تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 7 مئی، 2012

پریشان کن مرغ


یہ ایک مشہور جرمن فلاسفر کے ساتھ پیش آنے والا سچا واقعہ ہے جو  اپنے ہمسائے کے مرغے کے شور و غل سے بہت  تنگ تھا۔ جب بھی یہ مرغا شور مچاتا اس کی ساری سوچیں درہم برہم ہو کر رہ جاتیں اور اس کے تحقیقی کاموں میں خلل پڑتا۔  ایک دن جب اس فلسفی کا اس شور و غل سے جینا تک محال ہو گیا تو اس نے اپنے ملازم کو کچھ پیسے دیکر بھیجا کہ جا کر ہمسائے سے یہ مرغا ہی خرید لے اور اسے ذبح کرکے پکائے  تاکہ  وہ ناصرف کہ  اس ساری کوفت کا بدلہ مرغے  کے لذیذ گوشت کو کھا کر لے سکے بلکہ مرغے کے شور و غل سے بھی نجات پا سکے۔


اُس  دوپہر کو اس فلسفی نے اپنے ایک عزیز دوست کو بھی اپنے گھر دعوت پر بلا لیا  تاکہ  دونوں مل کر مزیدار کھانا کھائیں۔ دوست کے آنے پر اس فلسفی نے بتانا شروع کیا کس طرح  ہمسائے کے مرغے نے اس کا جینا محال کر رکھا  تھا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ آج  وہ مرغا ہی خرید  کر پکا لیا ہے۔ گزرے تو  محض چند ہی گھنٹے ہیں مگر وہ بہت ہی سکون اور راحت محسوس کر رہا ہے۔ بلکہ آج صبح سے  تو اس نے اپنے تحقیقاتی کاموں پر جس توجہ سے کام کیا ہے وہ توجہ مہینوں سے حاصل نہیں ہو پا رہی تھی، گویا  اس نے آج صبح سے کئی مہینوں کے برابر کا کام کیا ہے۔


ابھی فلسفی اور اسکا دوست بیٹھے  یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ملازم  کھانا اُٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور فلسفی سے بولا، جناب والا، میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ میں نے آج صبح  ہمسائے سے مرغا  خریدنے کی بہت کوشش کی مگر وہ بیچنے پر آمادہ ہی نہیں ہوا، اس لیئے میں نے بازار سے جا کر اور مرغا خریدا اور آپ لوگوں کیلئے پکا یا ہے۔


فلسفی نے حیرت سے اپنے ملازم کی باتیں سنیں اور غور کیا تو واقعی ہمسایوں کا مرغا  تو اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اذانیں دے رہا تھا۔


شیخ طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ اس قصے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: میں نے جب اس فلسفی کے معاملہ پر غور کیا تو یہ نتیجہ اخذ کیا  کہ ، یہ شخص اس مرغے سے بہت پریشان تھا کیونکہ  یہ بہت شور مچاتا تھا، اور پھر یکا یک  ہی یہ شخص بہت خوش بھی ہوگیا حالانکہ یہ مرغا تو ابھی تک زندہ تھا اور حالات و واقعات میں کوئی تبدیلی پیش نہیں آئی تھی۔ گویا تبدیلی خود انسان کے اپنے اندر  پیدا ہوا کرتی ہے۔ یہ انسان کی اندرونی کیفیت ہی تھی جس نے اس فلسفی کو اس مرغے سے پریشان کر رکھا  تھا اور پھر  یہی انسانی  اندرونی کیفیت  ہی تھی جس نے اُسے خوش کر دیا تھا۔ اگر یہ خوشی خود ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہی ہے تو کیوں  ہم اسے  دوسروں سے مانگتے پھرتے ہیں۔ اور اگر یہ خوشی اتنی ہی قریب ہوتی ہے تو پھر ہم کیوں اسے اپنے  آپ سے دور کر رہے ہوتے ہیں؟


ہم  مرغے کو صرف اس لیئے ذبح  کر ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے شور سے راحت پا سکیں۔ اگر اس مرغے کے ذبح ہونے کے بعد اس کی جگہ ایک سو  اور  مرغے آ گئے تو  پھر ہم  کیا کریں گے، کیونکہ یہ دنیا  ایک آدھ سے نہیں ایسے کروڑوں مرغوں سے بھری پڑی ہے۔


کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم صرف  اسی ایک مرغے کو ہی اپنے دماغ سے اتار پھینکیں کیونکہ ہم زمین پر موجود سارے مرغوں کو تو  کرہ ارض   سے باہر پھینکنے سے رہے۔ اگر ہم سارے مرغوں  کے منہ بند کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو اپنے کانوں  کو بند کر لینے کی عادت  کیوں  نہیں ڈال لیتے؟ ہم اپنے احساسات کو نا پسندیدہ عناصر  سے متاثر ہونے سے عاری  کیوں نہیں کر لیتے؟  ہم اپنے  گرد ایک غیر مرئی سی  دیوار ہی  کیوں نہیں کھڑی کر لیتے جو ہمیں  ہمارے نا پسندیدہ محسوسات  کے ہاتھوں زخم آلود ہونے سے بچاتی رہے؟

23 تبصرے:

  1. بہت خوب۔۔۔ ساری بات ذہنی کیفیت کی ہوتی ہے۔ آدمی اگر پریشان ہو تو پتے کا ہلنا ہی غضب ہوجاتا ہے وگرنہ سولی پر بھی نیند آجاتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. محبوب بھوپال8 مئی، 2012 کو 8:55 AM

    السلام علیکم
    اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
    کیا خوب بات اپ نے یاد دلائی
    ھم سب خوشاں باہر تلاش کرتے ھیں یہ تو ھمارے اندر ھوتی ھیں اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. very very nice mashAllah.May Allah bless u for ur efforts.in this materialistic age u r working like a spiritual healer

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب محترم ڈاکٹر جواد احمد خان، تشریف آوری کا شکریہ۔ جی ہاں‌جب کسی حرکت یا کسی آواز کو ذہن پر سوار کر لیا جائے تو یہ سوہان روح‌بن جایا کرتی ہے ورنہ تو عرب کہتے ہیں‌نا کہ (النوم سلطان)، نیند تو بادشاہ ہوا کرتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. جناب محبوب بھوپال صاحب، تشریف آوری کا ایک بار پھر شکریہ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو بھی خوش رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. Dear Sara, welcome to my blog.
    I highly appreciate your softer comments on my efforts you liked.
    I hope you will continue visiting my blog and provide me with your guidance.

    جواب دیںحذف کریں
  7. بہت عمدہ تحریر ہے،یقینا اپنی سوچ بدلنے سے دنیا بدل جاتی ہے۔جس انداز سے ہم دنیا کو دیکھتے ہیں‌ ،وہی اصل میں‌ہماری دنیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. السلام علیکم
    جزاک اللہ خیرسلیم بھائ بہت ہی اچھی بات شیئر کی آُپ نے اور بہت ہی مفید نصیحت کی شیخ طنطاوی نے-

    (''ہم اپنے احساسات کو نا پسندیدہ عناصر سے متاثر ہونے سے عاری کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم اپنے گرد ایک غیر مرئی سی دیوار ہی کیوں نہیں کھڑی کر لیتے جو ہمیں ہمارے نا پسندیدہ محسوسات کے ہاتھوں زخم آلود ہونے سے بچاتی رہے؟'')

    اور ہم واقعی اپنے محسوسات اور جزبات کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی اسے دوسروں کے ہاتھ میں سمجھتے ہیں- ہم لوگوں پر تو اختیار نہیں رکھتے پر خود پر تو رکھتے ہیں نا- تو خود کو بدل لو- ایک شعر یاد آیا:
    دل اگر ہو خوش تو ویرانوں کے سناٹے بھی گیت
    دل پریشاں ہو تو شہروں میں بھی تنہائ بہت

    جواب دیںحذف کریں
  9. اسلامُ علیکم
    تحریر واقعی میں جاندار اور اپنے اندر ایک خاص تکنیک سموئے ہوئی ہے۔
    وہ کیا کہتے ہیں ناں جس کام کو آپ نے کرنا ہی ہے تو اسے بے دلی کے بجائے خوشی سے کر لیں تو زیادہ فائدہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  10. ساجد احمد سعودی عربیہ12 مئی، 2012 کو 6:29 AM

    بہت اچھی عمدہ تحریر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  11. جناب ساجد احمد صاحب،
    بلاگ پر تشریف آوری اور مجؐون پسند کرنے کیلئے شکریہ قبول فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں
  12. برادرم عبدالقدوس صاحب، بہت دنوں کے بعد تشریف لائے ہیں آپ، مہربانی

    جواب دیںحذف کریں
  13. محترم سعد ملک صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔
    جناب یہ تو خاص تکنیک ہے ناں تحریر میں، وہ الفاظ کا آسان ہونا اور سادگی ہے، آپس کی بات یہ ہے کہ یہ تکنیک میری کم علمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، کیونکہ میرے پاس اس سے بڑے الفاظ ہی نہیں ہیں، ہاہاہام یری خامی آپ کی نظر میں میری خوبی ٹھہری، میں آپکا شکر گزار ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  14. بہن ام عروبہ، و علیکم السلام، دیر سے جواب دینے پر معذرت خواہ ہوں، حالت سفر میں تھا۔
    آپ نے تو حاصل تحریر الفاظ کو علیحدہ کر کے ایک نئے سرے سے توجہ مرکوز کرا دی، میں آپ کا بیحد شکر گزار ہوں، موقع مناسبت سے شعر کا انتخاب آپ کے حسن انتخاب کی علامت ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. آپ کی میں نے جتنی بھی تحریریں پڑھی ہیں سب ہی بہترین ہیں اور یہ بھی

    جواب دیںحذف کریں
  16. ویسے کس مرغے کی بات ہو رہی ہے جی؟

    جواب دیںحذف کریں
  17. جناب عبدالقدوس صاحب، بہت دنوں کے بعد تشریف لائے ہیں آپ، پسندیدگی کیلئے بہت شکریہ/

    جواب دیںحذف کریں
  18. محترم سعد ملک، بلاگ پر خوش آمدید، اھلا و سھلا،
    مضمون کو پسند کرنے کیلئے شکر گزار ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  19. کیا خوب کہا کسی نے - خوشی بڑی مہنگی رکھی ھے دنیا میں

    جواب دیںحذف کریں
  20. خوشی ہمارے اندر ہی چھپی ہوتی ہے اور ھم اسے باھر تلاش کرتے رہتے ہیں-

    جواب دیںحذف کریں
  21. ہے تو مشکل کام مگر اپنے ہی فائدے کا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  22. منصورالحق منصور12 اگست، 2012 کو 5:07 AM

    مگر اس مرغ کا کیا جائے جو آپ کو سوتا دیکھ کر آپ کے کان میں اذان دینا شروع کردے۔

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں