
کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔
دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔
عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔
جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا
کہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟
یا وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟
یا وہ بہت زیادہ عیال دار اور بچے پیدا کرنے والی عورت رہی ہے؟
یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟
تو عورت نے یوں جواب دیا کہ
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے۔
مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی مالدار عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُنکے مال متاب سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے۔
اور نا ہی عیالدار اور بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی خوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دس دس بچے پیدا کئے مگر نا خاوند اُنکے مشکور ہوئے اور نا ہی وہ اپنے خاوندوں سے کوئی خصوصی التفات اور محبت پا سکیں بلکہ طلاق تک نوبتیں جا پہنچیں۔
اچھے کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں رہ کرمزے مزے کے کھانے پکا کر بھی عورتیں خاوند کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پاتیں۔
تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور خوشیوں بھری زندگی کا کیا راز ہے؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان پیش آنے والے مسائل اور مشاکل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
اُس نے جواب دیا: جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا تھا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں ( نہایت ہی احترام کے ساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کےساتھ خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلک رہی ہو اور نا ہی مذاق اور سخریہ پن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو بھانپ لیا کرتا ہے۔
اچھا تو آپ ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی، خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور و شرابے والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام کاج میں مشغول ہو جاتی تھی، بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور بھگانے کی کوشش کرتی جو میری خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔
تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اختیار کرلینا اور خاوند سے ہفتہ دس دن کیلئے بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
اُس نے کہا: نہیں، ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دو رُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی استعداد آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے آکسیجن کی مانند ہو اور تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا ہے تو ٹھنڈی اور لطیف ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی۔
اُس کے بعد آپ کیا کیا کرتی تھیں؟
اُس عورت نے کہا: میں دو گھنٹوں کے بعد یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس کا ایک گلاس یا پھر گرم چائے کا یک کپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہوتا تھا۔ میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں۔
جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔جبکہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویئے کی معذرت کرتا تھا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔
تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں، بالکل، میں اُن باتوں پر بالکل یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں۔
کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھ سے غصے میں کہہ ڈالتا تھا اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے پر سکون حالت میں کرتا تھا؟ غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا، تم مجھ سے کیونکر منوانا چاہتی ہو کہ میں اُسکی غصے کی حالت میں کہی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا کروں؟
تو پھر آپکی عزت اور عزت نفس کہاں گئی؟
کاہے کی عزت اور کونسی عزت نفس؟ کیا عزت اسی کا نام ہے تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ و ترش باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!
میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل کے اندر موجود تو ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحریر ہے . لیکن اس سے سبق وہی لیں گے جنہیں گھر کی اہمیت کا اچھی طرح اندازہ ہوگا.
جواب دیںحذف کریںپیارے داکٹر صاحب، اللہ تعالیٰ سب گھروں کو جنت نظیر بنائیں، جھوٹی انا اور عزت نفس کے مسائل نے گھروں کو جہنم بنا کر رکھا ہوا ہے۔ تحریر پسند کرنے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںآپکی یہ تحریر بھی ہمیشہ کی طرح کمال کی ہے۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
محترم! اسمیں کوئی شک نہیں کہ آپکی تمام تحاریر میں چھیے نصائح زندگی کو آسان بنانے کے لئیے مفید ہوتے ہیں۔ اور میری ذاتی رائے میں جن کی زندگی آسان ہے وہ عاقبت کے لئیے بھی وقت نکال لیتے ہیں اور اس پہ غوروفکرو عمل کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںاللہ جزائے خیر دے۔ آمین
السلامُ علیکم بھائی بہت زبردست تحریر ہے۔ میں اس کو آپ کی اجازت کے بناء ہی ایک فورم پہ شائع کرنے لگا ہوں لیکن وعدہ ہے کہ آپ کے بلاگ کا لنک ہمراہ ہوگا
جواب دیںحذف کریںواہ جی واہ ۔ راز کھُلا 44 سال بعد اور وہ بھی آپ کے ہاتھوں ۔ ميری بيوی شادی سے پہلے يا تو اس خاتون کی شاگرد رہی ہو گی يا اس کی کہانی سُنی ہو گی ۔ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميں غصہ اور غم ميں بہت کم آتا ہوں ۔ گو غصہ عارضی ہوتا ہے مگر جب ايسا ہو تو ميری بيوی ميرے پاس خاموش موجود رہتی ہے ۔ کچھ دير بعد وہ چلی جاتي ہے اور مجھے خوش کرنے کا کوئی سامان کرتی ہے يعنی ميری پسند کی کوئی چيز بنا يا پکا لائے گی ۔ اگر ايسا نہ ہو سکے تو مجھے کوئی اچھا واقعہ سنانے لگ جائے گی
جواب دیںحذف کریںجناب محترم افتخار اجمل صاحب، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو صحت کالمہ و عاجلہ عطا فرمائے، آپ نوجوان نسل کیلئے ایک مشعل راہ ہیں۔ یقیناً یہ آپ کے گھر کی ہی کہانی ہو سکتی تھی، ورنہ آجکل انا اور عزت نفس بنے بنائے گھروں کو اجاڑ رہی ہے۔ اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے
جواب دیںحذف کریںgreat article
جواب دیںحذف کریںجناب عدنان شاہد صاحب، سب سے تو آپکو میں اپنے بلاگ پر خوش آمدید کہتا ہوں آمنت باعث آبادی ما
جواب دیںحذف کریںآپ نے میری تحریر کو کسی فورم پر لگانے جانے کے قابل جانا، میں اسکو اپنے لیئے اعزاز جانتا ہوں
جاوید بھائی، آپ کی باتیں میرے لئے سند کا درجہ رکھتی ہیں- آپ نے ٹھیک کہا میں لفاظی کی کمی کی وجہ سے ہمیشہ سادہ موضع پسند کرتا ہوں اور کوشش بھی کرتا ہوں کہ اُسے سادگی سے ہی بیان کر دوں- اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اپنی دنیا اور آخرت درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںمحترم بنیاد پرست، بلاگ پر خوش آمدید، مجھے یہ جان کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ آپ میری سابقی تحاریر سے بھی واقفیت رکھتے ہیں، جزاک اللہ ایاک
جواب دیںحذف کریںDear Anonymous, thanks for your appreciation.....
جواب دیںحذف کریں[...] بیوی کا عاشق [...]
جواب دیںحذف کریںمحترم سلیم صاحب اسلام علیکم و رحمتہ اللہ۔۔
جواب دیںحذف کریںہمیشہ کی طرح عمدہ تحریر کےلئے آپکا بہت شکریہ۔۔۔ایک چیز ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس مضمون میں مردوں کے لئے کیا پیغام ہے۔۔۔۔؟
مردوں کے لیئے یہ پیغام ہے کہ وہ دل بھر کر غصہ اور گالم گلوچ کریں ،
جواب دیںحذف کریںکیونکہ ہمیں نہ تو مرنا ہے اور نہ ہی کسی اللہ کے آگے اپنے اعمال کے لیئے جواب دہ ہونا ہے!!!!!
:)
عبداللہ صاحب تحریر کو غور سے پڑھ لینا تھا ، وہاں آدمی نے پرسکون ہونے کے بعد کیا ، کیا اس پر بھی غور کرنا تھا ۔
جواب دیںحذف کریںتحریر ماشااللہ بہت اچھی ہے ، لیکن مجھے غصے کی حالت میں دی گئی طلاق پر شک ہے کیونکہ شاید ایک حدیث کا کم و بیش مفہوم ہے کہ طلاق ۳ حالتوں میں بہرحال نافذ ہو جاتی ہے ، غصے ، مذاق اور تیسری یاد نہیں ۔
جواب دیںحذف کریںخوبصورت تحریر۔ بہت سے لوگوں کے لئے دلچسپ انداز میں نصیحت۔
جواب دیںحذف کریںراؤ صاحب، تحریر پسند کرنے کا شکریہ- موضوع گھر کو جنت یا جہنم بنانے میں عروت کا کردار تھا کیونکہ یہ سب کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے۔ بر سبیل مثال پاکستان کے ایک درمیانہ طبقے کے آدمی کو ذہن میں لائیں تو صورتحال کچھ یوں ہوگی کہ سارا دن افسران کی بد تمیزگیاں سہنے، یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کیلئے لائنوں میں لگ لگ کر خوار ہو کر، پٹرول اور دیگر روزمرہ کی اشیاء کیلئے پھر پھر کر، 47 درجے کی گرمی میں جل بھن کر گھر لوٹنے والے شخص کو ٹی وی کے عزت نفس کے ڈراموں سے یاد کیئے ہوئے ڈایلاگ بولتی خاتوں خانہ سے واسطہ پڑے تو گھر جہنم ہی بنے گا۔ مرد سارے دن کی تلخیاں سہہ کر بھی مسکراتے ہوئے چہرے سے گھر میں داخل ہو، جس طرح کے قہقہے دفتر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ لگاتا رہا تھا (اکثر بیویاں یہی سمجھتی ہیں کہ بندہ باہر تو عیاشی ہی کرنے جاتا ہے) ویسے ہی قہقہے گھر داخل ہوتے ہوئے بھی مارتا ہوا آئے تو ایسے تصور کرنے والی بیوی یقیناً گھر کو جہنم کی آگ سے ہی بھرنے جا رہی ہے۔ اگر سمجھ داری سیکھ لے یا سمجھداری سے برتاؤ کرنا سیکھ لے تو یہی گھر جنت بھی بن سکے گا۔ خاوند سے قطع تعلقی کر لینا اکثر نادان عورتوں کا شیوہ ہے، یہ سرد جنگ کس طرح اعصاب کو توڑ رہی ہوتی ہے اس سے اُن کو کوئی غرض و غایت نہیں ہوتی۔ امید ہے میں آپ کے سوال کا جواب دیدیا ہوگا۔
جواب دیںحذف کریںعبداللہ صاحب، کسی اللہ کے سامنے نہیں، صرف ایک ہی اللہ ہے (وحدہ لا شریک لہ) کے سامنے پیش ہونا ہے سب نے۔ اللہ دنیا اور آخرت کی منزلوں کو آسان فرما ئیں۔ آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںمحترم انکل ٹام۔ خوش آمدید، آپکی آمد میرے لیئے عزت افزائی ہے۔ جی آپ نے ٹھیک کہا ہے طلاق کے اسطرح کے مسئلہ میں کچھ علماء علیحدہ علیحدہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ یہاں پر میری مراد صرف اس بات کی مثال دینا تھی کہ غصے کی حالت مٰن منہ سے نکلی ہوئی باتیں لا یعنی اور کیئے ہوئے فیصلے ماسوائے ندامت اور پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوتے اور نا ہی غصے کے وقت کی ہوئی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ بے وقوفی کی انتہاء تو یہی ہوگی کہ کوئی پرسکون شخص کی باتوں پر تو توجہ نی دے مگر اُسکی غصے کی حالت میں کی گئی گفتگو کو قابل گرفت جانے۔
جواب دیںحذف کریںمحترم عمران، بلاگ پر خوش آمدید۔ تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔ اللہ کرے یہ کسی کیلئے اصلاح کا سبب بن جائے۔
جواب دیںحذف کریںسارے بنیاد پرست اکٹھا ہوں تو یونہی واہ جی واہ ہوگی۔ اگر ایک عورت کا شوہر اپنی بیوی کو بد چلنی کے شبے میں قتل کر دے غصے میں تو آپکا فتوی کیا کہتا ہے۔ اگر ایک شوہر اپنی بیوی کو غصے میں کرکٹ کے بلے سمیت کسی بھی چیز سے مار کر اسکیآنکھ ، ناک، پاءوں یا ہاتھ کوئ بھی چیز توڑ کر ہسپتال پہنچا دے تو مولانا صاحبان اس وقت بھی اسکی شجاعت پہ اسی طرح واہ واہ کر کے خاتون کو صبر کی تلقین کریں گے۔ اگر ایک عورت کا شوہر اپنی بیوی کو اپنے ابا کے گھر سے پیسے لانے پہ مجبور کرتا رہے پھر بھی اسے شوہر کی پیار بھری باتوں پہ یقین کرنا چاہئیے۔ اگر ایک مرد اپنے بچوں کی ذمہ داری سے تو کتراتا ہو مگر بچے پیدا کرنے کے عمل میں بڑی دلچسپی رکتا ہو تو عورت کو خامشی سے اسکے پیار کی اس قسم پہ یقین رکھنا چاہئیے
جواب دیںحذف کریںمولانا صاحب، آپ نے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ کامیاب زندگی میں مرد کی مردباری، ذمہ داری اور محبت سے زیدہ محنت شامل ہوتی ہے یہ آپ بتا ہی نہیں سکتے۔ اس لئے کہ آپ ان سارے روائیتی مردوں کی طرح ہیں جو مذہب کے نام پہ لوگوں کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ اللہ ایسے مفتیوں سے کب جان چھڑائے گا۔ لاحول ولا قوہ۔
اس قسم کے رسپانس کی توقع آپ سے ہی کی جا سکتی ہے عبداللہ کے بعد،
جواب دیںحذف کریںکیا آپ کسی ایک مولوی کا نام بتا سکتی ہیں جس نے ایسے کام کرنے والے مرد کی حوصلہ افزای کی ہو ؟؟؟ اپنی طرف سے اسمپشنز بنا کر انکی بنیاد پر تقریریں کرنا سائنس میں ہی ہو سکتا ہے دین میں نہیں لہذا سائنس کو دین کے ساتھ مکس اپ نہ کریں ۔۔۔۔ بڑی مہر باندری
assalam o alaikum,
جواب دیںحذف کریںMazmoon hamesha ki tarhan acha hay, par ghusse ki halat may talaq na honay wali baat se mujhe ikhtalaf hay, tallaq to zyada tar ghusse may hi jati hay, maine aaj tak nahi suna k kisi ne mazak may talaq di ho,
aap ne neeche comment k reply may apni baat ko clear kar dia, par zyada tar log shayad usay na parhain,
kindly aesi ikhtelafi baatainli khne may ehtiyat se kaam lain, hamare haan aesay logon ki kami nahi jo har ghalat baat k liye kisi ka kandha talash karte hain
میں پھر جزاک اللہ کہوں گا کسی کے مروڑ اٹھتا ہے تو اٹھے
جواب دیںحذف کریںارے کمال کرتے ہیں آپ سلیم صاحب اور یہ تحریر بھی آپ کی ظرح سلیم پے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریںآپ عبداللہ کو دماغ کے استعمال کا ناحق مشورہ نہ دیا کریں ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ بھس بھی کبھی دماغ کے طور پر کام کرتا ہے بھلا؟
جواب دیںحذف کریںایک ایسا دماغ جو ہر معاملے کا تاریک پہلو دیکھے آنٹی سے بہتر کسی کا نہیں ہو سکتا۔ یہ پیدائش پر بھی بین ڈالتی ہے کہ ہائے ہائے اس نے تو کل کلاں کو مر کھپ جانا ہے۔ اللہ ان کے دماغ پر رحم کرے اور ان کو مولوی اور مفتی کے ڈر خوف سے نجات دلائے۔
جواب دیںحذف کریںسلیم بھائی۔۔۔ اپنے فین گروپ میں مجھے بھی شامل کر لیں۔۔۔ آپ کی جب بھی کوئی پوسٹ پڑھتا ہوں، ہمیشہ کچھ نا کچھ سیکھتا ہوں۔۔۔ واللہ، اللہ نے آپ کے قلم میں جادو رکھا ہے۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںایسا ہی اچھا لکھتے رہیں۔۔۔
والسلام
پیارے عمران اقبال، خوش رہیئے، کیسا فین یار، آپ بھائی ہیں، میرا اور آپکا دل ایک ہی جیسی باتوں پر دکھتا اور کھلتا ہے۔ یاد آ گیا ناں؟
جواب دیںحذف کریںپیارے بد تمیز، بلاگ پر خوش آمدید، یار آج کو تنگی دامان کا احساس ہو رہا ہے، اتنے سارے احباب اکھتے ہو گئے۔ راہنمائی کیلئے آتے رہا کریں
جواب دیںحذف کریںمحترم سعید پالن پوری صاحب، جزاک اللہ ایاک ایضاً۔ تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںجناب ضیاء الحسن خان صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، اھلاً و سھلاً و مرحبا- تحریر کیلئے اتنے نفیس کمنٹس صرف آپ کا حسن ظن ہی ہے۔ اللہ آپکو خوش رکھے
جواب دیںحذف کریںDear Shehr Yar Ahmed, mazmoon pasand karnay aur kami kotahi ko nazar andaz karnay ka shukria. Mian hamesha khaish karta houn keh kisi ikhtalafi baat ki ibtada ka sabab na banou, is baar jo kuch aisa hua hay woski waja main neechay comments main day chuka houn jisko aap qabool bhi kar chukay hain. Apko blog par khosh aamded.
جواب دیںحذف کریںجناب محمد صدیق بخاری صاحب، اللہ آپکو خوش رکھے، آپ نے تو ایسی بے مثال کہانی سنا کر رلا دیا ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تو فرمایا ہے کہ آدمی کی دنیا میں با سعادت زندگی کے پیچھے ایک صالحہ اور نیکوکار بیوی کا ہاتھ ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب دیںحذف کریںمحترم سلیم صاحب السلام علیکم۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔تحریر پسند کرنے کاشکریہ ۔یہ میری اپنی کہانی اپنی زبانی ہے۔”بیوی کا عاشق“ میں اپنے ماہانہ رسالے” سوئے حرم“ کے اصلاح و دعوت والے حصے میں شائع کر رہا ہوں۔جولائی میں شائع ہو گی۔ شائع ہونے پر لنک بھیجوں گا۔اس بلاگ پر کیا ساری تحریریں آپ کی ہیں؟اگر ترجمہ ہو تو براہ کرم اصل مصنف کا نام ضرور شائع کریں بصورت دیگر میں سمجھوں گا کہ یہ آپ کی تحریر ہے او رآپ ہی کے نام سے سوئے حرم میں شائع کرتا رہوں گا۔ سب تحریریں بہت اچھی ہیں۔ اللہ کریم آپ کا حامی و ناصر ہو۔محمدصدیق بخاری
جواب دیںحذف کریںمیں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جواب دیںحذف کریںیہاں آپ نے گالیوں کی بات لکھ کر گالم گلوچ کرنے والے مردوں کو ایڈوانٹیج دیا ہے اور اسی پر مجھے شدید اعتراض ہے،
کیا اسلام میں مردوں کو گالم گلوچ کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنکے ہم عاشق بنتے ہیں،انکا گھر والوں کے ساتھ یہی رویہ ہوتا تھا جو آج ہمارا ہے؟؟؟؟؟؟
خوب تو آپ نے بھی وہی کیا جو آپکے بھائی بند کرتے ہیں،
جواب دیںحذف کریںجو آپکی بات کے خلاف جائے اس کے تبصرے بلاک کردو،
بس یہی ہے آپکی مسلمانیت؟؟؟؟؟؟؟
I really appreciate, it is very nice and informative. May GOD bless you.
جواب دیںحذف کریںSONIA GHAZAL
عبداللہ، بخدا تم مجھ پر طنز، وار یا پھر تضحیک و تنقید کرتے تو تمہارا تبصرہ کبھی بھی نا مٹاتا۔ تم پرائی لڑائی میں پڑ رہے تھے جس سے کوئی مثبت بات تو نا ملتی مگر ایک جدل کا ماحول ضرور بنتا۔ صرف امن کو برقرار رکھنے کیلئے مجھے تمہارا وہ تبصرہ حذف کرنا پڑا تھا۔
جواب دیںحذف کریںSister Sonia Ghazal, thanks for your kind appreciations. Wishing all the best and happiness for you...
جواب دیںحذف کریںعبداللہ، شادی ایک بشری ضرورت ہے جس کیلئے شاید پکا مسلمان اور پھر عاشق رسول ہونا شاید شرط نہیں ہے۔ تمہیں شاید پتہ ہی ہوگا کہ عورت کو روزے کی حالت میں بھی کھانے کا نمک چھکھ لینے کی اجازت ہے اگر-------۔ اور یہ والا خاوند جس کیلئے روزے کی حالت میں بھی نمک چکھ لینے کی اجازت ہے وہ کس قسم کا خاوند ہوگا تم اندازہ لگا سکتے ہو۔ عبداللہ، عورت کے پاس اتنا صبر ہوتا ہے نو مہینے حمل اٹھا سکتی ہے، درد زہ کا عشر عشیر مرد کو برداشت کرنا پڑے تو مرد مر جائے۔ ایسی صابر عورت اگر گھر کی بقا اور حفاظت کیلئے خاوند کی چند کڑوی کسیلی باتیں برداشت کر لے تو گھر جنت بن جائیگا۔ مجھے امید ہے کہ میں نے تمہارا جواب دیدیا ہوگا۔
جواب دیںحذف کریںپیارے محمد صدیق بخاری صاحب، و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی سے نوازے رکھے- بے شک آپ دنیا میں سعادت والی زندگی پا رہے ہیں۔ جی یاں میری تحریر ایک عربی مقال کا ترجمہ تھی۔ کچھ مقالات انٹرنیٹ اتنے شدومد سے موجود ہوتے ہیں کہ اصل مصنف کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ میرے بلاگ پر موجود تمام تحریریں میری ذاتی کاوشیں ہیں جن کے پیچھے عربی مواد اور مقالات کا اثر تھا۔ آپ نے اس تحریر کو اپنے موقر فریدے کیلئے منتخب کیا جس پر فخر محسوس کر رہا ہوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںسلیم بیٹا، عبداللہ پاگل ہو چکا ہے، نفسیاتی مریض ہے، ڈاکٹر بھی ہاتھ اٹھا چکے ہیں اس کے علاج سے، بیٹا عبداللہ نہایت ہی خطرناک مریض ہے، براہ مہربانی اسے نظر انداز کرو، ورنہ یہ ہماری طرح آپ کی زندگی بھی جہنم بنا دے گا۔۔۔
جواب دیںحذف کریںعبداللہ کا بدقسمت باپ، ابو عبداللہ
نہیں ،
جواب دیںحذف کریںایک صابر عورت کے صبر کو دن و رات آزمایا جاتا ہے اس کی برداشت کو اس کی کمزوری سمجھا جاتا ہے،
کیا یہ حقائق آپکی نظر سے پوشیدہ ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟
ہماری ساری ڈیمانڈز عورتوں ہی سے کیوں ہوتی ہیں؟؟؟؟؟؟
ہم خود اپنے نفس پر کنٹرول کرنے کے بجائے عذر لنگ کیوں تراشتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
یہ جتنے زہنی مریض ہیں یہ سب اپنے باپوں کے یا استادوں کے مظالم کا شکار لوگ ہیں،
ایسے مردوں کی بیویاں بھی ذہنی مریضائیں بن جاتی ہیں ،جو بچوں کے لیئے مرے پر سو درے ثابت ہوتے ہیں!
کیا یہ سچ نہیں؟؟؟؟؟؟؟
Very nice indeed, as I suffered the same situation that you have told in your article, but my wife has taken Khulla from court just 3 months (14 March 2011) before without caring our son, Abdullah Ahmad. who is just 1 year old, Now she is living with her parents and Abdullah is in her custody. We both will be married again if written in fate but how to assure about my son that he will be a normal person.
جواب دیںحذف کریںI don't want to go to court for his visitation rights neither they are allowing me to meet with my son. I just pray to God to give me patience an long and good life to my Abdullah
You have written exactly the same words that I was thinking some days before, "She caught all my words said in anger which last only 5 minutes, and forgot all the good time spent with me in these 2 years"
Allah Talah hum sab par apna karam karay
تحریر بہت اچھی لگی۔
جواب دیںحذف کریںبرائے مہربانی اس جملے تو تبدیل کر دیں، اس سے غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے۔
"غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا"
عامر شہزاد، طلاق کے بارے میں جو آپکا نقطہ نظر ہے وہی میرا بھی ہے۔ یہاں پر میری بات کا مطلب کچھ اور تھا۔ تاہم غصے ایک ایسی حالت بھی ہوتی ہے جس میں طلاق قبول نہیں کی جاتی۔ اس کے بارے میں جاننے کیلئے یہ مضمون پڑھیں۔ http://www.islamqa.com/ur/ref/45174
جواب دیںحذف کریںDear Umair Ahmed, I am sorry to hear your sad story, May Allah bless you with patience and protect your son from all harms in his life. Yes brother, this was the main reason I tried to raise in this article. Allah ham sab par apna karam karay. Ameen
جواب دیںحذف کریںعبداللہ ، اب تم اس قدر غصے میں بھلا کیا خاک سمجھو گے میری باتوں کو؟
جواب دیںحذف کریںپیارے ابو عبداللہ، آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اللہ آپ پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین یا رب
جواب دیںحذف کریںنہیں جناب یہ غصے کیا ویسے بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے جسقدر گند مچایا ہے۔ آجکل وہ عنیقہ ناز اپنے بلاگ پر سنبھالتی اور شائع کرتی ہے۔ باقی کچھ لوگوں نے انکو مکمل بین کیا ہے۔ کچھ ان کے تبصرے ڈیلیٹ کر دیتے ہیں جبکہ کچھ ان کے تبصرے صرف اتنا شائع کرتے ہیں جہاں تک یہ کچھ کمال نہ کر رہے ہوں۔ آپ بھی جلد یا بدیر ان کو بین یا ڈیلیٹ کر دینے پر مجبور ہا جائیں گے۔ پہلی نشانی ہوتی ہے یہ آپ کے بلاگ پر لنک پوسٹ کر جائیں گے۔ جب یہ لنک پوسٹ کریں۔ آپ کو میرا یہ تبصرہ بغور پڑھ لینا چاہئے۔
جواب دیںحذف کریںgreat
جواب دیںحذف کریںپیارے بد تمیز، اتنے سارے قیمتی مشوروں کا شکریہ۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، مجھے عنقریب ان پر عمل کرنا پڑے گا۔ اس بار تو کچھ سپیم کر کے اور کچھ ڈیلیٹ کرکے بچ گیا ہوں، آئندہ آپکے مشوروں پر عمل پیرا رہونگا۔
جواب دیںحذف کریںDear Muhammad Saleem
جواب دیںحذف کریںAOA
One of my colleage Mr.Muhammad Iqbal Khan always forward your articles to me as and when he receives. I read but till date not commented to the reason i do not know but all the articles are very interesting and informative and knowledgeable. You are serving the whole whords who know urdu and are interested . May ALLAH Bless you for this service and give power, strength to continue till the end of your life. AMIN
M.A Siddiqui
جواب دیںحذف کریںAssalam o Ailkum .
Very knowledgable article for all not only wives but also for husbands.ALLAH bless u.
بہت خوب ،
جواب دیںحذف کریںتو آپ بھی اپنے بھائی بندوں کی طرح اسلام اسلام کی راگ مالا الاپتے ہوئے جھوٹ کا پرچار فرماتے ہیں،
پھر تو ہو چکا آپ کی باتوں میں اثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا کونسا تبصرہ گالیوں سے بھر پور تھا جسے آپکو اپنے بلاگ سے ڈلیٹ کرنا پڑا؟؟؟؟؟؟
یہاں جو میرے خلاف گند گھولا جارہا ہےآپکا اسے انجوئے کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ
یہاں موجود گند میں جناب ایک اور بڑا اضافہ ہیں،
مبارک ہو!
جولوگ میرے مرحوم والد اور میری محترم والدہ کے بارے میں یہاں گند پھیلا رہے ہیں انہیں میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یاد رکھیں انشاء اللہ وہ بہت جلد اپنے کیئے کا مزا چکھیں گے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،
میرے والدین نے خشگوار ازداجی زندگی کے تیس سال ایک ساتھ گزارے ،اورپھر قضائے الہی سے والد صاحب کے انتقال کے بعد ہماری والدہ محترمہ نے ہم سات بھائی بہنوں کو ہمت اور حوصلے کے ساتھ سنبھالا،
میں اپنے ساتھ کیئے ہوئے ہر سلوک کو معاف کرسکتا ہون مگر اپنے محترم والدین کے بارے میں کی ہوئی بکواس کا ایک لفظ بھی معاف نہیں کروں گا!!!!!!!!
اگر آپ میں رتی بھر بھی غیرت اور شرم و حیا ہے تو آپ میرا یہ تبصرہ چھاپیں گے ،اور اسے ڈلیٹ نہیں کریں گے!
Respected Said Rehman, Wa Alaikum Salam. Welcome to my blog. It is my pleasure to learn you read my articles occasionally. Thanks to dear Muhammad Iqbal Khan. May Allah bless you all with health, wealth and happiness in your life. I am thankful to your kind wishes for me.
جواب دیںحذف کریںبسم الله الرحمن الرحيم
جواب دیںحذف کریںياعبد الله اعتقد بانك تفهم عربي لذا سارد عليك بالعربي .... يجب عليك احترام الناس وتقديرهم ولاتتكلم بما لاتعلم لقد سمعت بانك تعيش في السعودية في ارض طاهرة ولايليق بك ان تتكلم بهكذا كلام من ارض طاهرة نقي وطهر قلبك ولاتثير العداوة والبغظاء جزاة الله خير الجزاء الاستاذ سليم حيث عمل من مبداء ذكر فان ذكراى تنفع المؤمنين . من المفروض علينا اولا شكره على المواضيع الهامة واللطيفة والتي تدخل قلوبنا بسهولة الا تعلمون بانه يقوم بجهد كبير من اجل من ؟؟؟؟ اتعطونه نقودا على مقالته ؟؟؟ انه يكتب مقالته لله فان كانت لكم حجة بالغة قلتقلها ولترد عليه بالحجه لا ان تتكلم بغوغائيه ولغة الحمقاء لم ارى احد يرد على الحسنة بالسيئه ... فل نقل جميعنا اولا جزاك الله خيرا اخ سليم هل قراتم المقال بتمعن ؟؟؟؟ المقال يتحدث عن السعادة الاسريه ولايتحدث عن العنصريه كما تناقشها انتم بعقولكم الضيقة يتكلم عن تضحيات الزوجة لزوج والزوج لزوجة اذا اخذتم كل شيء بالعصبية والعنصرية فلن تفلحوا اذا ابدا
ماشاء اللہ کافی اچھا مضمون لکھا ہے۔ واقعی بہت فائدہ مند ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ اختلافی باتوں کا ذکر نہ ہو، کیونکہ لوگ میں اختلاف کا بہانہ بنا کر شریعت کو چھوڑ کر اپنے خواہشات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ بات خطرے سے خالی نہیں ہے۔
جواب دیںحذف کریںباقی رہی یہ تنقیدیں تو ۔۔۔۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کیلئے
محفل میں اکثر دوست دیکھ کر خوشی ہوئی۔
AOA
جواب دیںحذف کریںMuhammad Saleem Sb.
App key thaireer boath achai ya thaireer main nai apanai wife ko gift key hai pls is thara key or thaireer b liktai raha karai
Best Regards
Shaik Ismail
شکریہ
جواب دیںحذف کریںRespected Shakil Ismail, Welcome to my blog, I wish you a healthy, wealthy and prosperous life.
جواب دیںحذف کریںپیارے خراسانی صاحب، آپ تو مضمون پر (و ختامہ مسک) کی مانند آئے ہیں۔ جی ہاں ، آپ کے سارے مشورے انتہائی قیمتی اور قابل عمل ہیں۔ اور اس بار تو میرے بلاگ پر اتنے سارے دوستوں نے آ کر رونق ہی لگا دی ہے۔
جواب دیںحذف کریںعبداللہ، تمہارے اس خط کا مختصر جواب یہی بنتا ہے کہ میں تمہیں (اللہ یسامحک) کہوں اور چپ ہو جاؤں۔ تفصیلی جواب یہ بنتا ہے کہ میں تمہارا تبصرہ ڈیلیٹ نہیں سپیم فولڈر میں محفوظ رکھا ہوا ہے اور تم جانتے ہی ہو کہ تم نے اس میں کس طرح کی عامیانہ زبان استعمال کی ہوئی ہے۔ گویا تمہارا تبصرہ شائع نا کر کے تمہاری بھلائی ہی کی ہے جس کیلئے تمہیں میرا مشکور ہونا چاہیئے۔ مستقبل کیلئے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ تمہارے تبصروں کے ساتھ کیا کرونگا۔ اللہ تمہیں خوش رکھے۔ میرا ایک مشورہ مانو، مضمون پر اُسی کی مناسبت سے تبصرہ کیا کرو اور پرائی لڑائی میں بھی نا پڑا کرو۔ خیر اندیش
جواب دیںحذف کریںآپ نے میرا جو تبصرہ محفوظ رکھا ہوا ہے اسے فورا سے پیشتر چھاپیں تاکہ مجھے پتہ چل سکے کہ وہ میرا ہی ہے یا میرے آئی ڈی سے کسی اور نے کیا ہے،
جواب دیںحذف کریںکچھ عرصے سے کسی خبیث کو میرا آئی ڈی ہیک کرنے کا خبط ہو گیاہے!!!!
عمدہ تحریر کےلئے آپکا بہت شکریہ .........
جواب دیںحذف کریںمحترم وسیم عباس، بلاگ پر خوش آمدید- تحریر آپ کو پسند آئی جس کیلئے میں بھی آپکا شکر گزار ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو صبر و تحمل کی دولت سے نوازے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںgreat article... great blog... surely i will come again :)
جواب دیںحذف کریںi would do the same with my husband ,
جواب دیںحذف کریںi like this artical
اسلام ءلیکم!
جواب دیںحذف کریںآپکی تحاریر اکثر پڑھتا رھتا ھوں لیکن آج پہلی بار اس میں اپنا تبصرہ بھیج رھا ھوں!
1) آپکی تحاریر بہت ھی عمدہ ھیں اور سمجھنے والوں کے لیے اس میں بہت کچھ ھے جبکھ میری طرح کے کم عقلوں سے ھدایت کوسوں دور !
دعا ھے ! اللّہ عزّو جل آپکو کروٹ کروٹ خو شیاں نصیب فرماے آمین ثمّ آمین!
محترم عبداللہ صاحب نے (9 جون 2011 بروز جمعرات 3:05 صبح) اپنے تبصرے میں لکھا " کسی اللہ کے سامنے حاضر نہیں ھونا" میں صرف اس لفظ کسی اللہ کی وضاحت چاھتا ھوں۔
دعا ھے اللہ عزو جل ھمیں آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرماے!
[...] میرے بلاگ کے قاری بھی ہیں۔ میرے مضمون( بیوی کا عاشق) پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی سچی آپ بیتی لکھ دی تھی جسے پڑھ [...]
جواب دیںحذف کریں[...] ایک شوہر کا اپنی بیوی کو خراج تحسین [...]
جواب دیںحذف کریںBht achi or sabaq aamooz kahani he lekin janab saleem sahab GHUSSE ME DI GAI TALLAQ BHI ISLAM ME HO JATI HE"
جواب دیںحذف کریںجناب آپ کی تحریر پڑئ اچھی کوشش ہے مگر آپ کی یہ بات لوگوں کو گمراہ کرتی ہے کہ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی ۔ یعنی دل بھر کر بیوی کو تنگ کرتے رہو طلاق دیتے رہو اور فرماوء غصہ میں طلاق نہیں ہوتی ۔ بھائ کبھی مزاق یا خوش میں بھی کوئ طلاق دیتا ہے۔ کہ بیگم میں آج بہت خوش ہوں تم کو طلاق دی۔ جا عیش کر۔ اپنی تحریر کو ایسی باتوں سے محفوظ رکھیں۔ایسا نہ ہو کوئ آپ کی بات سے گمراہ ہوجاے اور گناہ میں مبطلہ ہوجاے۔اور اس کے ذمدار آپ ہوں۔ میں نے فتوے کا مکمل مطلعہ کیا اور اس میں بھی واضہ طور تحریر ھے کہ غصہ میں ظلاق ہوتی ہے اللہ آپ کو آخرت کی سمھج آتا فرماے۔ہاں جنوں علیدہ بات ہے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو دين كے شعائر اور قوانين ميں بصيرت سے نوازے امین
اسلام و علیکم۔
السلام علیکم، میں نے اس مضمون کا تبصروں سمیت مطالعہ کیا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اس تبصرہ کو ایک انفرادی موضوع کے طور پر شائع کردیں
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںمیں نے یہ کچھ ماہ پہلے فیس بک پر ہی پڑھا تھا اور اپنے لئے بہت کچھ سیکھا تھا- اور کامن سینس نے اس میں دئےگئے میسج سے مکمل اتفاق کیا تھا- ایک بہن نے یہ پوسٹ لگائ تھی اور اس پر باقی بہنوں کے ساتھ کافی نرم گرم بحث بھی ہوئ تھی :)
اور اپکے کمنٹ کا یہ حصہ:
''بر سبیل مثال پاکستان کے ایک درمیانہ طبقے کے آدمی کو ذہن میں لائیں تو صورتحال کچھ یوں ہوگی کہ سارا دن افسران کی بد تمیزگیاں سہنے، یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کیلئے لائنوں میں لگ لگ کر خوار ہو کر، پٹرول اور دیگر روزمرہ کی اشیاء کیلئے پھر پھر کر، 47 درجے کی گرمی میں جل بھن کر گھر لوٹنے والے شخص کو ٹی وی کے عزت نفس کے ڈراموں سے یاد کیئے ہوئے ڈایلاگ بولتی خاتوں خانہ سے واسطہ پڑے تو گھر جہنم ہی بنے گا۔ ''
باقی کے شک اور ابہام کو بھی دور کر دیتا ہے الحمدللہ!
محترمہ بہن ام عروبہ صاحب، جی اس مضمون (در اصل ایک عربی مقال سے ماخوذ) نے میرے بلاگ پر خوب رونق لگائی تھی۔ جب کہ گوگل سے تلاش کا نتیجہ بتاتا ہے کہ اسے سینکڑوں دیگر احباب نے بھی اپنے اپنے بلاگ کی زینت بنایا تھا۔ اور بعض جگہوںپر تو رونق میرے بلاگ سے بھی زیادہ رہی۔
جواب دیںحذف کریںاس مقال میںنا چاہتے ہوئے بھی ایک متنازعہ بات شامل ہو گئی تھی جس کا جواب دینا پڑا اور چند ایک کڑوے کسیلے تبصروںکا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بہرحال، میری نیت واضح تھی کہ گھروںکی ٹوٹ پھوٹ کے خلاف اور اصلاحاحوال کا داعی تھا۔ میری نیت کبھی بھی عورت کے مقام سے رو گردانی یا اس کی تنقیص مراد نہیں تھی۔ ایک قاریہ عنیقہ ناز کے تبصرہ کے جواب میں لکھا ہوا میرا جواب آپ کو میرا نقطہ نظر بتائے گا۔
اس کے علاوہ میںنے ایک تبصرہ کے جواب میں جس کا ٹکڑا آپ نے یہاں لگایا ہے میںبھی اپنا نقطہ نظر پیش کیا تھا۔
آپ نے میرے مضمون کو مثبت لیا اور اسے قابل عمل جانا، اس کیلئے میںآپکا مشکور ہوں۔
خوب صورت تحریر
جواب دیںحذف کریںnice sharing and great post.I found this blog very worthy so i have bookmarked. Good Job keep it up!......
جواب دیںحذف کریںThanks brother, welcome to my blog, I appreciate your kind comments. You are most welcome.
جواب دیںحذف کریںسلام
جواب دیںحذف کریںاچھی تحریر ہے۔ اس کو متوازن کرنے کے لئے کبھی ہم مرد حضرات کی ذمہ داریوں پر بھی لکھئے گا۔
اور جناب اس بات سے اختلاف ہے
“غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا”
عرض یہ کرنا تھی کہ کیا کبھی کسی نے ہنسی خوشی بھی طلاق دی؟
جناب مینگو مین، کیا حال ہیں
جواب دیںحذف کریںاس مضمون کو لکھنے کے بعد دوستوں کی تبصرہ کی شکل میں ایک بڑی محفل جمی تھی جس میں عورت کے ساتھ ساتھ مر کی اہمیت پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی اور کچھ خامیوں یا گلطیوں کے ازالے کی بھی صورت نکالی گئی تھی، امید ہے کہ آپ تبصرے پڑھ کر بہت محظوظ ہونگے
اللہ کا کرم ہے۔ آپ سنائیے
جواب دیںحذف کریںجی ہاں میں اس محفل کا خوموش قاری ہوں