یہ واقعہ برٹش ایئر لائنز کے جہاز پر پیش آیا، تلخیص ملاحظہ فرمائیے۔
جنوب افریقیا کے شہر جوھانسبرگ سے لندن آتے ہوئے پرواز کے دوران، اکانومی کلاس میں ایک سفید فام عورت جس کی عمر پچاس یا اس سے کچھ زیادہ تھی کی نشست اتفاقا ایک سیاہ فام آدمی کے ساتھ بن گئی۔
عورت کی بے چینی سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے قطعی خوش نہیں ہے۔ اس نے گھنٹی دیکر ایئر ہوسٹس کو بلایا اور کہا کہ تم اندازہ لگا سکتی ہو کہ میں کس قدر بری صورتحال سے دوچار ہوں۔ تم لوگوں نے مجھے ایک سیاہ فام کے پہلو میں بٹھا دیا ہے۔ میں اس بات پر قطعی راضی نہیں ہوں کہ ایسے گندے شخص کے ساتھ سفر کروں۔ تم لوگ میرے لئے متبادل سیٹ کا بندوبست کرو۔
ایئر ہوسٹس جو کہ ایک عرب ملک سے تعلق رکھنے والی تھی نے اس عورت سے کہا، محترمہ آپ تسلی رکھیں، ویسے تو جہاز مکمل طور پر بھرا ہوا ہے لیکن میں جلد ہی کوشش کرتی ہوں کہ کہیں کوئی ایک خالی کرسی تلاش کروں۔
ایئرہوسٹس گئی اور کچھ ہی لمحات کے بعد لوٹی تو اس عورت سے کہا، محترمہ، جس طرح کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جہاز تو مکمل طور پر بھرا ہوا ہے اور اکانومی کلاس میں ایک بھی کرسی خالی نہیں ہے۔ میں نے کیپٹن کو صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے بزنس کلاس کو بھی چیک کیا مگر وہاں پر بھی کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اتفاق سے ہمارے پاس فرسٹ کلاس میں ایک سیٹ خالی ہے۔
اس سے پہلے کہ وہ سفید فام عورت کچھ کہتی، ایئرہوسٹس نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا، ہماری کمپنی ویسے تو کسی اکانومی کلاس کے مسافر کو فرسٹ کلاس میں نہیں بٹھاتی، لیکن اس خصوصی صورتحال میں کیپٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی شخص ایسے گندے شخص کے ساتھ بیٹھ کر اپنا سفر ہرگز طے نا کرے۔ لہذا۔۔۔۔
ایئرہوسٹس نے اپنا رخ سیاہ فام کی طرف کرتے ہوئے کہا، جناب محترم، کیا آپ اپنا دستی سامان اُٹھا کر میرے ساتھ تشریف لائیں گے؟ ہم نے آپ کیلئے فرسٹ کلاس میں متبادل سیٹ کا انتظام کیا ہے۔
آس پاس کے مسافر جو اس صورتحال کو بغور دیکھ رہے تھے، ایسے فیصلے کی قطعی توقع نہیں رکھ رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر پر جوش انداز سے تالیاں بجا کر اس فعل کو سراہا جو کہ اس سفید فام عورت کے منہ پر ایک قسم کا تھپڑ تھا۔
بنی آدم جس کی پیدائش نطفے سے ہوئی, جس کی اصلیت مٹی ہے, جس کے اعلیٰ ترین لباس ایک کیڑے سے بنتے ہیں, جس کا لذیذ ترین کھانا ایک (شہد کی) مکھی کے لعاب سے بنتا ہے، جس کا ٹھکانا ایک وحشتناک قبر ہے اور ایسا تکبر اور ایسی بڑائی۔۔
سبحان الله والحمد لله.. الذي خلق السماوات والأرض وما بينهما.. الذي لا يحب كل مختال فخور
[...] مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں Share this:EmailFacebookTwitterDiggStumbleUponPrintLinkedInLike this:LikeBe the first to like this post. [...]
جواب دیںحذف کریںAssalamaulaikum Dear Sir:
جواب دیںحذف کریںMasha Allah beautiful lesson for every one in this story.no discrimination for any human in Islam.every human has a equal rights.jazak allah once again for providing me such a shining plateform.
یہ فرق تو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہاں اگر انسان چاہیئے اور اللہ اگر توفیق عطا کردے سب کو تو یہ ہوسکتا ہے
جواب دیںحذف کریںکبھی نہ کبھی ایسی سوچ رکھنے والوں کو تھپڑ پڑ ہی جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںاس مین کوی سک نیھن تکبر بھت برا ھوتا ھے
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ۔۔۔۔۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ کالا جسے یورپ میں غلام بنا کر لایا گیا تھا اور انسانی تاریخ کی بدترین غلامی میں جکڑا ہوا تھا ، آج اس طرح اسکے حقوق اور عزت کی حفاظت کی جائے گی۔
جواب دیںحذف کریںکاش میرے سب ہموطن اس حقیقت کو سمجھیں
جواب دیںحذف کریںمزہ آگیا ۔ائر ہوسٹس کا جواب سن کر۔
جواب دیںحذف کریںاس سفید فام کا سارے سفر میں دل جلتا رہے گا۔
کہتے ہیں کسی کے دل کو جلانا ہے تو اسکو خوب سختی سے باتیں کرو اور پھر اسکو غصے میں بھر ا ہوا چھوڑ دو، بس وہ خود ہی اپنی اگ میں جلتا رہے گا۔
"ہ کالا جسے یورپ میں غلام بنا کر لایا گیا تھا"
جواب دیںحذف کریںghulami tu Islam main jais hai bhiu./.ajkal bhi tumharay gulf main lag bhag ghulamoon hi ki tara terat kartay hai teesrii dunya kay logon ku
"کاش میرے سب ہموطن اس حقیقت کو سمجھیں"
جواب دیںحذف کریںPhir tu kisi chritiain ku bhi mulk ka sadar banana par jai gai..isi tara tekh hai inku ghulamoon ki tarah treat karaty rehtay hain
"یہ واقعہ برٹش ایئر لائنز کے جہاز پر پیش آیا، تلخیص ملاحظہ فرمائیے۔"
جواب دیںحذف کریں"ایئر ہوسٹس جو کہ ایک عرب ملک سے تعلق رکھنے والی تھی"
Gori airline main arab air-hostess?Aam tur say arab airlines main gori airhostess hoti hain...yeha tu ult hu gia..
سفید فام کو اللہ تعالی کی نصیحت نا پہنچ سکی کہ " تکبر نا کرو "
جواب دیںحذف کریںشکریہ سلیم صاحب، آج کا مضمون پڑھ کر واقعی مزا آیا۔
کیپٹن اور ایر ہوسٹس کا فیصلہ قابل تحسین ہے
جواب دیںحذف کریںشکریہ سلیم صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم
جواب دیںحذف کریںمحترم محمد سلیم بھائی بہترین تحریر
اللہ ہم سب کو تکبر اور بڑائی سے محفوظ رکھے۔
در حقیقت لوگ اصلیت سے واقف نہیں ہیں اس لیے بہت نیچا سوچتے ہیں۔ اللہ ہمیں ہدایئت دے آمین
جواب دیںحذف کریںKaash Yehi Sabaq Koi Karachi Mein Bhi Deta
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ۔۔یہ ذہانت کا ثبوت بھی ہے
جواب دیںحذف کریں