کہتے ہیں کسی جگہ دو شخص رہتے تھے
ایک کا نام "عقل" تھا
اور دوسرے کا نام "نصیب"
ایک دفعہ وہ دونوں کار میں سوار ہو کر ایک لمبے سفر پر نکلے
آدھے راستے میں سنسان راستے پر کار کا پیٹرول ختم ہوگیا
دونوں نے کوشش کی کہ کسی طرح رات گہری ہونے سے پہلے یہاں سے نکل جائیں،
مگر اتنا پیدل چلنے سے بہتر یہ جانا گیا کہ ادھر ہی وقت گزار لیں جب تک کوئی مددگار نہیں آ جاتا۔
عقل نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت کے نیچے جا کر سوئے گا
نصیب نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے درمیان میں ہی سوئے گا۔
عقل نے نصیب سے کہا بھی کہ تو پاگل ہوگیا ہے کیا؟
سڑک کے درمیان میں سونا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہے
نصیب نے کہا؛ نہیں۔ سڑک کے درمیان میں سونا مفید ہے،
کسی کی مجھ پر نظر پڑ گئی تو جگا کر یہاں سونے کا سبب پوچھے گا اور ہماری مدد کرے گا
اور اس طرح عقل درخت کے نیچے جا کر اور نصیب سڑک کے درمیان میں ہی پڑ کر سو گیا
گھنٹے بھر کے بعد ایک بڑے تیز رفتار ٹرک کا ادھر سے گزر ہوا۔
جب ٹرک ڈرائیور کی نظر پڑی کہ کوئی سڑک کے بیچوں بیچ پڑا سو رہا ہے
تو اس نے روکنے کی بہت کوشش کی،
ٹرک نصیب کو بچاتے بچاتے مڑ کر درخت میں جا ٹکرایا
درخت کے نیچے سویا ہوا بیچارہ عقل کچل کر مر گیا
اور نصیب بالکل محفوظ رہا
*****
شاید حقیقی زندگی میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے
نصیب لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے
حالانکہ ان کے کام عقل سے نہیں ہو رہے ہوتے، یہی ان کی تقدیر ہوتی ہے۔
بعض اوقات سفر سے تاخیر کسی اچھائی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
شادی میں تاخیر کسی برکت کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
اولاد نہیں ہو رہی، اس میں بھی کچھ مصلحت ہوا کرتی ہے۔
نوکری سے نکال دیا جانا ایک با برکت کاروبار کی ابتدا بن جایا کرتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو
اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو
اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے (سورۃ البقرۃ – 216)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی تحریر ہے شئیر کرنے کیلئے بہت شکریہ
میری عقل بھی یہی کہہ رہی تھی کہ اب تو "عقل" کا کام تمام ہوگا ، ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ نصیب تو نصیب ہوتا ہے ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںشکریہ بلال صاحب ۔ ۔ ۔
بالکل ٹھیک بات لکھی آپ نے
جواب دیںحذف کریںجناب پاکستان کے حالات کے تناظر میں یہ کہانی بہت متناسب ہے، اب تو عقل کی بات ختم ہوچکی، صرف نصیب پر ہی تکیہ کیا جاسکتا ہے، مگر اس کہانی میںیہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ درخت کے نیچے سونے والے کا نصیب ہی کچھ ایسا ہی تھا۔ وللہ اعلٰم، عقل اور نصیب کی گتھی سلجھانا شاید اتنا آسان نہیںہے۔
جواب دیںحذف کریںہمیشہ کی طرح بہترین شیئرنگ اور پیغام ہے۔ بے شک جو خدا ہمارے لیے طے کرتا ہے وہی بہترین ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ۔
آسلام و علیکم سبحان اللہ بہت خوب جناب سلیم صاحب
جواب دیںحذف کریںہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو
اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو
اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے (سورۃ البقرۃ – 216)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
جواب دیںحذف کریںسلیم بھائی
ھمیشہ کی طرح بہت خوب نہیں لیکن اچھی تحریر
السلام علیکم ورحمتہ اللہ،
جواب دیںحذف کریںبہت خوبصورت تحریر لاجواب تجزیہ کے ساتھ
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کے نصیب میں دنیا و آخرت میں بھلائی ہی بھلائی لکھے۔ آمین
جناب ایم اے راجپوت صاحب، و علیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ، کیا حال ہیں؟ تشریف آوری اور پسندیدگی کیلئے شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںشکریہ جناب نور محمد صاحب، اللہ تبارک و تعالیٰ سب کے نصیب اچھے کرے آمین یا رب
جواب دیںحذف کریںمحترم علی، بہت مہربانی، واقعی بات کچھ کچھ ٹھیک ہی تھی۔
جواب دیںحذف کریںجناب محترم افتخار راجہ صاحب، آپ نے یہ خوب کہی ہے کہ پاکستان میںتو بس نصیب پر ہی تکیہ کیا جارہا ہے عقل کے استعمال کا تو دور دور تک کہیں شائبہ بھی نہیںہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہمیںاس صورتحال میںمحفوظرکھے آمین یا رب۔
جواب دیںحذف کریںمحترمہ ناعمہ آصف صاحبہ، شکریہ، اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمارے لئے جو بھی پسند کرتے ہیں وہی ٹھیک ہوتا ہے ، آپ نے بجا فرمایا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجناب محبوب بھوپال صاحب، خوش آمدید، جی یہی آیت اس کہانی کی تھیم تھی صدق اللہ العظیم۔ تشریف آوری کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںجناب محمد اسلم انوری صاحب، و علیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ۔ مجھے افسوس ہے کہ کہانی آپ کے معیار پر پوری نا اتر سکی، معذرت خواہ ہوں۔ آئندہ اپنے اختیار کو اور بہتر بنانے کی کوشش کرونگا۔
جواب دیںحذف کریںجناب فیصل مشتاق صاحب، و علیکم السلام و رحمۃاللہ، اھلا و سھلا۔ تحریر کی پسندیدگی اور نیک خواہشات کیلئے شکریہ قبول کریں، آپ کیلئے جوابا اس سے بہتر خواہشات کا طلبگار ہوں۔
جواب دیںحذف کریں