تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 2 جنوری، 2014

میرے فیس بکی سٹیٹس (6)

پنکھا اپنی طرف سے ہوا بنا کر تو ہماری طرف نہیں پھینکتا، ہوا پہلے سے ہی موجود ہوتی ہے وہ بس اسے حرکت دیکر ہماری طرف دھکیلتا ہے۔ بالکل ایسے ہی ہم انسانوں کی خوشیاں ہوتی ہیں جو ہر وقت ہمارے آس پاس ساکن و موجود رہتی ہیں، بس ان کے مآخذ کو حرکت دیکر ایجاد کرنا اور ماحول میں بھکیرنا پڑتی ہیں۔


٭٭٭٭٭٭


فرانسیسی مثل: اگر تم کسی ایک شخص کی وجہ سے زندگی سے نفرت کرنے لگے ہو تو تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص صرف ایک کیڑے کی وجہ سے اپنا گھر جلا دینے پر آمادہ ہو۔


٭٭٭٭٭٭


ڈاکٹر خالد الجبير سعودی عرب کے دل کے امراض کے مشہور عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ہی نہیں ایک مبلغ، خطیب اور عالم دین بھی ہیں۔ ایک بار ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا؛ ڈاکٹر صاحب، میں نے اپنی زندگی سے ہر وہ علت اور عادت ترک کر دی جو اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتی، مگر ایک سگریٹ سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔ کوئی حل ہے تو بتا دیں۔


ڈاکٹر صاحب نے پوچھا؛ کیا واقعی سگریٹ نوشی سے توبہ کرنا چاہتے ہو؟ اس آدمی نے کہا؛ جی حضرت، اللہ گواہ ہے ہر حربہ آزما چکا ہوں مگر کامیاب نہیں ہو پایا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا بہت آسان سا حل بتاتا ہوں تمہیں۔ ہر بار سگریٹ پی چکنے کے بعد تم اگر حالت وضو میں ہھی ہو پھر بھی جا کر نیا وضو کرنا اور اللہ کیلئے دو رکعت نماز پڑھ لیا کرنا۔


کچھ ہی عرصے کے یہ یہی شخص ہنستا ہوا ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہنسنے کا سبب پوچھا۔ کہنے لگا؛ ڈاکٹر صاحب، اس کے باوجود کہ میں روزانہ تیس سے زیادہ سگریٹ پینے کا عادی تھا، مگر پہلے دن جیسے ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر ڈبیا نکالنے کا ارادہ کرتا، شیطان دل میں وسوسے ڈالتا کیا سگریٹ پینے کی جلدی ہے، پھر اُٹھ کر نئے سرے سے وضو کرو گے اور پھر دو رکعت نماز پڑھو گے۔ اور اس طرح کرتے کرتے، میں نے پہلے دن تیس کی بجائے پانچ سگریٹ پیئے، دوسرے دن صرف تین سگریٹ پیئے اور ابھی پورا ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے سگریٹ پینے کی عادت سے ہی ہمیشہ کیلئے جان چھڑا لی تھی۔


٭٭٭٭٭٭


بندہ گھر میں نمک کی مانند بھی نا ہو کہ: جب نا ہو تو اس کے بنا کسی چیز کا  ذائقہ اچھا نا بنے، اور جب موجود ہو تو سب کے بلڈ پریشر بڑھے ہوئے ہوں۔


٭٭٭٭٭٭


 شیخ شعراوی اپنی یادوں کو دہراتے ہوئے کہنے لگے: ایک بار میں کسی شدت پسند نوجوان سے بحث کر رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا؛ کسی مسلمان ملک میں چلنے والے نائٹ کلب کو بم مار کر اڑا دینا تمہارے نزدیک کیسا ہو گا حرام یا حلال؟  کہنے لگا؛ بالکل حلال اور اس کے اندر لہو و لعب میں مصروف لوگوں کا قتل بالکل جائز۔ میں نے پوچھا؛ اچھا تم نے ان لوگوں کو ایسے وقت میں قتل کیا جب وہ اللہ سے بغاوت اور نافرمانی کے کاموں میں مصروف تھے، تو اب ان کا آئندہ ٹھکانا کیا ہوگا؟  کہنے لگا؛ سیدھے دوزخ میں جائیں گے اور بلا شک ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہوگا۔ میں پوچھا؛ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اور شیطان نے ایک ہی کام کیا۔  شیطان بھی ان کو جہنم لیجانا چاہتا تھا اور تم بھی ایسا ہی کر دیا۔


پھر میں نے اس نوجوان کو سرکار کی وہ حدیث مبارک سُنائی؛ ایک بار جب کسی یہودی کے جنازے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر ہوا تو آپ اس کے جنازے کو دیکھ کر رو پڑے۔ لوگوں نے پوچھا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کو کس چیز نے رلا دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ایک اور جان جو مجھ سے دوزخ سے بچا لیئے جانے سے چوک گئی(مفہوم)(نفس أفلتت منّي إلى النار)


پھر میں نے اس نوجوان سے کہا؛ دیکھ لیا تم نے اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق؟ دیکھا تو نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح لوگوں کی ہدایت اور انہیں دوزخ کی آگ سے بچا لینے کیلئے کوشش کرتے تھے۔ دیکھ لیا تم کس طرف جا رہے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ راستہ کس طرف جا رہا ہے!


پھر میں اس نوجوان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ قول مبارک بھی پڑھ کر سنایا: وما ارسلناك الا رحمة للعالمين - اور ہم نے تو تمہیں تمام جہان کے لوگوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے (سورة الأنبياء- 107)


٭٭٭٭٭٭


ابراہیم بن ادہم نے ایک شخص کو اداس اور غمگین دیکھا تو اس سے کہا مجھے بس میری تین باتوں کا جواب دیدو، اس آدمی نے کہا جی پوچھیں: ابراہیم بن ادہم نے پوچھا کیا؛ اس دنیا میں کوئی ایسا کام ہو رہا ہے جو اللہ تعالٰی نا چاہتے ہوں۔ اس آدمی نے کہا نہیں۔  ابراہیم نے پوچھا؛ کیا جو کچھ اللہ پاک نے تیرے لیئے رزق لکھ دیا ہے اس میں کوئی کمی آ جائے گی؟ اس آدمی نے کہا نہیں۔


ابراہیم نے پوچھا؛ کیا تیری زندگی میں سے کوئی ایک لمحہ بھی کسی طرح کم ہو جائے گا؟ اس آدمی نے کہا نہیں۔ ابراہیم بن ادہم نے اس آدمی سے پوچھا؛ تو پھر اپنے اس غمگین ہونے کی وجہ بتا دو۔


٭٭٭٭٭٭


ایک عیسائی مبلغ روزانہ ایک مسلمان عالم دین کے پاس جاتا اور اُسے دین اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے کی دعوت دیتا۔ یہ عیسائی مبلغ روزانہ لگ بھگ ایک جیسی باتوں کو اس مسلمان عالم کے سامنے دہراتا۔


عیسائی مبلغ کہتا: کیا اپنے وقت کو ضائع کرتے پھر رہے ہو۔ دن میں پانچ پانچ بار نمازیں پڑھتے ہو اور وہ بھی رکوع، قیام اور سجدوں کی مشقت کے ساتھ۔  مہینہ بھر روزے رکھتے ہو، خنزیر کے گوشت کے پاس نہیں جاتے، زندگی کی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ تقویٰ کے یہ معیار تو نہیں ہوا کرتے۔ وغیرہ وغیرہ۔


ساتھ میں یہ عیسائی مبلغ یہ بھی کہتا کہ جب اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت میں آنے کا رادہ کرو تو بس اتنا سا عقیدہ بنا لینا کہ اللہ نے اپنا اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجاجس نے تیری خطاؤن کیلئے جان دیکر تمہیں ہر عذاب سے خلاصی دیدی۔ اور اللہ خود زمین پر تشریف لائے اور تیری خطاؤں کیلئے جان دیکر تم کو بچا گئے۔ بس اسی پر ایمان لاؤ اور جنت تیری ہو گئی۔


عیسائی مبلغ کا روز آ کر ایک جیسی باتیں کرنا اس مسلمان عالم کیلئے اچھا خاصا تکلیف کا باعث بنتا تھا، مروت میں برداشت کرنا تو علیحدہ بات تھی مگر اب اس تکرار سے کیسے جان چھڑائی جائے پر سوچتے رہنا مسلمان عالم دین کا مسئلہ بن چکا تھا، اور پھر ایک دن اللہ تعالیٰ نے اس مسلمان عالم کو اس مصیبت سے جان چھڑانے کیلئے ہدایت دیدی۔


مسلمان عالم نے اپنے ماتحت ملازم کو بلایا اور اسے سمجھایا کہ کل جب یہ عیسائی میرے پاس آئے تو تم غمگین سی شکل بنا کر میرے پاس آنا اور میرے کان میں کچھ کہہ کر چلے جانا۔


دوسرے دن ایسا ہی ہوا کہ جب یہ عیسائی مبلغ آیا اور حسب معمول اپنی لگی بندھی گفتگو شروع کی تو وہ ملازم اداس اور رونی سی شکل بنائےآیا اور مسلمان عالم کے کان میں جیسے ہی کچھ کہا تو عالم نے بے تحاشہ رونا شروع کر دیا۔ اس عجیب و غریب صورتحال سے گھبرا کر عیسائی نے جاننا چاہا کہ آخر کیا ماجرا ہے۔


اس نے ہمت کر کے مسلمان سے پوچھا؛ اے شیخ کیا ہوا ہے۔  مسلمان نے کہا؛ میں فی الحال بات نہیں کرنا چاہتا۔
عیسائی نے کہا؛ حضرت صبر کیجیئے اور کچھ تو بتائیے ماجرا کیا ہے۔  مسلمان نے کہا؛ میں نہیں بتا سکتا کہ اتنی بڑی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔ (اور شیخ صاحب واقعی رو رو کر بے حال ہوتے جا رہے تھے)


بالآخر عیسائی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا؛ شیخ جی، مجھے کچھ تو بتائیے، اس طرح تو میرے اعصاب بھی جواب دیتے جا رہے ہیں، مجھے کچھ تو پتہ چلے!۔


شیخ صاحب گویا ہوئے؛ ابھی ابھی میرے پاس یہ اندوہناک خبر پہنچی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام انتقال کر گئے ہیں۔


عیسائی عالم نے ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے مسلمان عالم کی طرف تسخر اڑاتی نظروں سے دیکھا اور کہا؛ کیا احمق انسان ہو تم۔ کیا فرشتے بھی کبھی مرا کرتے ہیں؟


مسلمان شیخ نے عیسائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر فرشتے نہیں مرا کرتے تو تم فرشتوں کے رب کے بارے میں کیسے کہہ دیتے ہو ہو کہ وہ مر گیا ہے۔


 (کہتے ہو کہ وہ ہمارا رب ہے مگر عقیدہ یہ رکھتے ہو کہ یہود نے اس کو قتل کردیا تھا اور صلیب پر چڑھا دیا تھا۔  (شیخ احمد دیدات رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ


٭٭٭٭٭٭


خدمت خلق کے جذبے سے سرشار، دردمند یہ نوجوان جب ایک ہسپتال میں اپنے دوست کی تیمار داری کیلئے گیا تو اسی ہسپتال میں ہی لمبے عرصے سے چلنے پھرنے سے معذور، صرف سر کو ہلا سکنے کی قوت رکھنے والے مفلوج اپنے محلے کے اس بزرگ کے بستر پر بھی گیا تاکہ اس کی تیمار داری کر سکے۔


حال احوال اور خیر خیریت پوچھنے کے بعد اس نے بزرگ سے پوچھا؛ بابا جی، اس معذوری اور اپاہجی میں یقیناً آپ کے دل میں کوئی خواہش تو ضرور ہوگی؟


نوجوان کا خیال تھا بابا کہے گا کہ بیٹا میری خواہش ہے میں تندرست ہو جاؤں، چلوں پھروں، بھاگوں دوڑوں اور دنیا دیکھوں۔


مگر بزرگ نے کہا؛ بیٹے میری عمر پچاس سال سے متجاوز ہے، میرے پانچ بچے ہیں، میں سات سال سے اس چارپائی کا ہوا پڑا ہوں۔ مجھے نا ہی چلنے پھرنے کی خواہش ہے اور نا ہی اپنے بچوں سے ملنے کی کوئی حسرت اور نا ہی میں لوگوں کی طرح روزمرہ کی عام زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔


نوجوان نے حیرت سے بزرگ کی طرف دیکھا اور پوچھا؛ تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟


بزرگ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا؛ بس میں اس ماتھے کو زمین پر ٹکانا چاہتا ہوں، میری اتنی سی خواہش ہے کہ اس رب کو ویسے سجدہ کروں جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔


نعمتوں میں گھرے، خوشیوں میں مگن، بیماریوں، ورموں، زخموں اور دوائیوں سے محفوظ؛؛؛ پھر بھی ایسی ناشکری کہ رب کے حضور سر جھکانے کی فرصت نا ہو۔۔۔۔۔۔ یارو، ہم اتنا ظالم تو نا بنیں۔  اللہ پاک ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمادیں اور نیکی کی توفیق اور سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت دیں۔ آمین یا رب۔


٭٭٭٭٭٭

9 تبصرے:

  1. بہت خوب
    یہ محض الفاظ نہیں ،بیش قیمت موتی ہیں۔ جتنے انمول ہیں اتنے ہی سستے بھی، جوجتنا چننا چاہے چن لے۔ اور اپنی زندگی و آخرت سنوارے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. سیار احمد ہمدرد2 جنوری، 2014 کو 10:24 PM

    حاجی صاحب اللہ آپ ہمیشہ خوش اور سلامت رکھیں بہت سبق اموز باتیں لکھتے ہو۔معافی چاہتا ہوںمیں آپ سے بغیر پوچھیں share کرتا ہوں ان باتوں کو ای میل اور فیس بک پر۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. محبوب بھوپال3 جنوری، 2014 کو 7:58 AM

    خدمت خلق کے جذبے سے سرشار، دردمند یہ نوجوان جب ایک ہسپتال میں اپنے دوست کی تیمار داری کیلئے گیا تو اسی ہسپتال میں ہی لمبے عرصے سے چلنے پھرنے سے معذور، صرف سر کو ہلا سکنے کی قوت رکھنے والے مفلوج اپنے محلے کے اس بزرگ کے بستر پر بھی گیا تاکہ اس کی تیمار داری کر سکے۔
    حال احوال اور خیر خیریت پوچھنے کے بعد اس نے بزرگ سے پوچھا؛ بابا جی، اس معذوری اور اپاہجی میں یقیناً آپ کے دل میں کوئی خواہش تو ضرور ہوگی؟
    نوجوان کا خیال تھا بابا کہے گا کہ بیٹا میری خواہش ہے میں تندرست ہو جاؤں، چلوں پھروں، بھاگوں دوڑوں اور دنیا دیکھوں۔
    مگر بزرگ نے کہا؛ بیٹے میری عمر پچاس سال سے متجاوز ہے، میرے پانچ بچے ہیں، میں سات سال سے اس چارپائی کا ہوا پڑا ہوں۔ مجھے نا ہی چلنے پھرنے کی خواہش ہے اور نا ہی اپنے بچوں سے ملنے کی کوئی حسرت اور نا ہی میں لوگوں کی طرح روزمرہ کی عام زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔
    نوجوان نے حیرت سے بزرگ کی طرف دیکھا اور پوچھا؛ تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟
    بزرگ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا؛ بس میں اس ماتھے کو زمین پر ٹکانا چاہتا ہوں، میری اتنی سی خواہش ہے کہ اس رب کو ویسے سجدہ کروں جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔
    نعمتوں میں گھرے، خوشیوں میں مگن، بیماریوں، ورموں، زخموں اور دوائیوں سے محفوظ؛؛؛ پھر بھی ایسی ناشکری کہ رب کے حضور سر جھکانے کی فرصت نا ہو۔۔۔۔۔۔ یارو، ہم اتنا ظالم تو نا بنیں۔ اللہ پاک ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمادیں اور نیکی کی توفیق اور سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت دیں۔ آمین یا رب۔
    اسلام و علیکم و رحمۃاللہ بہت اچھی باتیں آپ نے ہمیں بتائیں اللہ جزائے خیر دے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم جناب سیار احمد ہمدرد صاحب، بلاگ پر تشریف آوری اور اس تبصرے کیلئے بہت مہربانی۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الفاظ کسی اور جگہ بھی شیئر کیئے جا سکتے ہیں۔ جزاک اللہ خیراً۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. محترم جناب فیصل مشتاق صاحب، آپ کی تشریف آوری، تبصرے اور حوصلہ افزائی کیلئے مشکور ہوں۔ باتیں تو واقعی خوشبودار ہیں، اللہ پاک ہدایت کا سبب بنا دیں آمین

    جواب دیںحذف کریں
  6. جناب محبوب بھوپال المحترم، تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ نے خوب اقتباس دیا۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  7. سیار احمد ہمدرد3 جنوری، 2014 کو 11:50 PM

    جناب حاجی محمد سلیم صاحب آپ نے مجھے reply کیا ۔بہت بہت شکریہ ۔۔میں نے آپ کو ایک email کیا تھا ،،،جس میں آپ سے ایک درخواست کیاتھا کہ مجھے ۔جِن باٹوں سے تُم تول کر دو گے۔۔۔اس تحریر کو انگلش میں ترجمہ کر کے بھیج دو۔۔۔یہ ایک انڈین دوست نے مانگا ہے اور میں اس کو آپ کی الفاظ میں بھیجنا چاہتا ہوں۔آپ کا بہت مشکور رہونگا۔۔۔ahmedsiar@gmail.com
    اوپر لکھے گیے جملوں میں اگر کویی غلطی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔۔میری زبان پشتو ہے۔اردو لکھنے میں غلطی کر سکتا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. جناب محبوب بھوپال
    واقعی میں ہم تندرستی کی حالت میں اس نعمت عظیم کی نا شکری کرتے ہیں اور احساس بھی نہیں ہوتا ۔

    میں ایک بار ہمارے شہر کی ایک مسجد دارلفلاح میں نمازتراویح ادا کر رہا تھا ۔ ۔ اور عام حال ہے کہ وسط رمضان میں تراویح میں شروعات جیسی چستی پھرتی نہیں رہتی ۔ دوسرے یہ کہ میرے پیر بی درد کر رہے تھے ۔ ۔۔ دل میں یہ خیال آیا کہ اب چند رکعتیں بیٹھ کر ادا کروں۔

    اتفاقا" میرے بغل والا نمازی چلا گیا اور پیچھے سے ایک بزرگ چچا میرے سامنے آ گئے

    خیر میں نے ہمت جٹاکر پھر کھڑے ہو کر نیت باندھی ۔ اور چچا نے بھی
    اب جب سجدے سے اٹھنے لگے تو امام صاحب نے سورۃ فاتحہ مکمل پڑھ کی قراء ت بھی شروع کی مگر میرے بازو والے چچا اب بھی سجدے سے کھڑے ہونے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے مگر انہوں نے مکمل تراویح کھڑے ہو کر ادا کی ۔

    مجھے احساس ہوا کہ میں جوان ہو کر تھوڑی تکلیف کا بہانہ بنا کی بیٹھ کر نماز پڑھنے کی سوچ رہا ہوں جبکہ یہ بزرگ اتنی ضعیفی کے باوجود کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور ان کی ہمت پر اللہ انہیں اس کی توفیق بھی دے رہا ہے ۔

    معاف کرنا ۔۔ ۔ اچھا لکھنا نہیں آتا ۔ ۔ بس درج بالا تحریر پر یہ قصہ یاد آیا ۔ ۔ سوچا عرض کرتا جاؤں

    کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کرنا

    جواب دیںحذف کریں
  9. سلیم بھائی ۔ ۔ ۔ ۔۔
    دعا ہے کہ اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا کرے اور ہمیں آپ سے ذیادہ سے ذیادہ نفع حاصل کرنے کی توفیق نصیب کرے ۔

    ترک سیگریٹ نوشی کی ترکیب بہت ذبردست تھی ۔ ۔
    میری اہلیہ کے والد صاحب بھی اس لت میں مبتلہ ہیں اور لاکھ سمجھانے اور ڈاکٹروں کے کہنے کے باوجود اسے چھوڑنے کو تیا ر نہیں ۔ ۔ ۔ ( اوپر سے موصوف نمازی) بھی نہیں ہیں ۔ ۔
    اور کوئی ترکیب اس بابت ہو تو ضرور بتا دیجئے گا۔
    جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں