تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 15 مئی، 2012

محبوب آپکے قدموں میں


یہ عورت گاؤں کے عالم   کو وہ روایتی والا   عامل سمجھتی تھی جو  گنڈے اور تعویذ کا کام کرتا ہے۔ اس لیئے جاتے ہی  اس نے فرمائش کر ڈالی کہ مجھے ایسا عمل کر دیجئے کہ میرا خاوند میرا مطیع بن کر رہے اور مجھے ایسی محبت دے  جو دنیا میں کسی عورت نے نا پائی ہو۔ بندہ عامل ہوتا تو جھٹ سے تعویذ لکھتا اور اپنے پیسے کھرے کرتا، وہ جانتا تھا کہ خاتون اسے کچھ اور ہی سمجھ کر اپنی مراد پانے کیلئے آئی بیٹھی ہے۔ یہی  سوچ کر عالم صاحب نے کہا، محترمہ، تیری  خواہش بہت بڑی ہے لہٰذہ   اس کے عمل کی قیمت بھی بڑی  ہوگی، کیا  تم  یہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہو؟ عورت نے کہا میں بخوشی ہر قیمت دینے کیلئے تیار ہوں۔ عالم نے کہا ٹھیک ہے تم مجھے شیر کی گردن سے ایک بال خود اپنے ہاتھوں سے توڑ کر لا دو تاکہ میں اپنا عمل شروع کر سکوں۔


شیر کی گردن کا بال اور وہ بھی میں اپنے ہاتھ سے توڑ کر لا دوں؟ جناب آپ اس عمل کی قیمت روپوں میں مانگیئے تو میں ہر قیمت دینے کو تیار ہوں مگر یہ توآپ عمل نا کر کے دینے والی بات کر رہے ہیں! آپ جانتے ہی ہیں کہ شیر ایک خونخوار اور وحشی جانور ہے۔ اس سے پہلے کی میں اس کی گردن تک پہنچ کر اسکا  بال حاصل کر پاؤں وہ مجھے پہلے ہی پھاڑ کھائے گا۔


عالم نے کہا، بی بی، میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس عمل کے لئے شیر کی گردن کا بال ہی لانا ہوگا اور وہ بھی تم اپنے ہاتھ سے توڑ کر لاؤ گی۔ اس عمل کو بس اسی طرح ہی کیا جا سکتا ہے۔


عورت ویسے تو مایوس ہو کر ہی وہاں سے چلی مگر  پھر بھی اس نے اپنی چند ایک راز دان سہیلیوں اور مخلص احباب سے مشورہ کیا تواکثر کی زبان سے یہی سننے کو ملا کہ کام اتنا ناممکن تو نہیں ہے کیونکہ شیر تو بس اسی وقت ہی خونخوار ہوتا ہے جب بھوکا ہو۔  شیر کو کھلا پلا کر رکھو  تو اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے۔ اس عورت نے یہ نصیحتیں اپنے پلے باندھیں اور جنگل میں جا کر  آخری حد تک جانے کی ٹھان لی۔


عورت شیر کیلئے  گوشت پھینک کر  دور چلی جاتی اور شیر آ کر یہ گوشت کھا لیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ  شیر اور اس  عورت میں الفت بڑھتی چلی گئی اور  فاصلے آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئے۔  اور آخر وہ دن آن ہی پہنچا جب شیر کو اس عورت کی محبت میں کوئی شک و شبہ نا رہا تھا۔ عورت نے گوشت ڈال کر اپنا ہاتھ شیر کے سر پر پھیرا تو شیر نے طمانیت کے ساتھ اپنی آنکھیں موند لیں۔ یہی وہ لمحہ تھا عورت نے آہستگی سے شیر کی گردن سے ایک بال توڑا اور وہاں سے بھاگتے ہوئے سیدھا عالم کے پاس پہنچی۔ بال اس کے ہاتھ پر رکھتے ہی پورے جوش و خروش کے ساتھ بولی، یہ لیجیئے شیر کی گردن کا بال۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے توڑا ہے۔ اب عمل کرنے میں دیر نا لگائیے۔  تاکہ میں اپنے خاوند کا دل ہمیشہ کیلئے جیت کر اس سے ایسی محبت پا سکوں جو دنیا کی کسی عورت کو نا ملی ہو۔


عالم نے عورت سے پوچھا، یہ بال حاصل کرنے کیلئے تم نے کیا کیا؟


عورت نے جوش و خروش کے ساتھ پوری داستان سنانا شروع کی کہ وہ کس طرح شیر کے قریب پہنچی، اس نے جان لیا تھا کہ بال حاصل کرنے کیلئے شیر کی رضا حاصل کرنا پڑے گی۔ اور یہ رضا حاصل کرنے کیلئے شیر کا دل جیتنا پڑے گا جب کہ شیر کے دل  کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے۔ پس شیر کا  دل جیتنے کیلئے اس نے شیر کے معدے کو باقاعدگی سے بھرنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے ایک بہت صبر آزما انتظار کی ضرورت تھی اور آخر وہ دن آ پہنچا جب وہ شیر کا دل جیت چکی تھی اور اپنا مقصد پانا اس کیلئے بہت آسان ہو چکا تھا۔


عالم نے  عورت سے کہا، اے اللہ کی بندی؛ میں نہیں سمجھتا کہ تیرا خاوند اس شیر سے زیادہ وحشی ،  اجڈ اور خطرناک ہے۔ تو اپنے خاوند کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیوں نہیں کرتی جیسا سلوک تو نے اس شیر کے ساتھ کیا۔ جان لے کہ مرد کے دل کا راستہ بھی اس کے معدے سے ہی  ہو کر گزرتا ہے۔ خاوند کے پیٹ کو بھر کر رکھ، مگر  صبر کے ساتھ، ویسا صبر جیسا شیر جیسے جانور کو دوست بننے کے مرحلے تک میں  کیا تھا۔ 


******


اس  سے ملتی چند تحاریر، جنہیں آپ دوبارہ پڑھنا بھی پسند کریں گے۔


(جلے ہوئے بسکٹ)،  (بیوی کا عاشق)،  (دوسروں کی قدر کرنا سیکھیئے)،  (ربڑ کا استعمال کرنا سیکھیئے)،  (خاموشی)

27 تبصرے:

  1. خوبصورت انداز سے عورت کو وہ بات سمجھانے کی کوشش کی جو اگر براہ راست سمجھانے کی کوشش کی جاتی تو شاید عورت ماننے سے انکار کر دیتی ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب۔۔۔۔ عمدہ سبق ہے مگر مردوں کے معاملے میں عامل کچھ زیادہ ہی دیہاتی ثابت ہوئے۔۔۔
    ارے جناب شہر کے شوہروں کے بکری پن سے عبرت حاصل کیجیے۔۔
    گلے میں رسی ڈالی، تھوڑا چارہ تھوڑا پانی ڈالا ۔۔۔اللہ اللہ خیر سلا

    جواب دیںحذف کریں
  3. السلام علیکم
    بہت خوب کہانی ہے- واقعی شوہر، شیر سے زیادہ مشکل تو نہیں ہے سدھانا :)

    جواد بھائ آُ پ کی بات نے محظوظ کیا :) - چارے کے علاوہ باقی باتیں عامل کے اس جملے میں آتی ہیں یعنی ''صبر کے ساتھ'' اس میں وہ عزت نفس اور برابری اور فرمانبرداری،تحمل وغیرہ سارے ایشو آ جاتے ہیں جو عورت مرد کے درمیان باعث نزاع ہوتے ہیں -

    جواب دیںحذف کریں
  4. اگرچہ کہ ایسی رواءت کی ماری تحاریر پہ تبصڑہ کرنا پسند نہیں کرتی لیکن یہ تبصرہ فرمایشی پروگرام پہ۔
    آپ نے تو روایت پسندوں کو خوش کر دیا۔ اب یہ راز جاننے کی کوشش کریں کہ غیر روائیتی کیسے خوش رہتے ہیں اور انکے گھر کیوں کر جنت کا نمونہ بنے رہتے ہیں۔ اس کا جواب جان کر آپکو بڑی مایوسی ہوگی۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. اگر کسی فیمیل دیوی نے مرد کو عورت کیلئے پیدا کیا ہوتا تو پھر ناتواں مرد ہی کسی بزرگ عالمہ کے پاس جایا کرتا ۔ وہ عالمہ اسے اپنی حاکم بیوی کا دل جیتنے کیلئے کوئی ایسی ہی اچھی مگر جھوٹی کہانی سنا دیتی اور وہ مرد مطمعن بھی ہو جاتا ۔
    انڈیا کے کسی ریموٹ علاقے سے امپورٹ ہوئی وی کسی ایسی کہانی کو سن کر آپ کیسا محسوس کرتے ؟

    جواب دیںحذف کریں
  6. میں یہ تحریر اپنے کسی دوست کو کس طرح میل کر سکتا ہوں۔ میری رہنمائی فرمائیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. غیر روایتی اور جنت کا نمونہ؟؟
    معاف کیجیے گا مگر میں نے غیر روایتی گھروں میں کمپرومائز اتنا زیادہ دیکھا ہے کہ اگر انکی زندگیوں سے کمپرومائز نکال دیا جائے تو وہ چوبیس گھنٹے بھی ساتھ نا رہ سکیں۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہت آسان ہے ۔۔۔۔۔ کاپی کیجیے اور پیسٹ کرکے سینڈ کردیجیے

    جواب دیںحذف کریں
  9. بہت عرصے پہلے یہ تحریر کہیں پڑھی تھی اب تو یاد بھی نہیں کہاں پڑھی تھی خیر آپ کا شکریہ کہ آپ نے اپنے بلاگ پر شائع کی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  10. جناب راجہ اکرم صاحب، کیا حال ہیں؟ جی آپ نے ٹھیک کہا ہے۔ ایک روایتی بات کو غیر روایتی طریقے سے سکھانے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے اس کہانی میں۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. صحیح فرمایا آپ نے مگر آج کل شوہر پر دھیان کہاں دیا جاتا ہے
    جبکہ ضرورت اسی امر کی ہی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  12. واہ بہت خوب ہمیں رام کرنا اتنا بھی تو مشکل نہیں :-)

    جواب دیںحذف کریں
  13. جناب محترم ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، کیا حال ہیں؟ آپ کے شگفتہ شگفتہ تبصرے نے تحریر کا مزا دوبالا کر دیا۔ دیر سے جواب دینے کیلئیے معذرت خواہ ہوں۔ پاکستان میں‌بجلی سے ہم آہنگی کیلئے لمبی چھٹی درکار ہوتی ہے مختصر چھٹی والے تو آنیاں‌اور جانیاں‌دیکھتے ہیں بس، کام کاج کب ہوگا اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ خیر سے گرمی بھی خوب ہے بس آم آ جائیں‌تو گرمی کا تو مداوا ہوجائے گا مگر بجلی کا کیا کیا جائے۔ آپ کی آمد سے دل خوش ہو جاتا ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. بہن ام عروبہ صاحبہ، و علیکم السلام، کہانی کو مثبت انداز میں‌لینے کا شکریہ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ، زہے نصیب آپ تشریف لائیں۔ آپ کا تبصرہ تو بذات خود ایک سوال تھا، کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ خود ہی اس موضوع پر روشنی ڈال دیتیں۔ آپ کی بلاگستاں‌پر خوب نظر ہے تو کیا گل نوخیز اختر صاحب کی تحریر (بیوی کی درخواست ، تھانیدارکےنام)آپ کی نظر سے گزری ہے کیا؟
    http://nokhaiz.com/bivi-ki-darkhwast-thanedar-kay-naam/
    شاید یہ والی عورت آپ متعارف کرانا چاہتی ہیں؟ پڑھیئے اور محظوظ ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  16. پیارے ج ج س صاحب۔ کیا حال ہیں؟ یہ ایک پرانی کہانی ہے جو رہتی دنیا تک صرف سلیقہ شعار مائیں اپنی بیٹیوں‌کو سناتی رہیں‌گی۔

    جواب دیںحذف کریں
  17. بلال کیا حال ہیں؟ اکثر تحاریر ایک جیسی ہوتی ہیں یا ان کا مقصد ایک جیسا ہوتا ہے۔ اللہ تمہارے مطالعے کے شوق کو قائم رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  18. جی، جہاں‌گھر برابری کی بنیاد پر نہیں، مرد کو سربراہ مان کر اور مجازی خدا کا رتبہ دے کر چلائے جاتے ہونگے وہاں اس امر پر ضرور توجہ دی جائے گی۔

    جواب دیںحذف کریں
  19. خوش آمدید، پسندیدگی کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  20. جی ہاں، ہم تو ویسے بھی بڑے بی بے قسم کے خاوند ہیں، ہمیں‌راضی کرنا تو بہت ہی آسان کام ہے/

    جواب دیںحذف کریں
  21. السلام علیکم
    ہم نے بھی پڑھا اور خوب محظوظ ہوئے- کیا جلیبی کی طرح سیدھی عورت ہے- جزاک اللہ خیر شئر کرنے کا-

    جواب دیںحذف کریں
  22. اسلام و علیکم!

    سلیم بھائی ۔ بات تو ٹھیک ہے۔ جس کام کی فکر انسان کو لگ جائے۔ اور پھر اس پر محنت کرے۔ تو۔۔۔۔۔۔۔

    کامیاب تو ہو جاتا یے۔۔ اس عورت کی طرح۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  23. سلام - اگر شیر کو شوگر ھوتی۔۔۔تو انجام کیا ھوتا۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  24. یہ سارے مضامین آپ نے خود لکھے ہیں؟؟؟کیا میں ان کو اپنے بلاگ پر شامل کر لوں؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  25. محترمہ دعا صاحبہ، میرے بلاگ پر خوش آمدید، اھلا و سھلا و مرحبا۔ جی آیاں‌نوں
    جی یہ ساری تحاریر میری ہی سمجھیں کم از کم اردو زبان کی حد تک۔
    اور مجھے یہ جان کر تو بہت ہی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ انہیں‌اپنے بلاگ پر شامل کرنے کے قابل سمجھتی ہیں، شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  26. بہت خوبصورتی سے بہت بڑی بات سمجھادی

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں