اس بار میرے ساتھ پاکستان میں یہ درج ذیل واقعہ پیش آیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شر چاہے جتنا بھی نمایاں نظر آتا ہے خیر اس کے نیچے دبا نہیں ، اور ابھی بھی اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ باقی ہے۔
ہوائی سفر کے دوران جس قدر سامان کو جمع کرانے کی سہولت ہوتی ہے، سے زیادہ سامان کو بیک پیک میں یا دستی ٹرالی بیگ میں ایڈجسٹ کرنا میرا پرانا مشغلہ ہے، اس کیلئے میں پھر اس بات کا خیال نہیں رکھتا کہ یہ سامان بیک پیک کے شایان شان ہے بھی یا نہیں، بس وزن کا خیال رکھتا ہوں کہ کیسے زیادہ سے زیادہ ادھر کھپا لیا جائے۔ پچیس اگست کو صبح اُٹھ کر نماز و تلاوت کے بعد کچھ اذکار مسنونہ سے فارغ ہو کر میں نے ایئرپورٹ جانے سے پہلے اس بات کو ممکن بنایا کہ وہاں کا عملہ میرے سامان کیلئے نا تو مجھ پر ترس کھائے اور نا ہی کوئی احسان کرے جس میں میں کامیاب رہا۔
اسلام آباد پہنچ کر خرم ابن شبیر کے بار بار میسیج آنا تو فون آن کرتے ہی شروع ہو گئے تھے جبکہ ٹیلفون کا لا متناہی سلسلہ جہاز سے اترتے ہی شروع ہوگیا۔ میں اپنے پروگرام کے مطابق سب سے پہلے سیدھا ڈائیوو اڈے گیا جہاں میرا مقصد بیک پیک کو گجرات کے احباب (بشمول بلال بھائی، بھائی طاہر بٹ صاحب، بھائی غلام عباس مرزا اور جناب برادرم عبدالستار صاحب وغیرہ ) کے پاس جانے اور رات بھر وہاں قیام کرنے کے دوران قابل استعمال چیزوں سے بھرنا اور باقی کا سامان ملتان کیلئے بُک کرانا تھا۔
اڈے پر پہنچ کر میں نے لاؤنج میں تین کرسیوں پر اپنا سامان رکھا اوراگلے مرحلے کی تیاری شروع کی۔ اڈے کی محدود جگہ اور بے شمار مسافروں کی آمد و رفت میں ماحول سے لاتعلق بن کر بیٹھ رہنا ، یا اپنا سامان کھول کر چیزیں ادھر اُدھر آسانی سے کرلینا ممکن نہیں تھا۔ جب کہ اس دوران پانچ چھ خواتین پر مشتمل ایک خاندان میرے سامنے والی کرسیوں پر بیٹھنے کیلئے آیا، معمر خواتین بیٹھ پائیں جبکہ جوان خواتین جگہ نا ہونے کی وجہ سے کھڑے ہونے پر مجبور تھیں، ان کے ساتھ ایک تین یا چار سالہ بچی کو میں نے پیار سے دیکھا، ہاتھ ہلا کر مسکرایا۔ جبکہ دوسرے ہی لمحے ان کو اپنی کرسیاں پیش کرنے کیلئے فٹافٹ اپنا سامان واپس بکسوں میں انڈیلا ، ان لوگوں کو اپنی کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اڈے کے اندر بنی عارضی مسجد کی طرف چل پڑا۔ یہاں میں نے سب سے پہلے لیٹ کر اپنی کمر سیدھی کی، پچھلے آٹھ دس گھنٹوں سے جاگرز میں قید قدمین کو راحت ملی تو اور بھی سکون آ گیا۔ دس یا پندرہ منٹ بے سُدھ پڑ کر آرام کرنے کے بعد اُٹھ کر چائنا ایئرپورٹ سے خریدے ہوئے پانی کی بوتل کو آرام سے کھول کر پیا، پھر گجرات کیلئے ساتھ لینے اور ملتان بکنگ کیلئے چھوڑنے والا سامان علیٰحدہ کیا، اور جب کرنے کیلئے کچھ نا رہا تو سوچا اب اُٹھ کر سامان بک کرایا جائے، اور ساتھ لیئے جانے والا سامان اٹھا کر یہاں سے خرم بھائی سے ملنے کیلئے کوچ کیا جائے۔
دونوں ہاتھوں سے ایک ایک ٹرالی بیگ کھینچتے ہوئے اور بیک پیک کو پشت پر ڈالے، میں اڈے میں پر بنی اونچی سلوپ پر چڑھ کر باہر نکلنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ایک دس بارہ سال کا بچہ اپنی پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بھاگتے ہوئے میری طرف آیا اپنے پیچھے آتے اپنے والدکو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا؛ ابو یہ ہے وہ آدمی۔
میں نے ان دونوں باپ بیٹوں کو پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا، معاملہ ناقابل فہم تھا اس لیئے میری حیرت اپنی جگہ تھی۔ بچے کے والد نے آتے ہی ادب کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا اور پھر بولے' شاید آپ کا موبائل گُم ہو گیا ہے؟ میں نے جلدی سے جیبیں ٹٹولیں ، موبائل کو نا پا کر اُن کی اس بات سے پورا اتفاق کیا ۔ صاحب بولے گھبرائیے نہیں آپ کا موبائل ہمارے پاس ہے، بس آپ کو یہ کرنا ہے کہ میرے موبائل سے اپنا نمبر ملائیے، اور اپنا موبائل لے لیجیئے۔
صاحب نے تصدیق کے بعد مجھے میرا آئی فون فور موبائل لوٹاتے ہوئے جو کہانی سُنائی وہ یوں تھی کہ تقریباً آدھا گھنٹا پہلے جب میں یہاں اپنا موبائل فون چھوڑ کر گیا تھا تو انہوں نے اُسے اپنے قبضے میں لیکر ہر طرف تلاش کیا۔ اڈے سے نکلتی ہر بس میں دیکھا کہیں کوئی ایسا مسافر نکل نا جائے جو اس موبائل کا مالک ہو۔ بعد میں لاؤنج میں بھی کئی بار اعلان کرایا گیا۔ اس ہوش رُبا تفصیل سے جو بات سامنے آ ئی تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے میرے اس فون کو مجھ تک پہنچانے کیلئے واقعی اتنی سخت محنت کی تھی۔ فون کے مالک شخص کا خاکہ اور پہنے ہوئے کپڑے اور کپڑوں کا رنگ اُس چار سالہ بچی نے فراہم کیا تھا جسے میں نے پیار سے دیکھا اور ہاتھ ہلایا تھا۔
فون لیکر میں نے شکریہ ادا کیا جو لفظوں میں ناممکن تھا تاہم اتنا اعتراف جو کر پایا وہ یہ تھا کہ اللہ پاک آپ خوش رکھے آپ امانت کو حقدار تک پہنچانے کی روایت کے زندہ امین ہیں۔ اللہ پاک آپ کو اجر دے ۔
شام کو میں نے ان صاحب کا وہ نمبر تلاش کیا جو میرے موبائل پر تصدیق کیلئے آیا تھا سے انہیں تحریری شکریہ کا پیغام بھیجا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کیلئے ایک اچھی مثال بنیں اور اُن کے بچے آئندہ کیلئے ایک اچھے شہری اور اچھے راست باز مسلمان بنیں۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔
میرا موبائل فون کافی پرانا ہو چکا ہے تاہم ایسے معاشرے میں جہاں اس سے کئی گنا کم قیمت موبائل کو چھیننے کیلئے بندہ پھڑکایا جا رہا ہو ، ابھی بھی کافی قیمتی ہے اور ایسے فون کو انتہائی محنت کے ساتھ، اپنی ذات کو بھلا کر، اپنے سفر کو مؤخر کرکے مالک کو تلاش کرکے لوٹانا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ خیر ابھی باقی ہے۔
بے شک ورنہ ہمارے اعمال تو پورے سورے ہیں
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالی اس امین شخص پر اپنی خصوصی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔ آپ نے ایک خوبصورت جذبے کو ویسے ہی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا اس کے لئے شکریہ قبول فرمائیں۔
جواب دیںحذف کریںایسے لوگ معاشرے میں رحمت ہوتے ہیں
جواب دیںحذف کریںسلیم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اتنی برائیوں کے باوجود یہ ملک (نعوذبااللہ) تباہ کیوں نہیں ہوتا تو میں یہی کہتا ہوں کہ ابھی پاکستان میں بہت اچھائی ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ہمارے اوپر رحمت کی بارش برستی ہے اور برستی رہے گی ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی اس نیک شخص اور اس کی اولاد پر اپنی خصوصی رحمتوں کا نزول فرمائے ، اللہ پاک ہم سب کو ایسا ہی بننے کی تو فیق عطا فرمائے۔
جواب دیںحذف کریںلاجواب۔۔۔۔اللہ اس امین کو اپنے بچوں کی اعلی تربیت کرنے کی توفیق دے۔۔آمین
جواب دیںحذف کریںایک سچی اور سبق آموز تحریر
جواب دیںحذف کریںپاکستان اس لئے بچا ہوا ہے کہ یہاں ایسے بہت سے نیک لوگ موجود ہیں
پاکستان زندہ باد
جواب دیںحذف کریںاچھے لوگوں کے ساتھ ہمشہ اچھا ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںہمارے معاشرے میں امید افزا واقعہ۔
جواب دیںحذف کریںاللہ پاک مذکورہ شخص کو جزائے خیر دے آمین
جواب دیںحذف کریںاس طرح کے لوگ اب پاکستان میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت خوشحال لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جو ڈائیوو پر سفر کر سکتے ہیں وہ آسودہ حال ہی ہوں گے۔ معاشرے کے بگاڑ کی بڑی وجہ غربت ہے اور پاکستان میںغربت بڑھتی جا رہی ہے، اسلیے جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمحترم ۔ پہلے ایک شکائت کہ آپ ہمارے شہر آئے اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی ۔دیگر شاید آپ نے خرم ابن شبیر کی بات کی ہے کیونکہ خرم ابن بشیر تو اسلام آباد یا راولپنڈی میں نہیں رہتے ۔
جواب دیںحذف کریںجہاں تک نیکی کی بات ہے تو اس کے چھُپے رہنے کی کچھ وجوہات ہیں (1) لوگ نیکی چونکہ اپنے اللہ کی رضا کیلئے کرتے ہیں اس لئے اس کی اشتہار بازی نہیں کرتے ۔ (2) ذرائع ابلاغ کا کام سنسنی پھیلانا ہے کیونکہ عام لوگ سنسنی خیزی سے مرعوب ہوتے ہیں اسلئے وہ نیکی یا نیک لوگوں کی بات نہیں کرتے اور عوام تک نہیں پہنچتی ۔ (3) میرے ہموطن اپنے وطن اور ہموطنوں کو بُرا کہنا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں اسلئے ہر دم سب ہی ایسے ہیں کہہ کر برائی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ۔ (4) اگر نیک لوگوں کی تلاش کی جائے تو اپنے وطن میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن ہم کوشش نہیں کرتے
نمبر 2 پر تبصرہ سے میں متفق نہیں ۔ نیکی کیلئے دولت یا تعلیم یا حالات کی کوئی قید نہیں ۔ ہر طبقہ میں نیک اور بد دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں
جواب دیںحذف کریںجناب محترم و معظم افتخار اجمل بھوپال صاحب
جواب دیںحذف کریںمیں نہایت معذرت خواہ ہوں کہ پنڈی اسلام آباد آ کر بھی آپ سے شرف ملاقات حاصل نا کر سکا۔ اللہ پاک آپ کو عمر مدید دیں اور پھر کبھی ملاقات کا موقع بنے۔
تصحیح کیلئے شکریہ، میں بھی خرم ابن بشیر ہی لکھنا چاہتا تھا غلطی سے ابن بشیر لکھا۔
آپ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ نیکی کی باتیں پر اثر اور با وزن ہوتی ہیں، اور عوام الناس میں ان کا چرچا کم ہی ہوتا ہے۔ میڈیا کیلئے ان میں چسکا کم ہوتا ہے وہ بھی ان کی ترویج میں ممد نہیں ہوتے۔ ملک قائم و دائم ہے جو یقیناً خیر کی نشانی ہے کہ یہاں اچھوں کی کم نہیں ہے۔
میرا پاکستان، تبصرہ کیلئے شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںغربت و افلاس واقعی ایک بہت بڑی لعنت اور بیماری ہے جو انسان کو برائیوں کی دلدل میں پھنساتی ہے اور کفر تک لیجا سکتی ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہ فرماتے تھے کہ اگر مجھے غربت انسانی روپ میں مل جاتی تو میں اسے قتل کر دیتا۔
تاہم موجودہ صورتحال میں شاید آپ کی بات منصفانہ نا ہو کہ اب امانت داری صرف آسودہ حال لوگوں میں ہی رہ گئی ہے۔ یہ خوبی امارت اور غریبی سے ہرگز جڑی ہوئی نہیں ہے۔ کچھ ےلوگ فقر میں بھی اخلاقی اقدار کی اعلٰی مثال ہوتے ہیں اور کسی قسم کی گراوٹ پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ بالکل اسی طرح کچھ آسودہ حال لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں جن کی اخلاقی حالت سے انسان تو انسان جانور بھی شرما جائیں۔
اللہ پاک ہم سب کو ایمان کی سلامتی دے، آمین
پیارے بٹ صاحب، تبصرہ کیلئے شکریہ۔ اللہ پاک ہم سب کو نیکی پر کاربند رکھے اور امانت و صداقت کی دولت سے نوازے، آمین
جواب دیںحذف کریںیاسر بھائی، خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںجی، بالکل صحیح، معاشرے میں ایسے امید افزاؑ واقعات کی تشہیر کی جانی چاہیئے تاکہ اور لوگوں کو مہمیز ملے
محترم انجم فرھاد صاحب، بلاگ پر خوش آمدید۔ آپ کی تشریف آوری اور تبصرہ کیلئے ممنون ہوں، شکریہ
جواب دیںحذف کریںبہن جی، خوش آمدید، جی، واقعی دل خوش ہوتا ہے ایسی باتوں سے کہ وطن عزیز میں ابھی تک یہ بہار بھی موجود ہے۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریںسر جی، شکریہ۔ اللہ پاک وطن عزیز کو ہمیشہ محفوظ رکھے، آمین۔
جواب دیںحذف کریںجی ہاں، اس واقعہ میں ایک درس تو ہے کہ ایمان کی سلامتی مادیت سے زیادہ عزیز ہونی چاہیئے۔
محترمی جناب وسیم رانا صاحب، شکریہ
جواب دیںحذف کریںاللہ پاک ہم سب کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق دے، آمین
سر مصطفٰے ملک صاحب، آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںجی آپ کا فرمانا بالکل بجا ہے کہ ہمارے ملک میں خیر ابھی بہت باقی ہے اور ملک کی بقاء کا سبب بھی یہی ۃے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں، غریبوں کی مدد اور مفلسوں سے شفقت برتتے ہیں۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ ہم انہیں اکثریت میں نہیں دیکھ پاتے کیونکہ وہ ریا اور نمود سے دور رہتے ہیں۔
سر ریاض شاہد صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ اللہ پاک معاشرے کو ایسے لوگوں سے بھر دے، آمین یا رب
جواب دیںحذف کریںجناب استاد محترم ساجد صاحب،
جواب دیںحذف کریںمیرے بلاگ پر خوش آمدید، اھلاً و سھلاً یا مرحبا۔ آمدنت باعث آبادی ما۔
اللہ پاک ہم سب کو نیکی پر کاربند رکھیں اور اپنی رحمتوں کے سائے میں جگہ دیئے رکھیں۔ شکریہ۔
علی، کیا حال ہیں؟ واپس پہنچ گئے؟
جواب دیںحذف کریںاعمال کی کیلکولیشن کا طریقہ کار معلوم نہیں جو کہہ سکیں کہ پورے سورے ہیں۔ اللہ پاک اپنی رحمت کا پردہ رکھے بس۔
ابھی تک ایسی مثالیں مل جاتی ہیں کہ جب غریب اور محنت کش طبقہ بھی ایمانداری کا دامن کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
جواب دیںحذف کریںافسوس تو یہ ہے کہ یہ مثالیں وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جارہی ہیں۔
اللہ ایسے لوگوں کو سلامت رکھے۔ایسے لوگ معاشروں میں دوڑتی زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمۃالله وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںالله پاک اپنے لطف و کرم کا سایہ پوری امت پہ تا قیامت قائم رکھے اور سب کو راہ راست کی ہدایت دے امین
گذشتہ رات رضا علی عابدی کی کتاب کتابیب ہمارے آباء کی پڑھ رہا تھا، جس میں ہندوستان کے ٹھگوں کا قصہ تھا، ایک زمانے میں ہندوستان میں ان ٹھگوں کا ایسا غلبہ تھا کہ کوئی انسان محفوظ نہ تھا ، یہ مال و دولت کے علاوہ انسانوں کی جان بھی لے لیتے تھے، انگریز نے ان کے خلاف کا روائی کی تو تیس ہزار سے زیادہ ٹھگ مارے گئے، ہزاروں گرفتار ہوئے، اب بھی یوں لگتا ہے کہ ٹھگوں کا دور دوبارہ آگیا ہے، ان کے خلاف انگریز تو نہیں آئے گا ہمارے ہی لوگوں کو کھڑا ہونا پڑے گا، بہرحال ٹھگوں کے اس دور میں ایسے واقعات بھی روشنی کی مثال ہیں، سیلم بھائی کراچی آئیں تو ملاقات ہونی چاہیئے۔
جواب دیںحذف کریںسلیم بھائی، اللہ پاک کے نیک بندے ابھی اس دنیا میں باقی ہیں۔ نیکی دائمی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی۔ بہت عمدہ مثال ہے۔ ایک اور بات بھی کہوں گا اور وہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے۔۔۔ یقین مانیں جس کی نیت صاف ہوتی ہے اللہ پاک اسی غیبی امداد کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںعمدہ تحریر اور سچائی بیان کرنے پر آپ کا بہت بہت
شکریہ
محترم سلیم صاحب، اسلام و علیکم!
جواب دیںحذف کریںامید ھے مزاج بخیریت ہوں گے۔جناب آپ نے تو بہت تعریف کر دی، یہ تو ہمارا فرض تھا۔ جب بچوں نے یہ بتایا کہ ان انکل کے پاس پاسپورٹ بھی تھا تو پریشانی بڑھ گئی۔ چنانچہ سب نے ٹھانی کی اس فون کے مالک کو تلاش کرنا ھو گا، کیوںکہ جن کا بھی یہ فون ھے ظاھر ہے سفر میں ھوں گے اور فون نہ پا کر پریشان ھوں گے۔ نیت صاف تھی اور اللہ نے مدد کی اور فون آپ تک پہنچ گیا، امید ھے اب اس کا خیال رکھتے ھوں گے۔ :-)
میں ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس نیکی کو سراہا۔ برائے مہربانی آپ سب ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، اللہ ہم سب کو چھوٹی ہی سہی، نیکیاں کرنے کی توفیق دے۔ ؔامین
دعاؤں کے طلبگار - اطہر و اہل خانہ
اطہر تنویر۔
جواب دیںحذف کریںیقین تو نہیں آتا لیکن بڑی بات ھے سر۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
السلام علیکم سلیم بھائی،
جواب دیںحذف کریںاللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی جان و مال کی حفاظت فرمائے اور نیکی کرنے والے کی نیکی کو قبول فرمائے۔ یقیناَ َ آپ ہی کی کوئی نیکی آپ کے کام آئی۔ بندہ کا تو یہی تجربہ ہے۔ کسی رکشے والے کا بٹوہ اس کو لٹایا تھا۔ اور کچھ عرصہ بعد 3 موٹر سائیکل سوار لڑکے میرے گھر میرا بٹوہ پہنچانے آئے جس میں رقم کے ساتھ کریڈٹ کارڈ، اے ٹی ایم کارڈ اور شناختی کارڈ بھی موجود تھا۔
اللہ ہمیں اُن بندوں میں شامل کرے جو دوسروںکے کام آئیں۔ آمین
محترمی فیصل مشتاق بھائی ، و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جواب دیںحذف کریںآپ کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ خیر کیجیئے تو خیر پائیے بھی اس دنیا کا ایک اصول ہے۔ نیکی نا تو کبھی رائیگاں جاتی ہے اور نا ہی اس کا سلسلہ ٹوٹتا ہے۔ اپنا واقعہ یہاں دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے کا شکریہ۔ ان شاء اللہ خیر اسی طرح باقی رہے گی۔ اللہ پاک آپ کو ہر شر سے محفوظ رکھے آمین
محترمی جناب اطہر تنویر صاحب۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ الحمد للہ میںبالکل بخیر و عافیت ہوںاور اللہ پاک سے آپ سب اہل خانہ کی خیریت نیک مطلوب ہوں۔ میرے بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ، آمدنت باعث آبادی ما، خوش آمدید، اھلآ و سھلآ یا مرحبا۔
جواب دیںحذف کریںمیرے پاس آپ کیلئے کوئی الفاظ نہیںہیں صرف دعائیںہیںکہ اللہ پاک آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو بخیر و عافیت رکھے اور اللہ کرے آپ ایسے ہی معاشرے کیلئے مثبت کردار اور روشن مثال بن کر رہیں۔ آمین۔ میںنے جو کچھ لکھا ہے وہ نا تو آپ کی تعریف ہے اور نا ہی میری خود نمائی، ایک اچھی مثال قائم ہوئی تھی اسے دوسروںکی آگاہی کیلئے شائع کیا۔ جزاک اللہ خیرا باحسن الجزاء۔ اگر آپ آئندہ میرے بلاگ پر تشریف لائیںتو مجھے خوشی ہوگی۔ والسلام
جناب محترم راشد ادریس رانا صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ کا کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ خیر اور نیکی ہمیشہ موجود رہے گی۔ آپ اچھے ہیںتو اللہ آپ“ کیلئے بھی اچھائیاںپسند فرماتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںتاہم میرے معاملے میںمیری تو تو کوئی اچھائی نہیںتھی بس اللہ پاک کی رحمت تھی۔ اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل رکھیں، آمین یا رب
جناب محترم عطا محمد تبسم صاحب المکرم - بلاگ پر خوش آمدید، بہت بہت شکریہ۔
جواب دیںحذف کریں(کتابیب ہمارے آباء کی) کا ملخص لکھنے کا شکریہ۔ زمانہ تو وہی ہے کہ ہر طرف ٹھگوں کا دور دورہ ہے مگر ان ٹھگوں میں عیاری کی جگہ سفاکی زیادہ ہے، اللہ پاک سب ہموطنوں پر اپنا کرم شامل حال رکھے۔
آپ کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ موجودہ واقعہ اندھیروں میں روشنی کی مانند ہے۔
آپ کی کراچی دعوت سر آنکھوں پر، میرا آنا ہوا تو ضرور حاضر ہو جاؤنگا۔ شکریہ
محترم جناب ارشد صاحب، بلاگ پر خوش آمدید۔ تبصرہ کیلئے شکریہ قبول فرمائیں، اللہ پاک پوری امت پر اپنا سایہ قائم و دائم رکھے آمین۔
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب محمد اسلم فہیم صاحب۔ خوبصورت تبصرہ کیلئے شکریہ قبول فرمائیں۔ اللہ کرے آپ کا پیغام اطہر تنویر صاحب تک پہنچ جائے۔
جواب دیںحذف کریںبرادر محترم جناب جواد احمد خان صاحب، شکریہ۔ آپ کا کہنا بالکل بجا کہ آج بھی ایسی مثالیں طبقاتی تقسیم سے بالا تر مل تو جاتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اللہ کرے خیر کا بول بالا ہو اور اچھائی کا غلبہ رہے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںاسلام و علیکم سلیم بھائی اور دیگر احباب
جواب دیںحذف کریںآپ اور اطہر تنویر دونوںمبارک باد کے مستحق ھیں ایک نے نیکی کی اور وہ بھی بچوں کو ترغیب دیتے ھوئے اور دوسرے نے نیکی کی ترویج کی تا کہ اور بھی ایسی نیکیاں کریں۔
آگے لوگوں نے نیکی کو غریب اور امیر میں تقسیم کر دیا جب کہ نیکی کی توفیق اللہ کسی کو بھی دے سکتا ھے۔
میرے مشاھدات بھی کچھ ھیں آپ سب کی اجازت ملی تو
share کروں گا۔
اللہ ھم سب کو بھی آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے آمین
جناب محبوب بھوپال صاحب، کیا حال ہیں؟
جواب دیںحذف کریںخوش آمدید۔ آپ کی نیک خواہشات کیلئے ممنون و مشکور ہیں۔ آپ کے تجارب و مشاہدات کے بارے میںجاننے کیلئے انتظار رہے گا۔
اسلام و علیکم
جواب دیںحذف کریںسلیم بھائی الحمد للہ ،اللہ آپ کو بھی خوش رکھے۔ امین
میرا پاکستان کے جواب میں دو واقعات میرے ساتھ پیش آئے تحریر کر رھا ھوں۔
1982 میں اپنی جاب پر بیوی بچوں کو لے کر حویلیاں جا رھا تھا ساتھ گھر کا سامان تھا جن میں دو اٹیچی بھی تھے باقی سامان بس کی چھت پر تھا جبکہ ایک اٹیچی ھماری سیٹ کے ساتھ تھا دوسرا ڈرایئور کی سیٹ کے ساتھ تھا۔ گھر پہنچ کر دیکھا ایک اٹیچی جو ڈرایئور کی سیٹ کے ساتھ تھا بس مٰیں بھول آئے ھیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون
بڑی پریشانی ھوئی اسی وقت حویلیاں سے ایبٹ آباد روانہ ھوا بس سٹینڈ پر پہنچ کر بس تلاش کرتا رھا آخر ایک کونے میں بس پہچان لی۔ ڈرائیور کنڈیکٹر بس میں اپنا حساب کر رھے تھے۔ ان سے اپنے اٹیچی کا پوچھا انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ مایوسی کی حالت میں واپس مڑا۔ تو انہوں نے اواز دی اور کنڈیکٹر نے بس کی چھت سے اٹیچی اتارا اور مجھے اپنا سامان پورا کرنے کو کہا۔ سب سے پہلے میں نے جلدی میں زیورات والی تھیلی کو دیکھا۔ وہ موجود پا کر اطمینان ھوا۔ اس نے کہا کہ تسلی کر لیں۔ میں نے باقی (چیزوںقیمتی کپڑے) کو دیکھا ۔ پورے تھے ۔ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کو کچھ رقم دینے کی کوشش کی مگر انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ ھم آج بھی ان کو دعائیں دیتے ہیں جنہوں نےلاکھون روپے کا سامان ھمیں لوٹا دیا۔ آللہ ان کو دنیا اور آخرت میں خوش رکھے امین
دوسرا واقعہ پچھلے سال پیش آیا
میں نےفروٹ لے کے اپنا پرس اپنے کوٹ کی سائڈ کی جیب میں رکھا اور بائیک پر بیٹھ کر گھر چلا آیا۔ گھر آ کر جیب میں پرس نا پایا۔ واپس گیا دوکان دار سے پوچھا اس نے کہا آپ راستے میں کہیں گرا گئے ھیں ۔راستے میں دیکھتا گھر آیا۔ لیکن پرس نہیں ملا۔ شام تک پریشان رھا۔
شام کو ایک آدمی نے فون پر مجھے پوچھا کہ آپ کی کوئی چیز گم ھوئی ہے۔ میں نے بتایا ھاں میرا پرس گر گیا ھے۔ اس نے رقم کا پوچھا میں نے بتایا تین ہزار سے زیادہ ہیں۔ جبکہ میرے آئی ڈی کارڈ بھی اور دوسری ضروری سلپس اس میں موجود تھیں۔اس آدمی نے اپنا اڈریس بتایا میں اس کے گھر گیا میرا پرس بھی واپس کیا اور چائے بھی پلائی۔ وہ ادمی گریڈ 4 کا ملازم تھا مالی حالت اتنی اچھی نہیں تھی لیکن ایماندار تھا۔ اللہ اس کو بھی جزائے خیر دے آمین
اور بھی بہت سارے واقعات ھماری زندگی میں ھوتے رھتے ھیں۔ کبھی ھمارا امتحان ھوتا ھے اور کبھی دوسروں کا۔
اللہ ھمیں ھر امتحان سے کامیاب کرے آمین