بادشاہ کےجوتے
کہتے ہیں کسی بڑے ملک کے بادشاہ نے رعایا کی خبر گیری کیلئے مملکت کے طول و عرض کا دورہ کیا۔ اس لمبے سفر سے واپسی پر بادشاہ کے پیر کچے پکےر استوں اور سنگلاخ چٹانوں پر چل چل کر متورم اور زخمی ہو گئے تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ مملکت کے جن راستوں سے میں گزرا ہوں ان پر چمڑہ چڑھا دیا جائے۔ ایک وزیر نے ڈرتے ڈرتے کہا؛ بادشاہ سلامت، بجائے اس کے کہ ہم ایسا کام کرنا شروع کریں جو ممکن نہیں ہے کیوں ناں ہم ایک چمڑے کا ٹکڑا آپ کے قدموں کے نیچے لگانے کا انتظام کریں جس سے آپ کو چلتے ہوئے راحت ملا کرے۔ اور کہتے ہیں یہاں سے جوتے پہننے کا رواج پڑا.
اس دنیا میں ہنسی خوشی رہنے بسنے کیلئے سارے جہان کو اپنے انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنا فضول ہوگا، کیوں ناں جس قدر ممکن ہو ہم اپنے آپ کو ہی تبدیل کرکے ہنسی خوشی رہنے کا راز پا لیں۔
******
اندھا اور اس کی اپیل
کسی عمارت کےسامنے ایک اندھا اپنی ٹوپی کو سامنے رکھے بھیک مانگ رہا تھا، ساتھ ہی اس نے ایک تختی لگا رکھی تھی جس پر لکھا تھا "میں اندھا ہوں میری مدد کیجیئے"۔ اعلانات اور انکی اہمیت جاننے والے ایک شخص کا ادھر سے گزر ہوا جس نے دیکھا کہ اندھا تو قابل رحم ہے مگر اسکی ٹوپی میں چند سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اندھے سے پوچھے بغیر اس نے تختی اٹھائی اور پہلے والی عبارت مٹا کر ایک نئی عبارت لکھدی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹوپی میں سکے اور نوٹ گرنا شروع ہو گئے۔ اندھے نے محسوس کیا کہ کچھ تبدیل ضرور آئی ہے اور شاید آئی بھی اس تختی کی عبارت سے ہے جس پر اس نے کچھ لکھا جانا محسوس کیا تھا۔ ایک پیسے ڈالنے والے سے اس نے پوچھا اس تختی پر کیا لکھا ہے؟ اس نے بتایا کہ لکھا ہے؛ ہم بہار کے موسم میں رہ رہے ہیں مگر میں اس بہار کی لائی ہوئی خوبصورتی کو دیکھنے سے محروم ہوں۔
جب نتائج آپ کی توقع کے مطابق نا ہوں تو مختلف وسائل کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔
******
عقاب کی کہانی
کہتے ہیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لگےد رخت پر ایک عقاب نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا جس میں اس کے دیئے ہوئے چار انڈے پڑے تھے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے ایک انڈا نیچے گرا جہاں ایک مرغی کا ٹھکانہ تھا۔ مرغی نے عقاب کے انڈے کو اپنا انڈا سمجھا اور سینے کیلئے اپنے نیچے رکھ لیا۔ ایک دن اس انڈے میں سے ایک پیارا سا ننھا منا عقاب پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو مرغی کا چوزہ سمجھتے ہوئے پرورش پائی اور مرغی سمجھ کر بڑھا بڑا ہوا۔ ایک دن باقی مرغیوں کےساتھ کھیلتے ہوئے اس نے آسمان کی بلندیوں پر کچھ عقاب اڑتے دیکھے۔ اس کا بہت دل چاہا کہ کاش وہ بھی ایسے اڑ سکتا! جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار دوسری مرغیوں سے کیا تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا تم ایک مرغی ہو اور تمہارا کام عقابوں کی طرح اڑنا نہیں۔ کہتے ہیں اس کے بعد اس عقاب نے اڑنے کی حسرت دل میں دبائے ایک لمبی عمر پائی اور مرغیوں کی طرح جیتا رہا اور مرغیوں کی طرح ہی مرا۔
منفی سوچوں کو دل میں بسا کر رہنا ان سوچوں کا غلام بن کر رہنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اگر آپ عقاب تھے اور آپ کے خواب آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کے تھے تو پھر اپنے خوابوں کو عملی جامہ دیجیئے، کسی مرغی کی بات پر دھیان نا دیجیئے کیونکہ انہوں نے تمہیں بھی اپنے ساتھ ہی پستیوں میں ڈالے رکھنا ہے۔ اپنے شخصی احترام کو بلند رکھنا اور اپنی نظروں کو اپنی منزل پر مرکوز رکھتے ہوئے پرعزم اور بلند حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا ہی تمہاری کامیابی کا راستہ ہوگا۔ جب معاملات آگے نا بڑھ رہے ہوں تو اپنی روزمرہ کی عادتوں سے ہٹ کر کچھ کرنا بھی کامیابیوں کو آسان بناتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ
إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نا ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
******
یہ تو زبردست سوچ کی غذا فراہم کر دی آپ نے ۔ شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںبہت ہی عمدہ، کیا بات ہے
جواب دیںحذف کریںتینوں کہانیوں سے بہترین اسباق ملے۔
جواب دیںحذف کریںBhai ap ki her tehreer bohat hi aala aur sabaq amoaz hoti hy MashaAllah ap hamesha behtareen intekhaab kertay hen
جواب دیںحذف کریںJazakAllah
بہت ہی خوب۔ ہمیشہ کی طرح بہترین شیئرنگ ہے۔
جواب دیںحذف کریںایک بار پھر بہت زبردست اور سبق آموز تحریر
جواب دیںحذف کریںدرج ذیل سبق اخذ کئے گئے:
کہانی 1۔ اللہ تبارک وتعالٰی سے دعا ہے ہمیں بھی ایسا ہی کوئی بادشاہ نصیب فرما جو عوام الناس کے سروں پر چلنے کے بجائے " رعایا کی خبر گیری کیلئے مملکت کے طول و عرض کا دورہ" کیا کرے اور اس دورےکا اثر اُس کی وضع قطع سے اور دورے کے نتائج کا اثر عوام کے رہن سہن سے واضح ہو۔
کہانی2: دوسری کہانی سے سبق ملتا ہے کہ قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو غیروں کے ہاتھ اونے پونے داموں بیچنے کے بعدبھی اگر آپ Fiscal Deficit کا شکار ہوں اور اپنی عیاشی کے خرچے پورے نا ہو رہے ہوں تو بھیک کے لئے کوئی اور'پتا' استعمال کریں۔جیسے وزیرستان آپریشن، نیٹو سپلائی کی بندش، بلا بلا بلا
کہانی 3: انگریزوں کے ہاتھوں 89 سال (1947-1858) تک سیئے جانے اوراس کےبعد امریکہ بہادر کے زیرِسایہ پلنے اور ساتھ ساتھ لارڈ میکالے کا دانا دنکا کھاتے ہوئے جو قوم پل بڑھ رہی ہو وہ صرف اور صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔مثلاً کبھی خود کفالت کے، کبھی لاہور کو کبھی پیرس اور کبھی استنبول بنانے کے خواب،کبھی بجلی کے، کبھی گیس کے وغیرہ
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں 'اقبال کا شاہین' بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
Mashallah Sir aap ki stories boht hi sabaq amoz hoti hain. Allah aap ko lambi zindigi ata farmaye.. Aameen.
جواب دیںحذف کریںآپ کی باتوں سے کوئی نصحیت لیتا ہے تو اللہ
جواب دیںحذف کریںآپ کو اس کی جزا دے گا۔ ہر مسلمان کو ایک دوسرے کے لئے نافع ہونا چاہییے
اسلام و عیکم و رحمۃاللہ و براکاتہ
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی سبق اموز تحریروں سے کئیون کا بھلا ھو گا پہلی کہانی میں اضافہ کروں گا اپنے پاوء بھر گوشت کے لیے کسی کی بھینس مت ذبح کرو
دوسری کہانی پر میرا تبصرہ یہ ھے کہ کوئی میرے سائن بورڈ کو بھی تبدیل کر دے۔ لیکن میرا تجربہ مخلتف ھے جو ایک کہانی سے ثابت کرتا ہوں ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ سمندر میں طوفان سے جہاز تباہ ہو گیا ایک مسافر بچ کر ایک جزیرے میں پہنچ گیا ادھر ایک جھونپڑی بنائی۔ جاں بچانے کے لیے خوراک اکٹھی کرتا رہتا ۔کافی دن گزر گئے کوئی بچانے نہیں آیا ۔ سامان خورد و نوش کافی اکھٹا کر لیا تاکہ بھوکا نہ مر جائے۔ ایک دن قدرت خدا کی جھونپڑی کو آگ لگ گئی اور تمام جھونپڑی کے ساتھ کھانے کو بھی کچھ نہ بچا۔ بڑا رنجیدہ ہوا۔ اب تو بچنے کی کوئی امید نہیں رہی۔ ابھی چند گھنٹے گزرے تھےکہ ایک کشی اس کو بچانے کے لیے پہنچ گئی۔ اس نے کشتی والوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں یہاں میری موجودگی کا کیسے پتا چلا۔ کشتی والوں نے بتایا کہ دھوئیں کو دیکھ کر ۔ "we saw a smoke signal".
اس سے ثابت ہوا کہ ایک ھماری پلانگ ھے اور ایک اللہ تعالیٰ کی ۔ اللہ کے فیصلے اٹل پکے اور ھمارے کچے۔
میں نے بورڈ کی تحریر کے ساتھ جگہ بھی تبدیل کی لیکن کامیابی نہیں ھوئی اس کے باوجود کوئی کام رکا نہیں۔ اللہ کا شکر ھے۔
تیسری کےلیےمیں کہوں گا پرواز رکھ بلند کہ بن جائے تو عقاب
بہت اعلیٰ!بہت اچھی تحر یر یں لکھتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںہمیشہ کی طرح ۔ ۔ ۔ ماشاء اللہ ۔۔۔۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ صاحب۔انتہائی سبق آموز واقعات
جواب دیںحذف کریںآپکی آخری کہانی اور اس کی تشریح بہت پسند آئی
جناب احمد عرفان شفقت صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ مضمون پسند کرنے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںپیارے علی، کیا حال ہیں؟ بہت مہربانی۔
جواب دیںحذف کریںجناب درویش خراسانی صاحب، شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںبہن مریم، بلاگ پر خوش آمدید۔ پسندیدگی کیلئے شکریہ۔ تشریف لاتی رہا کریں
جواب دیںحذف کریںمحترمہ جنابہ سیدہ ناعمہ آصف صاحبہ۔ خوش آمدید، بہت مہربانی
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب فیصل مشتاق صاحب، خوش آمدید۔ دانائی تو یہی ہے کہ علامتی کہامیوںسے انسان اچھے سبق اخذ کرے اور ان سے سیکھے بالکل ایسے ہی جیسے آپ نے ان کہانیوںکو قوم پاکستان کے ًاضی اور ھال کے تناظر میںدیکھا۔ اللہ آپ کو کوش رکھے اور ہمیںسیدے راستےپر چلائے۔ راہنمائی کیلئے تشریف لاتے رہا کریں
جواب دیںحذف کریںجناب محمود صدیق صاحب،۔ دعاؤںکیلئے شکر گزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے بہتر جزا دے آمین یارب آمین۔ تشریف آوری کیلئے شکریہ
جواب دیںحذف کریںجناب عطا محمد تبسم صاحب، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو نیکی کے راستے پر چلائے۔ اگر میرے الفاظ کسی کیلئے روشنی کی کرن بنتے ہیںتو میںنے اپنا مقصد پا لیا۔ شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںجناب محبوب بھوپال صاحب، میرا بلاگ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے لگ بھگ سارے مضامین پڑھ ڈالے۔ موقع محل کی مناسبت سے ایک خوبصورت کہانی شیئر کرنے کا شکریہ۔ جی آپ نے بہت ہی اچھے سبق اخذ کیئے۔ جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجناب ملک سلطان حیات صاحب، تشریف آوری کیلئے شکریہ۔ آپ کو میرے مضامین پسند آتے ہیں، میںآپکا شکر گزار ہوں۔
جواب دیںحذف کریںجناب برادرم نور محمد صاحب، جزاک اللہ ایاک ایضا۔ شکریہ شکریہ شکریہ
جواب دیںحذف کریںجناب حسیب نذیر گل صاحب۔ خوش آمدید، آپ نے کہانیوںکا گہرائی سے مطالعہ کیا جس کیلئے میںآپکا بیحد ممنون ہوں۔ شکریہ۔
جواب دیںحذف کریں