مصطفى صادق الرافعي (1880-1937) ایک لبنانی نژاد مصری شاعر اور ادیب ہو گزرا ہے جو باقاعدہ طور تعلیم محض پرائمری تک ہی حاصل کر پایا۔ ٹایفائید کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی سماعت سے محروم ہو بیٹھا۔ باقاعدہ پڑھنے کا سلسلہ منقطع ہوا مگر وہ اپنے طور کچھ نا کچھ علم کے حصول میں لگا رہا۔ اس کی قابلیت اور ادب دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا لکھا ہوا قومی ترانہ مصر میں 1923 سے 1936 تک رائج رہا۔ جبکہ اس کا تیونس کیلئے لکھا ہوا قومی ترانہ آج تک رائج ہے۔ وہ بیسیوں ادبی کتابوں کا مؤلف ہے مگر جو شہرت تین جلدوں پر مشتمل اُس کی کتاب وحی القلم کو ملی وہ کسی اور کتاب کو نا مل سکی۔ اُس کے ہم عصر اور بعد کے علماء اُسکا تذکرہ ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ زیر نظر قصہ اُس کی اس کتاب وحی القلم سے لیا گیا ہے۔
کسی جگہ ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا، جسے دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا؛ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوں اور غموں سے تھک گیا ہوں۔
شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔
سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ہوئے کہا اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔
جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔
ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گویا اپنی بھلائی کیلئے کی تھی نا کہ کسی اجرت کیلئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔
ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ہی اُس کا بیحال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے، معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے، وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نا دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عوررت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو؛ خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟
گھر جاتے ہوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛ ہے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملا دے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابو نصر۔ اُس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزار درہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ہی لیا ہے تو یہ لو تیس ہزار درہم، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میں بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نا کی، ایک ہی بار میں شکرانے کے طور پر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔
ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیاہے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کو لایا جائے اور اُس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔
کہتا ہے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔
میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟
تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت، میری خود نمائی کی خواہش اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟
منادی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا؛ ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔
میں نے سُنا ایک فرشتہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پُراٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پُراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر ابھی نا تو برابر تھا اور نا ہی زیادہ۔
مُنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔
عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہو جائے گی۔
منادی نے پوچھا ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟
فرشتے نے کہا؛ ہاں، ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول اُٹھا یہ شخص نجات پا گیا ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اگر میں نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کیلئے پراٹھے خریدے ہوتے تو آج نجات بھی نہیں ہونی تھی۔
ہمیشہ کی طرح بہت خوب اور نصیحت آموز
جواب دیںحذف کریںغور و فکر کا سامان
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ ۔ ۔ ۔۔ شاندار تحریر۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاللہ ہمیں اس قصے سے سبق لینےکی توفیق نصیب فرمائے آًین
مگر جناب ہمارے ہاں تو چھینا جھپٹی کا دور چل رہا ہے فرق صرف اختیار کا ہے کسی کے پاس کم اختیارات ہیں تو کسی کے پاس زیادہ، دس پیسے والا پانچ پیسے والے سے اس کے پانچ پیسے اور پانچ پیسے والا ایک پیسے والے سے اس کا ایک پیسہ بھی کسی نہ کسی طرح نکلوانے کے چکر میں پڑا ہوا ہے خدا جانے کب اس سے چھٹکارا ملے گا۔
جواب دیںحذف کریںخوبصورت اور سبق آموز تحریر ہے اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔
زبردست۔
جواب دیںحذف کریںکمال ہے۔
ماشاءاللہ۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب!
جواب دیںحذف کریںما شا اللہ!
جواب دیںحذف کریںبہت خوب۔۔۔ مگر یہ نفس ۔ ۔ ۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت کمال تحریر۔۔۔
اللہ آپ کو خوش رکھے اور ہم سب کوواسع رٍزق ِحلال عطا فرمائےاور اس پر قناعت کرنے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں نیک نیتی سے خرچ کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
جزاک اللہ یا شیخ ! اتنا پیارا قصہ اتنی پیاری اردو مین ڈھالنے پر مبارک قبول فرمائیں . اللہ نیت خالص کرنے اور رکھنے کی توفیق دے. آمین
جواب دیںحذف کریںسبحان اللہ۔ کوئی شک نہیں ایک ایک نیکی کا بدلہ ہزارہا ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ اتنا خوبصورت سبق ہم تک پہنچانے کے لئے۔
جزاک اللہ
ماشاء اللہ سر۔
جواب دیںحذف کریںپہلی تحریروں کی طرح یہ بھی شاہکار ہے۔
خوش رہیں اور اسی طرح ہماری معلومات میں اضافہ کرتے رہیں۔۔۔ آمین!
محترم ایم اے راجپوت صاحب، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پسند کر لینے کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںجناب محمد ریاض شاہد صاحب، شکریہ۔ جی ہاں آپ نے سچ فرمایا ہے کہ دیدہ بیناء لوگوں کیلئے تو ہر واقعہ اور ہر لفظ میں (فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ - پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو! ) کا ہی سامان ہوتا ہے۔ تشریف لانے کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںپیارے نور محمد، شکریہ۔ اللہ ہمیں اس قصے سے سبق لینےکی توفیق نصیب فرمائے آمین یا رب۔
جواب دیںحذف کریںجناب محترم منصور الحق منصور صاحب، جی آپ نے ٹھیک فرمایا کہ ہمارے گردونواح میں تو جنگل برپا ہے۔ خود کے بارے میں بارے میں ہی سوچنے سے فراغت نہیں ہے۔ خود نمائی تو کل کی بات تھی آج تو لینے والے کی عزت نفس بھی پامال کر دی جاتی ہے۔ میں آپ کی نیک تمناؤں کیلئے ممنون ہوں، اللہ پاک آپ کو بھی خوش رکھے، آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںجناب احمد عرفان شفقت صاحب، پسندیدگی کیلئے شکریہ قبول فرمائیں۔
جواب دیںحذف کریںجناب وسیم رانا صاحب، تشریف آوری اور مضمون کی پسندیدگی کیلئے شکریہ قبول کریں۔
جواب دیںحذف کریںجناب عامر منیر صاحب، میرے بلاگ پر خوش آمدید۔ ٹھریر کی پسندیدگی کیلئے شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںجناب حبیب اللہ صاحب، خوش آمدید، اھلا و سھلا یا مرحبا۔
جواب دیںحذف کریںمضمون پسند کرنے کا شکریہ، جی یہ نفس جو شیطان سے بڑا شیطان ہے، اس کا کیا کیجئے؟
جناب فیصل مشتاق صاحب، و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مضمون پسند کرنے کا شکریہ قبول کریں۔
جواب دیںحذف کریںمیں آپ کی نیک دعاؤں اور خواہشات کیلئے آپ کا دلی طور پر ممنون ہوں، جزاک اللہ خیرا بآحسن الجزاء۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو کامیابیوں اور کامرانیوں کی منزلوں پر گامزن رکھیں آمین۔
برادر عبداللہ آدم، بلاگ پر خوش آمدید، ست بسم اللہ جی آیاںنوں۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے خوبصورت انداز میںسراہنے کیلئے ممنون ہوں، اللہ پاک آپ کے دنیا میںخیر وبرکت اور آسانیاںپیدا فرمائیں۔ آمین یا رب
مانی، بلاگ پر دل و جان سے خوش آمدید، پسندیدگی اور سراہنے کیلئے شکریہ قبول کریں۔ جزاک اللہ ایاک ایضا۔ اللہ پاک آپ کیلئے دنیا جہان کی آسانیاںپیدا فرمائیں۔
جواب دیںحذف کریںجناب فضل دین صاحب، میرے بلاگ پر خوش آمدید۔ مرحبا مرحبا۔
جواب دیںحذف کریںجان کر خوشی ہوئی کہ آپ پہلی والی تحریروںسے بھی آگاہ ہیں، پسندیدگی، حوصلہ افزائی اور سراہنے کیلئے شکریہ۔ تشریف لاتے رہا کریں۔ اللہ پاک آپ کو بھی خوش رکھے آمین یا رب۔
سبحان اللہ
جواب دیںحذف کریںبے شک اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔
جناب محمد بلال اعظم صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو خوش رکھے، جی آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ اللہ جسے چاہے اُسے عزت دیتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت زبردست تحریر ہے۔ آج کل کے مادہ پرستی کے دورمیں ایسی تحاریر کی بہت ضرورت ہے ۔آپ کا بہت شُکریہ ۔ اللہ ہم سب کو ریاکاری سے بچتے ہوئے خلوص دل سے نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ ایک احسن طریقے سے اصلاحی و تبلیغی کام سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے مضمون میں قابل غور بات یہ ہے کہ دوسروںکا دکھ درد کم کرکے ان میںخوشیاں بانٹ دینے والے اعمال دوسری نیکیوں کی نسبت زیادہ وزن رکھتے ہیں اور یہی وہ اعمال ہیںجو ہماری بخشش ہونے میںاہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںلیکن آج کا معاشرہ دوسروںکو دکھ درد دینے، ان کی خوشیاں چھیننے، انہیںبے عزت کرنے، اور اپنی پہنچ کے مطابق ہر طرح کا ظلم روا رکھنے میںمصروف عمل نظر آتا ہے۔ بخشش کی فکر کس کو ہے؟
محترم دہرہ حے، تشریف آوری اور پسندیدگی کیلئے شکریہ، اللہ کریم ہم سب کو ریاکاری سے بچتے ہوئے خلوص دل سے نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
جواب دیںحذف کریںاللہ جزائے خیر دے ۔ اللہ مجھے بھی بے غرض نیکی کی توفیق دے
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب افتخار اجمل بھوپال، خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںاللہ تبارک و تعالٰی آپ کو بھی جزائے خیر دیں اور آپ کے لئے دُنیا جہان کی آسانیاںفرمائیں
بھت خوب میرے آنسو نکل آئے پڑھ کر
جواب دیںحذف کریںمحترم سلیم بھائی۔
جواب دیںحذف کریںمیں اپ کے تمام بلاگز بہت شوق سے پڑھتا ھوں۔ اور یہ بہت سبق اموز اور دل کو چھو لینے والے ھوتے ہیں۔ اللہ اپ کو اور لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
بردر محترم جناب نیاز صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ میرے بلاگ کو پسند کرتے ہیں اور شوق سے پڑھتے ہیں۔ نیک خواہشات اور تمناؤںکیلئے ممنون ہوں، اللہ پاک آپ کو خوش رکھے، آمین۔
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب صدیق اختر صاحب، خوش آمدید، تشریف آوری کا شکریہ۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے، آمین۔
جواب دیںحذف کریںbohat naseehat aamooz kahani hay
جواب دیںحذف کریںسبحان اللہ ۔ اللہ اکبر ۔ جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںحقیقتا رقت طاری ہو گئی۔ اللہ آپکو جزا دے گا انشاءاللہ۔
جواب دیںحذف کریںایمان افروز واقعہ شئیر کرنے کیلیے شکریہ جناب۔ جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریں