کہتے ہیں کہ سخت ٹھٹھرا دینے والی سردی میں کسی جگہ کچھ خار پُشت بیٹھے تھے۔
سردی سے سے اُنکا بُرا حال ہو رہا تھا۔
تھوڑی سی حرارت پالینے کی طمع میں ایک دوسرے کے قریب آئے تواُنکے جسموں پر لگے کانٹے ایک دوسرے کو زخمی کرنے لگے۔
دوبارہ ایک دوسرے سے پیچھے ہٹ کر بیٹھے توپھر سردی مارنے لگی۔
کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھیں تواپنے کانٹوں سے ایک دوسرے کو زخمی کریں یا دور دور جا کر بیٹھیں اور سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں؟
بالآخر انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ
قربت ہو مگرایک حد کے اندر رہ کر،
ایک دوسرے کی حرارت تو پہنچتی رہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ
ایک دوسرے کے کانٹے چبھ کر درد و الم کا باعث بھی نا بننے پائیں۔
اور دوری بھی ہو تو اتنی کہ
موسموں کی حدت و شدت اور امن و امان کا مسئلہ نا بننے پائے۔
اور اسی طرح ہی تو انسانوں کی دُنیا میں ہمیں کرنا چاہیئے
کیونکہ لوگ بھی تو خار پشتوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔
اپنے جسم پر لگائے ہوئے غیر مرئی کانٹوں کے ساتھ۔
یہ کانٹے ہر اُس شخص کو چبھ کر زخمی کر دیتے ہیں
جو بغیر کسی ضابطے کے نزدیکیاں چاہتے ہوں،
اور دوریوں کی اذیت اور فراق کے الم بھی مار ڈالتے ہیں
جب لوگ بغیر کسی حساب کے دوریاں رکھنا چاہتے ہوں۔
دیکھ لینا چاہیئے کہ
لوگوں سے میل جول اور معاملات میں کسقدر بے تکلفی مناسب رہے گی
تاکہ قربت کے فوائد سے زیادہ اذیت نا اُٹھانی پڑ جائے
یا پھر دوری سےتعلقات پر اوس ہی نا پڑنا شروع جائے۔
دانا شخص وہی ہے جو ان دانشمند خارپشتوں کی حکایت سے یہ سبق سیکھے کہ:
قربت سےتعلقات میں اُنسیت و محبت کی حرارت تو لیجیئے اور دیجیئے
مگر اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ
قربت اتنی زیادہ بھی نہ ہو کہ جسموں پر لگے ہوئے غیر مرئی کانٹے بدن میں چبھ کر تعلقات کو ہی مجروح کر کے رکھ دیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اس معاشرے میں اپنے دوستوں کے ساتھ پرجوش تعلقات رکھ کر جینا چاہتے ہیں جو ہماری خوشی اور غمی میں ہمارے کاندھوں کے ساتھ کاندھا ملا کر کھڑے ہوں۔ جن کے محبت بھرے بول ہمارے کانوں میں حلاوت بن کر اُترا کریں اور ان کی ہمدردی اور غمگساری کے الفاظ ہمارے دلوں کو تقویت اور سہارا دیا کریں۔
یہ ٹھیک ہے کہ
آپ کے دل میں آپ کے دوستوں کیلئے ایک گہری محبت ہے مگر
بلا ضرورت، بے ترتیب اور بے محل ملاقاتوں یا قربتوں سے کسی کے معمولات میں حرج کا خدشہ رہے گا۔ اور پھر یہ ملاقاتیں اور قربتیں کہیں اُکتاہٹ اور دل بھر جانے کا سبب نہ بن جائیں۔ اور اسی طرح ہی تو قرابت داریاں اور تعلقات ناقابل برداشت رنج و الم اور دکھوں ، پریشانیوں میں بدل جایا کرتے ہیں۔
پیارے دوست۔ اچھا طرح دیکھ لے اور اطمینان کر لے کہ تیرے دل کے دروازے پر تالا بھی لگا ہوا ہے کہ نہیں؟ ایسا تو نہیں کہ جس کا دل چاہتا ہے وہ اس گھر میں آ جا سکتا ہے چاہے وہ تیری دوستیوں کے معیار پر پورا اُترنے والا ہے بھی یا کہ نہیں؟
اس دنیا میں رہنے اور بسنے کیلئے اس دنیا کے باسیوں سے راہ و رسم، ناطے اور تعلقات اور دوستیاں رشتے داریاں تو رکھنی اور بنانی پڑیں گی مگر مناسب فاصلہ رکھ کر۔ لوگوں کی غداریوں اور مکر و فریب سے بچ اور بچا کر۔
ہمیشہ یہی ذہن میں رکھتے ہوئے کہ انسان بھی تو خارپشت کی مانند ہیں کہ زیادہ قربت داری اور ملت مارے گی اور زیادہ دوری بھی جان لے لے گی۔
[...] باقی کا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں [...]
جواب دیںحذف کریںبہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جو مجھے ایک پسندیدہ شعر یاد دلاتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںغیروں سے تعلق تو ہے ہی غلط
اپنوں سے بھی ایک فاصلہ چاہیے
میں ابھی تک حیران ہوں کہ کوئی بھی شخص اتنی اچھی تحاریر اتنے تسلسل کے ساتھ کیسے لکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰٰ آپکی عمر صحت اور قلم میں برکتیں اور رحمتیں فرمائے۔
بہت خوب ۔۔۔ آپ کی ہر تحریر پڑھتی ہوں بہت اچھا انداز ہے آپ کے لکھنے کا ۔۔
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، اھلا و سھلا
جواب دیںحذف کریںمضمون پسند کرنے اور اپنا پسندیدہ شعر شیئر کرنے کا بہت شکریہ۔
بر سبیل تذکرہ مولانا الطاف حسین حالی صاحب کا یہ شعر بھی اسی مضمون کی مناسبت سے ہے
بڑھاؤ نا آپس میں ملت زیادہ
مبادا کہ ہو جائے نفرت زیادہ
آپ کی محبت اور نیک خواہشات میرے لئے سرمایہ ہیں۔ اللہ آپکو کو خوش رکھے۔ آمین یا رب۔
محترمہ حجاب صاحبہ۔ مجھے یہ جان کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ آپ میرے مضامین باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ انداز تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںبہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت بہت شکریہ
بہُت ہی خُوبصُورت طریقے سے آپ نے اِتنی اچھی بات کہی کہ دِل کے اندر تک اُترتی چلی گئ ُاللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ،،
جواب دیںحذف کریںخیر اندیش،،
عمدہ
جواب دیںحذف کریںیاسر بھائی، تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ آپکا تبصرہ میرے لیے سند ہے۔
جواب دیںحذف کریںمحترمہ شاہدہ اکرم صاحبہ۔ میرے بلاگ پر خوش آمدید۔ اھلا و سھلا و مرحبا۔
جواب دیںحذف کریںمضمون کی پسندیدگی اور نیک خواہشات کیلئے بہت بہت شکریہ۔
جناب احمر صاحب۔ خوش آمدید
جواب دیںحذف کریںبہترین تحریر ہے۔ اور عمدہ انداز تحریر۔۔۔
جواب دیںحذف کریںبہت ہی نفیس اور سبق آموز تحریر تھی۔
جواب دیںحذف کریںگوگل پلس کا بٹن بھی ساتھ شامل کرلیں بندہ شئیر ہی کردیتا ہے ساتھ۔ فیس بک تو ہے، وہ کردیا ہے۔
بہت پیارا لکھتے ہیں آپ۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ۔
ماشا اللھ بھت سبق آمیز تحریر ھے اللھ دے زور قلم اور زیادھ آمین
جواب دیںحذف کریںجناب ظفر اقبال وٹو صاحب، تشریف آوری اور نیک خواہشات کا شکریہ۔ جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںجناب زیرو جی۔ تشریف آوری کا شکریہ۔ اھلاً و سھلاً
جواب دیںحذف کریںآپ نے مضمون پسند کیا، اس کیلئے میں آپکا شکر گزار ہوں
جناب آواز دوست۔ خوش آمدید۔ آمدنت باعث آبادی ما
جواب دیںحذف کریںمضمون پسند کرنے اور تعریف کرنے کا شکریہ۔
کل گوگل پلس کا بٹن لگانے کے چکروں میں کوئی غلط پلگ ان انسٹال کر بیٹھا جس کی وجہ سے سپیم کمنٹس نے پریشان کر دیا ہے۔ تاہم گوگل پلس کا بٹن اب میسر ہے۔ آپ اس مضمون کو شیئر کرنے کے قابل سمجھتے ہیں میں اس کیلئے شکر گزار ہوں۔
پیارے وقار اعظم، تشریف آوری اور مضمون کیلئے پسندیدگی کا بہت شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںI like that .Keep it continued.
جواب دیںحذف کریںانسان کی تحریر اس کی شخصیت کی آمینہ دار ہوتی ہےِ۔
جواب دیںحذف کریںاور بعض لوگ ماں کی دعاوں کی طرح مخلص ہوتے ہیں، جو بغیر کسی لالچ ، غرض اور معاوضے کے دوسروں کی خدمت کرنا عبادت سمجھتے ہیںِ۔ اللہ تعالی آپ کو اس کار خیر کا اعلی بدل عطا فرماے۔ آمین
انسان کی تحریر اس کی شخصیت کی آمینہ دار ہوتی ہےِ۔
جواب دیںحذف کریںاور بعض لوگ ماں کی دعاوں کی طرح مخلص ہوتے ہیں - انہین بھلانا بھی چاہیں تو بھلا نہین سکتے - جو بغیر کسی لالچ ، غرض اور معاوضے کے دوسروں کی خدمت کرنا عبادت سمجھتے ہیںِ۔ - ایک اچھا کام بذات خود انسان کے لیے دعاہوتا ہے - اللہ تعالی آپ کو اس کار خیر کا اعلی بدل عطا فرماے۔ آمین
محترم جناب محمد ابرار قریشی صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے اسقدر قیمتی تبصرہ کیلئے میںآپکا مشکور ہوں۔ اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ آمین یا رب
Respected Muhammad Haroon Ghauri, Welcome to my blog.
جواب دیںحذف کریںI appreciate you liked my article.
انتہائ مسبت کاوشیں ہیں آپ کی ، اللہ ربّ العزّت آپ کو اور زور قلم عطا کرے (آمین)
جواب دیںحذف کریںدل سے نکلنے والی بات دل پر اثر کرتی ہے جبکہ زبان کی نوک سے نکلنے والی بات کان کی لو تک ہی پہنچتی ہے۔
آپ کی تکحریر پڑھ کر بہت متاثر ہوا ہوں اور تبصرہ کرےکیے بغیر نہیں رہ سکا ۔ اللہ تعالی' آپ کو دن دوگنی اور رات چوگنی کامیابیاں عطا کرے (آمین)
جناب محمد عارف مشتاق صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںمیں آپکے جذبات کا قدردان ہوںاور آپکی نیک خواہشات کا ممنون۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپکو جزائے خیر دے۔ آمین یا رب۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جواب دیںحذف کریںمحترم بھائی اسلام وعلیکم و رحمتہ اللہ
کوئی انسان کسی مذہب کسی گروہ کسی ملت کی وجہ سے کسی دوسرے انسان پر کوئی فوقیت یا برتری نہیں رکھتا ۔
سب انسان برابر ہیں ۔سب انسان نبیوں کی اولاد ہیں ۔آدم نبی تھے سب آدم کی اولاد ہیں ۔فوقیت کی بنیاد محض انسانیت ہے۔
جس شخص سے دوسرے انسانوں کی عزت ،مال محفوظ ہوں وہ اعلیٰ ہے ۔وہی اس آخروی زندگی میں کامیاب ہے ۔جس کی بابت
تمام نبی اپنی امتوں کو اگاہ کرتے رہے ۔کسی بھی انسان کی مال وجان کو نقصان پہچانا درندگی ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب یا ملت کا ہو۔
کسی کی املاک کو لوٹنا ،کسی کو غلام بنانا اللہ رب العزت کی رضا نہیں بلکہ غصہ کا موجب ہے۔تمام ارواح قابل تعظیم ہیں۔
اللہ رب العزت کی ہر تخلیق سے پیار کرنا ہی اللہ رب العزت کی خوشنودی کا باعث ہے ۔پوری کی پوری دنیا ایک خاندان کی مانند ہے ۔
اس خاندان میں جو لوگ راہ راست سے دور ہو گئے یا گمراہ ہو گئے یا شیطان کے جال میں پھنس گئے جیسے کہ کسی باغ میں پودے پانی نہ
ملنے سے مرجھا گئے ہوں وہ قابلِ نفرت نہیں بلکہ قابلِ توجہ ہیں ۔ان کی آبیاری کی ضرورت ہے ۔ ہم سب انسانوں پر فرض ہے اپنے
اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ کردار سے ان لوگوںپر زیادہ محبت سے توجہ دے کر لہلہاتے باغ کا حصہ بنایئں نہ کہ ان کو کاٹ دیں یا نفرت کریں
حقیقی زندگی کو اپنے اندر ڈھونڈنا چاہیے ۔روحی فدا آقا مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری کی پوری زندگی اللہ رب العزت کی رضا کا حقیقی نمونہ ہے ۔ آقا مولا ہمیں انسانوں پر تو درکنار جانوروں پر بھی رحم کر نے کا درس دیتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپاِرحمت ہیں ۔کائنات کے انسانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل ترین ہستی ہیں جنہوں نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھی راہ دکھائی اور جینے کا طریقہ سیکھایا ۔دنیا کے تما م تر انسانوں کے سارے مسائل کا حل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دکھائی ہوئی سچی اور حقیقی راہ پر عمل کرنے میں موجود ہے۔آئیے ہم سب انسان ایک دوسرے کے خالص بھائی بن جایئں ایک دوسرے کے ہمدرد،خیر خواہ اور ایک دوسرے کی مال وجان کے محافظ بن جایئں ہم سب حقیقی بھائی ہیں ۔شیعہ ،سنی ،وھابی ہم سب ایک ہیں بلکہ ہندو ،سکھ ،عیسائی غرضیکہ کسی بھی مذہب کے افراد قابلِ نفرت نہیں ۔
آئیے ایک پور امن خوبصورت معاشرے کی بنیاد رکھیں جس میں سب کی عزت ومال محفوظ ہوں ۔
پیغام توحیدی مرکزالعا لمی
جناب محمداحمد،انتظار حسین توحیدی صاحب، بلاگ پر خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے اس تبصرے کیلئے بہت بہت مہربانی۔ جزاک اللہ خیرا
[...] وضاحت: میرے سابقہ مضمون (دل کا تالا اور چابی) پر محترمی جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب نے کچھ یو ں [...]
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ۔۔۔ اور بہت بہت شکریہ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںزندگی کی تلخ ترین حقیقتوں میں سے ایک حقیقت، وقت کا تیزی سے گزرنا ، جوانی اور بعدازاں بڑھاپے کا آنا۔ بہتر انسان وہی ہے جو زندگی کے ہر دور میں شکر گزاری کے ساتھ اس دور کو گزارنے کا ڈھنگ سیکھ لے۔ ایک بہت بہترین تحریر ہمیشہ کی طرح۔۔ بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریںزندگی کی تلخ ترین حقیقتوں میں سے ایک حقیقت، وقت کا تیزی سے گزرنا ، جوانی اور بعدازاں بڑھاپے کا آنا۔ بہتر انسان وہی ہے جو زندگی کے ہر دور میں شکر گزاری کے ساتھ اس دور کو گزارنے کا ڈھنگ سیکھ لے۔ ایک بہت بہترین تحریر ہمیشہ کی طرح۔۔ بہت عمدہ ، شکریہ سلیم بھائی
جواب دیںحذف کریںbhot acha allah aap ko khash kri aamin
جواب دیںحذف کریںعملی زندگی میں تلخ تجربات کے بعد اپ کی تحریر پڑھی اب انشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںمیں کوشش سے اپنے کانٹوں سے دوسروں کو بچا کر حدت پہچاؤں گا
اور دوسروں کے کانٹوں سے بچنے کی بہت شکریہ
محترم محبوب بھوپال،
جواب دیںحذف کریںاللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے، جی ہاں رشتوں میں توازن زندگی کو پر مسرت بناتا ہے۔