تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 26 جنوری، 2013

پردیسی عربوں کے ملک میں

رفیک، سدیک، علی عوض، ابو صرہ، ابو فسییہ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے عرب ملکوں میں عموما اور سعودی عرب میں خصوصیت کے ساتھ لوگوں کو پکارا جاتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کے نام نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی توہین، سخریہ اور استہزاء کیلئے اُن کو بلانے کے طریقے ہیں۔

ایسا نا سمجھیں کہ مجھے اتنی املا بھی نہیں آتی کہ رفیک کو ٹھیک کر کے رفیق لکھوں یا سدیک کو صدیق لکھ کر۔ عربوں کے ملک میں ویسے تو ہر غیر ملکی کو فرداً فرداً اجنبی اور مجموعی طور پر اجانب کہہ کر بلایا جایا جاتا ہے چاہے یہ اجنبی کسی بھی حیثیت کا ہو اور ہر مقامی شہری کو مواطن کہا جاتا ہے چاہے وہی کسی درجے اور کسی حیثیت کا ہی کیوں نا ہو۔  اور یہی مواطن اصل میں اس خطے میں پایا جانے والا حقیقی معنوں میں انسان ہوتا ہے۔ اٹلی، جرمنی، سپین اور جاپان وغیرہ میں رہنے والوں کو میرے اس مضمون کی سمجھ اُسی وقت ہی آ سکتی ہے اگر وہ خود اس خطے میں رہ چکے ہو یا اُن کا کوئی عزیز اس خطے میں رہتا ہو۔ یہ مضمون پڑھنا جاری رکھیئے تاکہ آپ میری بات کو سمجھ سکیں۔ امید ہے اب آپ کو اب پتہ چل گیا ہو گا کہ رفیق اور صدیق جس اعلی، ارفع اور نفیس درجے کے الفاظ ہیں مگر اس خطے میں وہ اس لہجے میں نہیں سموئے جا سکتے جس نظریئے میں بولے جاتے ہیں


 خاوند نیند سے جاگا، بیوی سے پوچھا میرا رومال کدھر ہے؟ بیوی نے بتایا خادمہ نے استری کرتے ہوئے جلا دیا ہے۔ کہا ٹھیک ہے ذرا استری کو گرم کرو۔ جا کر خادمہ کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لایا، بائیں گال کو استری والی میز پر رکھا اور داہنے گال کو استری سے جلا دیا۔ کیسا ظلم ہے یہ اور کیسی حیوانیت ہے یہ۔  دینی تعلیمات اور مذہبی رواداری تو بعد کی بات ہے، اس آدمی کے دل میں ذرا سی انسانیت بھی ہے کیا؟ کیا ایک رومال کے جل جانے کی سزا کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا اس کے پاس؟ تنخواہ سے رومال کے پیسے کاٹ سکتے تھے۔ کیا گال جلا دینے سے رومال ٹھیک ہو گیا ان صاحب کا؟ حد ہوتی ہے ظلم کی بھی۔

 سڑک پر کوئی ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، استاد ہے، بڑا ہے، چھوٹا ہے مگر یہاں بد زبانی سے کوئی بھی محفوظ نہیں محض اس لئے کہ وہ اجنبی ہے۔ اس کے بر عکس اگر کوئی مواطن ہے تو چاہے کسی بڑی سے بڑی زیادتی کرنے کا مرتکب ہو جائے، اکثر حالات میں اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔  اس کے خلاف کوئی شکایت درج کرانا یا اس شکایت پر عمل درآمد کروا لینا تو بہت بعد کی بات ہوتی ہے۔


 بیوی کو شک گزرا کہ جب وہ ملازمت پر جاتی ہے تو اُس کا خاوند گھر کی خادمہ کے ساتھ دست درازی کرتا رہتا ہے۔ خاوند سے بات کی تو اُس نے کہا ہاں جب تم نہیں ہوتی تو یہ مجھے ورغلاتی رہتی ہے۔ نتیجہ: خادمہ کی پٹائی، چہرے کو بگاڑ دیا، بال کاٹ ڈالے۔ لیجیئے، کیسی ذلت ہے یہ؟ یعنی خاوند اپنی بات میں اتنا سچا ٹھہرا؟ نوکری سے نکال دو اُسے، زیادہ غصہ ہے تو اُسے ملک بدر کروا دو مگر ایسا بھی کیا کہ ظلم کی حد کردو؟ کس لئے؟

 دونوں ایک شادی کی تقریب میں ملے۔ ان صاحب کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی، مزاج ملے، دوستی ہوئی، روزانہ ملنے لگے اور کبھی کبھار تو ایک دن میں دو دو ملاقاتیں بھی ہو جاتیں۔ پھر ایک دن ان کا ایک اور دوست ملنے کیلئے آیا۔ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا۔ باتوں باتوں میں اُس دوست کا بھی ذکر ہوا تو پتہ چلا کہ اُس کے حالات اچھے نہیں ہیں اور اجنبی ہونے کی وجہ سے وہ کچھ مشکلات کا شکار ہے۔ ان کو جھٹکا لگا، اچھا تو وہ اجنبی ہے؟ ہاں وہ اجنبی ہے، مگر پھر کیا ہوا؟ نہیں بس ایسے ہی، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ دوستی ختم، ملاقاتیں ختم،۔ کیوں بس اس لئے کہ وہ اجنبی ہے ناں۔ سبحان اللہ۔

تنخواہ 800 ریال، پیشہ بہت چھوٹا سا (مزدور)، سال بھر کی تنخواہ 9600 ریال۔

اقامہ کی تجدید 750 ریال، تامین 1500 ریال، مکتب عمل کی فیس اور رسوم 2500 ریال۔

روزانہ تین وقت کا کھانا 15 ریال اور ماہانہ 450 ریال، رہائش کا کرایہ 300 ریال ماہانہ یا 3600 ریال سالانہ۔

کل ملا کر دیکھا جائے تو سال بھر کا خرچہ آمدنی سے زیادہ ہے۔

اس نے ملازمت کے بعد ادھر اُدھر سے کچھ کام ڈھوڈھنے اور کرنے کا سلسلہ شروع کیا، کام کیا ہوتے تھے بس قلی گیری، پورٹر، کاروں کی دھلائی، ورکشاپ میں کام، صفائی کا کام، بجلی کی مرمت وغیرہ۔ مقصد محض اتنا سا کہ کچھ بچت ہوجائے تو پیچھے گھر والوں کو بھی کچھ بھیج دیا کرے۔ اللہ پاک نے کرم کیا، کئی مہینوں کی محنت اور مشقت رنگ لائی اور وہ کچھ پیسے اپنےخاندان کو بھجوانے کے قابل ہوگیا۔ بنک گیا، اتنے پیسے کہاں سے آئے کی وجہ سے پوچھ گچھ کیلئے روک لیا گیا۔ اقامہ مزدور پیشہ کا اور پیسے گھر بھجواتا ہے اتنے سارے! پولیش آئی، پکڑا، جیل میں ڈالا، اور کیا فیصلہ ہونا تھا کچھ دنوں کے بعد خروج لگا کر واپس بھیج دیا گیا۔


سپیڈ پوسٹ بھیجنے کیلئے ڈاک خانے گیا، کاؤنٹر سے ایک فارم اُٹھایا، پُر کیا اور لا کر کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب کو دیا کہ اُس کا پارسل بھجوا دے۔ صاحب نے فارم پھاڑ کر منہ پر مارا کہ یہاں سے بغیر پوچھے اُٹھایا کیسے تھا، اب پہلے مجھ سے فارم مانگو، پھر جا کر پُر کرو اور مجھے لا کر دو۔ بات تو ٹھیک ہے کہ ایک سعودی مواطن (انسان) کے سامنے سے تم اجنبی (کیا مناسب لکھوں ذہن میں نہیں آ رہا) اُس کی اجازت کے بغیر ایک فارم اُٹھا لو؟


اجنبی۔۔۔ اللہ کی لعنت ہو ان پر۔۔۔۔ اللہ ان کو برباد کرے۔۔۔ اللہ ان کو آگ لگائے۔۔۔ ہمارا جینا دو بھر کر کے رکھا ہوا ہے ان لوگوں نے۔۔۔ ہمارے رزق پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے انہوں نے۔۔۔

اچھا یہ تو بتائیں یہ اجنبی ہیں کون؟ کوڑا کرکٹ اُٹھانے والے، ورکشاپ کے مکینک، عمارتوں پر رنگ کرنے والے، دکان دار، دھوبی، چوکیدار، پلمبر، بیکری بٹھیوں پر ملازم، پنکچر لگانے والے، نالیاں گٹر صاف کرنے والے، کاریں دھونے والے۔

ہے کوئی تمہارا مواطن یہ سب چھوٹے اور کم تر کام کرنے والا۔ اگر نہیں ہے تو کس کے بارے میں باتیں کرتے ہو کہ انہوں نے تمہارا دم گٹھا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، اب تم اتنے گٹھیا سے کام کرنے والوں سے بھی حسد کرنے لگے ہو؟


بیٹے کی عمر 18 سال ہو گئی ہے۔ اب تم سب لوگوں کا اقامہ تجدید نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟

پہلے اپنے اس بیٹے کو اپنے ملک واپس بھیجو پھر تمہارا اور تمہارے باقی خاندان کا اقامہ تجدید ہو سکے گا۔

کس ملک کی بات کر رہے ہو تم؟ میرا بیٹا کیا میں خود بھی تمہارے اسی ملک میں پیدا ہوا ہوں۔ میرا باپ یہاں پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے رہ رہا ہے۔ میرا بیٹا تمہاری فٹ بال کی ٹیم کا عاشق ہے اُس کے جیتنے پر وہ جشن مناتا ہے۔ تمہارے ملک کا قومی ترانہ وہ پڑھتا اور گاتا ہے۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا بیٹا تو کیا مجھے اپنے ملک کا قومی ترانہ یاد نہیں ہے۔ کہاں جائے گا اور کس کے پاس جائے گا میرا بیٹا؟ کون تمہیں بتائے کہ تم نے جو قانون بنا رکھے ہیں وہ ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔


رات کو گھوم پھر رہے ہیں کہ اچانک پولیس سے سامنا ہو جاتا ہے جنہوں نے ایک سڑک کو بند کر کے اُس پر ایک نقطہ تفتیش بنا رکھا ہے۔ سب کو پکڑ کر بٹھا لیا جاتا ہے۔ مواطن یا اجانب سب کے بیانات لیئے جاتے ہیں۔ مواطن کی انگلیوں کے نشانات لیکر گھر جانے دیا جاتا ہے اور اجانب کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تین سال کے بعد (راتوں کو آوارہ گردی کرنے کے) کیس کا فیصلہ آتا ہے اور اجانب کو اُن کے ملک بدر کر دیا جاتا ہے اور مواطن کو کیس سے بری۔ اگر اس جرم کی سزا اتنی ہی سخت ہے تو یہ بھی تو بتا دیا کرو کہ سعودی مواطن کیا تحفیظ قرآن کی کلاس سے واپس آرہے تھے؟


ماموں (ماں کا بھائی، نصیب مٰیں سعودی کا سالا بننا لکھا ہوا تھا) عمر 19 سال۔ بھانجا عمر 18 سال۔

ماموں محض مقیم ہے یا دوسرے معنوں میں ایک اجنبی ہے۔ بھانجا ایک مواطن ہے یا دوسرے معنوں میں ایک انسان ہے۔

ایک دن گھر بیٹھے کسی بات پر توتکار ہوئی۔ بات بڑھی تو بھانجے نے اُٹھ کر ماموں کے منہ پر ایک تھپڑ جڑ دیا۔ ماموں نے بھی واپسی بھانجے کو ایک تھپڑ ٹکا دیا۔ بہن درمیان میں کودی، کچھ بیٹے کو کہا تو کچھ بھائی کو سنائیں اور اس طرح بات ختم ہو گئی۔

شیطان نے آگ لگائی، بھانجا باہر جا کر اپنے جیسے دوستوں میں بیٹھا۔ مشورہ ملا کہ ایسے کیسے چپ کر لے گا تو؟ بالکل ہی معاف نہیں کرنا تو نے، مت چھوڑ اسے ایسے۔ بھانجا پولیس کے پاس پہنچا، شکایت کی۔ ماموں پکڑا گیا، ترحیل میں دو دن، چار دن اور پھر وہی پرانا فیصلہ ملک بدری کا۔ کیا کہنے ہیں اس انصاف کے۔


حضرات، یہ مضمون میری طبیعت سے میل نہیں کھاتا کیونکہ میں پسند نا ہو تو کھانا چھوڑ دیتا ہوں مگر شکایت زبان پر نہیں لایا کرتا۔ جس درخت کے نیچے بیٹھوں اس کی پھلنے پھولنے اور بڑھنے کی دعائیں کرتا ہوں اس کی جڑیں نہیں کاٹتا۔ پچھلے دنوں یاسر بھائی نے عربوں پر کچھ بات کی اور ڈاکٹر جواد بھائی نے اُن کی تائید کی تو میں نے اس پر اپنا بھرپور مؤقف  دیکر اعتراض کیا۔  تو اب پھر اچانک ایسی کیا بات ہو گئی ہے جو یہ مضمون لکھ ڈالا ہے میں بتاتا ہوں۔

ڈاکٹر سلمان العودہ صاحب سعودی عرب کے ایسے عالم ہیں جو مذہب کی تشریح حالات حاضرہ کے واقعات اور حقائق کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ امت کو ایک فکر دیتے ہیں اور نئی نئی جہتیں دکھاتے ہیں نا کہ پرانے افکار کو متشدد طریقے سے لاگو کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نا تو سید قطب کے ہم عصر ہیں اور نا ہی مولانا مودودی صاحب کے رفقاء کار مگر اپنے افکار میں انہیں کے ہم مدرسہ ضرور لگتے ہیں۔ اگر حق کہنے کی جرات رکھتے ہیں تو سچ سننے اور کہنے کا حوصلہ بھی۔ کلمہ حق کہنے والے اس جری شخص کا نام تاریخ عزت و احترام کے ساتھ سنہری حرفوں میں لکھے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دیں۔ سعودیہ میں رہ کر سعودی نظام کے خلاف بلا خوف بات کرنے والے ان حضرت کا مضمون (انسان غیر) مجھے تپ چڑھانے اور زبان کھولنے کا سبب اور اس مضمون کو لکھے جانے کی وجہ تسمیہ بنا۔

30 تبصرے:

  1. محمد اقبال مغل (مدینہ منورہ)18 فروری، 2013 کو 9:17 PM

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں