورا احساس، مگر مسافروں کی تالیاں اور ان کا رو رو کر ایک دوسرے سے گلے ملنا دیکھ کر کسی بری صورتحال سے بچ نکلنے کا اندازہ ضرور ہوا تھا۔ تاہم میں نے واپسی کا سفر ڈر اور خوف کی وجہ سےہوائی جہاز کی بجائے فیری پر کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے 22 دسمبر 2013 کو میرے شانتو والے دوست امجد نے صبح ایوو کا سفر کیا۔ شام کو میری بھابھی (امجد بھائی کی چائینیز گھر والی) نے فون کر کے بتایا کہ ابھی پولیس کا فون آیا ہے امجد فوت ہو گیا ہے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ امجد بنیادی طور پر گوجرانوالہ سے تھا، اپنی پاکستانی شہریت چھوڑ کر ہانگ کانگ کی شہریت اختیار کی تھی جبکہ روزی روزگار کے سلسلہ میں ہانگ کانگ سے دور گزشتہ آٹھ سالوں سے یہاں شانتو میں مقیم تھا جبکہ اس کی موت شانتو سے ہزاروں میل دور ایوو میں جا کر ہوئی۔
2004 میں سعودی ایئر لائن کے ایک انجیبئر دوست کے ساتھ شانتو سے ایوو کا سفر کرتے ہوئے ہمارا جہاز خظرناک موسم کا شکار ہو گیا۔ دوست نے جہاز کی ہیئت، بناوٹ، استعداد، موسموں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت، آٹو پائلٹ، ڈیجیٹلی پروگرامڈ سفر، چلنے سے قبل راستے کے موسموں سے آگہائی اور راستے میں بنے ایمرجنسی اور مخفی لینڈنگ پٹیوں کی دستیابی ، پچھلی نشستوں کی بجائے اگلی نشستوں پر کم محسوس ہونے والے جھٹکوں وغیرہ کے بارےمیں معلومات دیکر آئندہ کیلئے مطمئن رہ کر مرنے کا راز بتا دیا۔
بے شک ، موت کا وقت اور مقام ہی نہیں وجہِ موت بھی اللہ کی طرف سے معین ہے ، کسی کو اس کی خبر نہیں۔
جواب دیںحذف کریںموت کا ایک دن معین ہے اور وہ اپنے وقت پر آکر رہے گی نہ ایک لمحہ پہلے نہ ایک لمحہ بعد اور موت تو خود زندگی کی محافظ ہے
جواب دیںحذف کریںہاں کچھ عجیب روایات ہیں ۔ بیمار پرسی کیلئے آئے لوگ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ اُن کی باتیں گھر والے سنتے ہوں ہمارے گے تو اُن پر کیا بیتتی ہو گی خاص کر جب کہتے ہیں فلاں کو یہ مرض ہوا تو دو دن میں پھڑک گیا تھا
جواب دیںحذف کریںرہی موت تو میں محمد اسلم فہیم صاحب سے متفق ہوں ۔ کچھ عجب سی بات ہے یا کچھ اس طرح ہے کہ مشکلیں اتنی ُپڑیں کہ آساں ہو گئیں ۔ مجھے موت کا ڈر کبھی نہیں لگا ۔ زندگی میں چھ بار میری موت کی پیشگوئی کر دی گئی جس میں سے ایک بار تو مردہ قرار بھی دے دی گیا تھا ۔ اس کے علاوہ میں 1947ء میں 10 سال کی عمر میں پونے تین ماہ ایسا پھنسا رہا تھا کی کسی لمحے کوئی ہندو یا سکھ قتل کر دے لیکن اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے کسی ایسے کے ذہن میں آنے ہی نہ دیا کہ مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کیلئےجہاں سے وہ نعرے لگاتے گذرتے ہیں وہاں سے چند میٹر کے فاصلہ پر مسلمان عورتیں اور بچے پناہ لئے ہوئے ہیں
موت تو خود زندگی کی محافظ ہے
جواب دیںحذف کریںموت سے چھٹکارہ نہیں ،تو اللہ تعالیٰ اسکے لئے تیاری کی توفیق دئے۔
جواب دیںحذف کریںاور ویسے بھی اس جام کو نوش کرنا ہی ہے تو اللہ تعالیٰ نیک بختی کی موت عطاء کرئے ۔آمین
موت ہی وہ حقیقت ہے جو سب سے زیادہ جھٹلائی جاتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںموت کا ذائقہ ہم میں سے ہر ایک نے چکھنا ہے ۔بس اللہ سے یہی دعا ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ثابت قدم رکھے اور یہ وہ سبق ہے جس کی جتنی بھی تیاری کی جائے نہیں پتہ کہ امتحان میں پورا بھی اتر سکتے ہیں یا نہیں ۔ اور یہ بھی نہیں کہ امتحان کے خوف سے سبق یاد کرنا ہی چھوڑدیں ۔
جواب دیںحذف کریںجناب محترم فاروق درویش صاحب، میرے بلاگ پر خوش آمدید، آمدنت باعث آبادی ما، اھلآ و سھلآ یا مرحبا۔ آئندہ بھی تشریف لا کر اپنے افکار سے آگاہی دیا کریں شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںاللہ کی حکمت کہ انسان کو قلق اور پریشانی سے محفوظرکھا اور موت، موت کے اسباب اور موت کے مقام سے آگاہ نا کیا ورنہ تو زندگی جام ہو کر رہ جاتی۔
محترم جناب ڈاکٹر محمد اسلم فہیم صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ جی اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ موت کا وقت اور مقام اٹل ہے۔ اللہ پاک حسن خاتمہ دے، آمین
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی زندگی کا ہر ایک پرت ہمارے لیئے اپنے اندر تجارب سموئے ہوئے ہے۔ اللہ پاک ہمیںان تجارب سے استفادہ کی توفیق دے۔ اللہ پاک آپ کو عمر خضری مرحمت فرمائیں، آمین
محترم جناب محمد علی ھنگورو صاحب (اللہ کرے میں نے نام کے ھجاء درست لکھے ہوں)
جواب دیںحذف کریںبلاگ پر خوش آمدید، اھلا ٓ و سھلآ یا مرحبا، آپ آئندہ بھی تشریف لا کر حوصلہ افزائی فرماتے رہا کریں۔ شکریہ۔
محترم منصور مکرم صاحب، بالکل صحیح فرمایا آپ نے، موت سے مفر نہیں، بس اللہ پاک سے التجا ہے کہ وہ ہم پر راضی رہے اور خاتمہ بالایمان عطا فرما دے۔ آمیںیا رب
جواب دیںحذف کریںجناب منصور الحق منصور صاحب، آپ نے سچ ہی فرمایا کہ موت ہی وہ تلخسچ ہے جسے سب سے زیادہ جھٹلایا جاتا ہے۔ اللہ مستعان۔
جواب دیںحذف کریںبہن نورین تبسم صاحبہ، بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ کی باتیںبہت پیاری اور سبق آموز ہوتی ہیں۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے، حوصلہ افزائی کیلئے آپ کی تشریف آوری بہت ضروری ہے۔
جواب دیںحذف کریںااسلام و علیکم
جواب دیںحذف کریںحضر ت سلمان ّ کے دور کا ایک واقع تو آپ نے سنا ہوگا۔ ایک دفعہ حضرت عزراعیلّ تشریف لائے اور جب چلے گئے تو ایک آدمی نےحضرت سلمانّ سےآپ سے پوچھا کہ کون تھا مجھے بڑا گھور گھور کر دیکھ رہا تھا آپ نے بتایا کہ یہ حضرت عزرائیل ّ تھے ۔ اس نے عرض کیا مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے آپ مجھے کسی دور دراز علاقے میں چھوڑ دیجیے ۔ آپ نے ہوائوں کو ارڈر دیا کہ اس کو کوہ قاف چھوڑ آئیں۔ چند دن بعد عزرائیل ّ حاضر ہوئے تو حضرت سلمان ّ نے انسے پوچھا کہ آپ اس آدمی کو کیوں گھور رہے تھے۔ عزرائیل ّ نے عرض کیا کہ میں حیران تھا چند لمحوں بعد اس کی جان کوہ قاف میں نکالنے کا آرڈر ہوا تھا اور میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ توادھر بیٹھا ہوا ہے ۔ لیکن چند لمحوں بعد وہ مجھے وہاں ہی مل گیا جہاں اس کی جان لکالنی تھی۔
موت کا ایک دن معین ہے نیند رات بھر کیوں نہیں آتی
بیمار کے سامنے ایسی باتیں کرنا جہالت ہے کہ یہ تو مرنے والا ہے یا یہ نہیں بچے گا وغیرہ
ارشاد ہے کہ بیمار کے سامنے اچھی اچھی باتیں کرنی چاہیے اور اس کو صحت کی امید دلانی چاہیے۔
اسطرف توجہ دلانے پر اللہ آپ کو اجر دے آمین
سلیم بہائ آپ بہت دیر سے تہریر لکہتی ھو آپ روزنہ ایک تھریر کیا کری. شکریہ
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم سلیم آپ بہت لمبے لمبی تہریر لکہتی ھیں. کوئ مختصر اور جامع تہریر. روزانہ کیا کریں.آپ کافی دنوں کہ بعد ایک تہریر کرتے ھیں اور وہ بہ بہت لمبی؟
جواب دیںحذف کریںاعلام علیک بہائ آپ بہت لمبی گمبی تہریر لکہتی ھو آپ جامع اور مختصر کرۂ
جواب دیںحذف کریں