ایک طالب علم نے دیوار پر ایک کارڈ بورڈ چسپاں کیا، کارڈ بورڈ کے حجم سے تو گویا دیوار تک ڈھک کر رہ گئی تھی۔ اس طالبعلم نے کارڈ کے درمیان میں پین کے ساتھ ایک نقطہ ڈالا، پھر اپنا منہ ساتھیوں کی طرف کرتے ہوئے پوچھا، آپ کو کیا نظر آ رہا ہے؟ سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا؛ ایک سیاہ نقطہ۔ اس طالب علم نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سب سے پوچھا، کمال کرتے ہو تم سب! اتنا بڑا سفید کارڈ بورڈ اپنی چمک اور پوری آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے، مگر ایک مہین سا سیاہ نقطہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے؟
جی، لوگ تو بس ایسا ہی کمال کرتے ہیں: آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوتاہی یا کمی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
جی، لوگ تو بس ایسا ہی کمال کرتے ہیں: آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوتاہی یا کمی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
اگر کبھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی گھر والی کو غصہ آ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اور یوں کہتے؛ (اے اللہ اس کی خطائیں معاف فرما دے، اور اس کے دل سے غصے کو دور کردے، اور اسے فتنوں سے محفوظ رکھ)۔ جی ہاں، محبت اسے کہتے ہیں، اور اسی کو ہی مردانگی کہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
اعتماد بالکل ریت کے محل کی مانند ہوتا ہے، بنے گا بہت ہی مشکلوں سے ہے مگر ٹوٹے گا بہت آسانی سے
٭٭٭٭٭٭
جب ہمارے ناخن بڑھ جاتے ہیں تو ہم اپنے ناخن کاٹتے ہیں نا کہ اپنی انگلیاں، بالکل اسی طرح جب خاندان میں اختلافات بڑھ جائیں تو اختلافات کو ختم کیا جائے نا کہ تعلقات کو۔
٭٭٭
اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو ہر چیز کا تجزیہ کرنے سے بھی گریز کیا کریں، جنہوں نے ہیروں کا تجزیہ کیا تھا انہیں یہ جان کر بہت صدمہ ہوا تھا کہ ہیرا تو اصل میں کوئلہ ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
کاش ہم بھی اپنے ناموں کی طرح ہوتے کہ جتنا بھی زمانہ گزرا وہ بالکل ہی نا بدلے۔
٭٭٭٭٭٭
ایک شادی شدہ نے کہا : عورت تو پاؤں کی جوتی ہوا کرتی ہے، مرد کو جب بھی اپنے لئے کوئی مناسب سائز کی نظر آئے بدل لیا کرے۔ سننے والوں نے محفل میں بیٹھے ہوئے ایک دانا کی طرف دیکھا اور پوچھا: اس شخص کی کہی ہوئی اس بات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا: جو کچھ اس شخص نے کہا ہے بالکل صحیح کہا ہے۔ عورت جوتی کی مانند ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو پاؤں کی مانند سمجھتا ہے۔ جبکہ عورت ایک تاج کی مانند بھی ہو سکتی ہے مگر اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو بادشاہ کی مانند سمجھتا ہو۔
کسی آدمی کو اس کی کہی ہوئی بات کی وجہ سے کوئی الزام نا دو، بس اتنا دیکھ لو کہ وہ اپنے آپ کو اپنی نظروں میں کیسا دیکھ رہا ہوتا ہے۔
کسی آدمی کو اس کی کہی ہوئی بات کی وجہ سے کوئی الزام نا دو، بس اتنا دیکھ لو کہ وہ اپنے آپ کو اپنی نظروں میں کیسا دیکھ رہا ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
ایک شخص نے خوبصورت محل کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دوست سے پوچھا، جب ان لوگوں کی قسمت میں دولت کی تقسیم لکھی جارہی تھی تو ہم کہاں تھے؟ دوست اس شخص کو پکڑ کر ہسپتال لے گیا اور مریضوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، جب ان لوگوں کی قسمت میں بیماریاں لکھی جا رہی تھیں تو ہم کہاں تھے؟
٭٭٭٭٭٭
کیا آپ روٹی کھا سکتے ہیں؟ کیا آپ کو چاول کھانا بھی منع نہیں ہیں؟ اور کیا آپ آپ میٹھے کھانوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟ تو یقین کیجیئے کہ آپ آج کےکسی بھی ارب پتی سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔
(یہ سٹیٹس ایک مشہور زمانہ مگر متنازعہ انٹرویو کے دوران ایک دیسی ارب پتی کے یہ کہنے پر کہ وہ دنیا کی اکثر نعمتوں کو کھانے سے محروم ہے کے پس منظر میں لکھا گیا تھا)۔ بس ہمیں چاہیئے کہ نعمتوں کے زوال سے قبل اللہ تعالیٰ کا ان نعمتوں کیلئے شکر ادا کریں۔
٭٭٭٭٭٭
مصیبت کے وقت گھبرانا اور راحت کے وقت اترانا نہیں چاہیئے، جو لوگ پہلے کامیاب ہوئے ہیں وہ سختیوں پر صبر اور نعمت پر شکر کرنے سے ہی ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
برائی کو مٹانے کے دو طریقے ہیں؛ برے کو مٹا دیا جائے یا برائی کو اچھائی میں تبدیل کیا جائے، اسلام نے دوسرے طریقے کو پسند کیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
یونیورسٹی کا پروفیسر ہو، کلائی پر لڑکیوں والی گلابی گھڑی باندھ رکھی ہو، گھڑی پر باربی کا فوٹو بھی بنا ہوا ہو۔ زنخا، شوہدا، اوچھا اور بہت کچھ کہنے سے پہلے اتنا ضرور سوچ لیجیئے گا کہ یہ گھڑی اس کی بیٹی کی ہے، جس کی ناگہانی موت اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتی۔ آج اداسی کا دورہ پڑا تو اس نے بیٹی کی گھڑی باندھ لی۔ ہیں کواکب کچھ اور، نظر آتے ہیں کچھ اور
٭٭٭٭٭٭
بارش والا دن ہمارے ہاں خوشگوار دن شمار ہوتا ہے۔ اور بارشوں سے تنگ کئی ایسے ملک بھی ہیں جہاں بارش والے دن کو گندے موسم والا دن کہا جاتا ہے۔ بس حسن کا معیار بھی کچھ ایسی ہی شئے ہے؛ جو آپ کی نظروں میں حسین ہو وہ کسی کیلئے بدصورت شمار ہو رہا ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
کہتے ہیں: لوگ کتاب کی مانند ہوتے ہیں، کچھ حکمت و دانائی اور بھلائی سے بھرے ہوئے، اور کچھ بس باہر سے ہی خوبصورت غلاف اور حسین جلد والے
٭٭٭٭٭٭
میں نے ایک شخص پر اعتماد کیا، جس نے مجھے ایک سبق دیا کہ آئندہ کبھی کسی پر اعتماد نا کرنا۔ شکریہ میرے دوست تیرے سبق دینے کا
٭٭٭٭٭٭
لوگوں کی یہ بات مجھے بہت عجیب لگی کہ جب سُنی تو محض آدھی بات، اور جب سمجھی تو محض ایک چوتھائی، مگر جب آگے بیان کی تو بڑھا چڑھا کر دوگنی اور چوگنی۔
٭٭٭٭٭٭
مجھے زندگی نے یہ سبق دیا ہے کہ بس میرا دل ایسے گھروں کا ایک شہر ہو جن کے گرد درگزر کی باڑھیں لگی ہوئی ہوں۔ زندگی کی سب سے بڑی کاریگری یہ ہے کہ مایوسی کے سمندر پر امید کا پل باندھنے کا طریقہ آ جائے۔
٭٭٭٭٭٭
ایک نوجوان نے دکاندار سے پوچھا؛ آپ کے پاس کوئی ایسا ویلنٹائن ڈے کارڈ ہے جس پر لکھا ہو (For you the one and only) - فقط تمہارے لئے کیونکہ اک تم ہی تو ہو۔ دکاندار نے کہا جی ہے میرے پاس ایسا کارڈ۔ نوجوان نے کچھ حساب کرتے ہوئے سوچا اور پھر دکاندار سے کہا ٹھیک ہے تم مجھے ایسے سات کارڈ دیدو
٭٭٭٭٭٭
***** کامیابی مختلف ادوار میں *****
4 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تمہارا پیشاب کپڑوں میں نہیں نکل جاتا۔
6 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تمہیں سکول سے گھر آنے کا راستہ یاد رہتا ہے
12 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تم نے کچھ دوست بھی بنا لیئے ہیں
18 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تم نے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر لیا ہے
20 سال سے 60 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تم نے کچھ مال متاب کمایا/بنایا
65 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تم اپنا ڈرائیوبگ لائسنس برقرار رکھے ہوئے ہو
70 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تمہارے ابھی بھی کچھ دوست ہیں
75 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ کہیں جا کر واپس گھر آنے کا راستہ تمہیں یاد رہتا ہے
80 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تمہارا پیشاب کپڑوں میں نہیں نکل جاتا
بس کچھ اس طرح ہوتی ہے کچھ لوگوں کی زندگی اور اُن کے نزدیک کامیابی کے معیار۔ مگر جوانی اور بڑھاپے دونوں میں زندگی اگر اللہ کی رضا کے مطابق ہو تو وہ حقیقی کامیابی کہلاتی ہے۔
18 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تم نے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر لیا ہے
20 سال سے 60 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تم نے کچھ مال متاب کمایا/بنایا
65 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تم اپنا ڈرائیوبگ لائسنس برقرار رکھے ہوئے ہو
70 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تمہارے ابھی بھی کچھ دوست ہیں
75 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ کہیں جا کر واپس گھر آنے کا راستہ تمہیں یاد رہتا ہے
80 سال کی عمر میں کامیابی کا مطلب ہے کہ تمہارا پیشاب کپڑوں میں نہیں نکل جاتا
بس کچھ اس طرح ہوتی ہے کچھ لوگوں کی زندگی اور اُن کے نزدیک کامیابی کے معیار۔ مگر جوانی اور بڑھاپے دونوں میں زندگی اگر اللہ کی رضا کے مطابق ہو تو وہ حقیقی کامیابی کہلاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف Z وہی حرف N ہی ہے مگر گھٹنوں کے بل کھڑا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف a وہی حرف @ ہی ہے مگر پردہ کر رکھا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف D وہی حرف I ہی ہے مگر 9 مہینوں کے حمل کے ساتھ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف T وہی حرف I ہی ہے مگر سر پر ٹرے اُٹھائے کھڑا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف W وہی حرف M ہی ہے مگر کمر کے بل سویا پڑا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف R وہی حرف P ہی ہے مگر ایک ٹانگ لمبی کیئے کھڑا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف G وہی حرف C ہی ہے بس ذرا اپنے مسل دکھا رہا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف F وہی حرف E ہی ہے مگر جوتا نہیں پہن رکھا
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف a وہی حرف @ ہی ہے مگر پردہ کر رکھا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف D وہی حرف I ہی ہے مگر 9 مہینوں کے حمل کے ساتھ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف T وہی حرف I ہی ہے مگر سر پر ٹرے اُٹھائے کھڑا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف W وہی حرف M ہی ہے مگر کمر کے بل سویا پڑا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف R وہی حرف P ہی ہے مگر ایک ٹانگ لمبی کیئے کھڑا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف G وہی حرف C ہی ہے بس ذرا اپنے مسل دکھا رہا ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ حرف F وہی حرف E ہی ہے مگر جوتا نہیں پہن رکھا
٭٭٭٭٭٭
حسن بصري رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "میں نے قرآن میں نوے جگہوں پر پڑھا کہ اللہ تعالٰی نے ہر بندے کی تقدیر میں رزق لکھ دیا ہے اور اُسے اس بات کی ضمانت دیدی ہے"۔ اور میں نے قرآن شریف میں صرف ایک مقام پر پڑھا کہ: شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔ ہم نے سچے رب کا نوے مقامات پر کئے ہوئے وعدے پر تو شک کیا مگر جھوٹے شیطان کی صرف ایک مقام پر کہی ہوئی بات کو سچ جانا۔
ابن قییم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اگر اللہ تعالیٰ پردے ہٹا کر بندے کو دکھا دے کہ وہ اپنے بندے کے معاملات سھارنے کیلئے کیسی کیسی تدبیریں کرتا ہے اور وہ اپنے بندے کی مصلحتوں کی کیسی کیسی حفاظتیں کرتا ہے۔ اور وہ کس طرح اپنے بندے کیلئے اُس کی ماں سے سے بھی زیادہ شفیق ہے، تب کہیں جا کر بندے کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہوگا، اور تب کہیں جا کر بندہ اپنا دل اللہ کیلئے قربان کرنے پر کمر بستہ ہوگا۔
ابن قییم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اگر اللہ تعالیٰ پردے ہٹا کر بندے کو دکھا دے کہ وہ اپنے بندے کے معاملات سھارنے کیلئے کیسی کیسی تدبیریں کرتا ہے اور وہ اپنے بندے کی مصلحتوں کی کیسی کیسی حفاظتیں کرتا ہے۔ اور وہ کس طرح اپنے بندے کیلئے اُس کی ماں سے سے بھی زیادہ شفیق ہے، تب کہیں جا کر بندے کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہوگا، اور تب کہیں جا کر بندہ اپنا دل اللہ کیلئے قربان کرنے پر کمر بستہ ہوگا۔
تو پھر اگر دُنیا کے تمہیں غموں نے تھکا دیا ہے تو کوئی غم نا کریں، ہو سکتا ہے اللہ تمہاری دعاؤں کی آواز سننے کا خواہاں ہو۔ تو پھر رکھیئے سر کو سجدے میں اور کہہ دیجیئے جو کچھ دل میں ہے۔ اور بھول جائیے سب غموں اور مصیبتوں کو کہ وہ اللہ تمہیں کبھی بھی نہیں بھلاتا۔
٭٭٭٭٭٭
ایک دانا کا کچھ یوں کہنا ہے کہ: انسان بھی کیا عجیب چیز ہے، جب اس کا مال و دولت کم ہوتا ہے، تو اس کی پریشانیاں نہیں دیکھی جاتیں۔ مگر جب اس کی عمر کم ہوتی ہے تو اسے ذرا بھی فکرمندی لاحق نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭٭
♥ یہ بھی محبت ہی کہلاتی ہے ♥ جب بیوی خاوند کیلئے چائے بنائے تو تھوڑی سی پہلے خود چکھ کر دیکھتی ہے میٹھا کیسا ہے، زیادہ گرم تو نہیں۔ ماں مٹھائی کا سب سے اچھا ٹکڑا اپنے بیٹے کو اُٹھا کر دیتی ہے۔ دوست آپ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتا ہے کہیں آپ پھسلن میں توازن نا کھو بیٹھیں۔ آپ کا بھائی آپ کو فون کر کے پوچھتا ہے بھائی خیریت سے منزل پر پہنچ گئے ہو ناں!
محبت محض اسی چیز کا ہی نام نہیں ہے کہ جوان لڑکی اور لڑکا، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے شہر کی سڑکوں پر چل رہے ہوں۔ محبت ایک دوسرے کے اہتمام کا نام ہے، محبت دل کی دھڑکنوں میں کسی کو محسوس کرنے کا نام ہے
محبت محض اسی چیز کا ہی نام نہیں ہے کہ جوان لڑکی اور لڑکا، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے شہر کی سڑکوں پر چل رہے ہوں۔ محبت ایک دوسرے کے اہتمام کا نام ہے، محبت دل کی دھڑکنوں میں کسی کو محسوس کرنے کا نام ہے
٭٭٭٭٭٭
جب بندوں سے کچھ مانگا جائے تو سر کو نیچے جھکانا پڑتا ہے۔ اور جب اللہ پاک سے کچھ مانگا جاتا ہے تو سر کو اوپر اُٹھا کر مانگا جاتا ہے۔ کسی بندے کا ڈر ہو تو ہم اُس سے دور بھاگا کرتے ہیں۔ اور جب اللہ پاک کا ڈر پیدا ہو تو ہم اُس کے قریب ہو جاتے ہیں۔ واہ میرے مولا، تیری کرم نوازیاں
٭٭٭٭٭٭
شیخ شعراوی بڑی باتوں کو چھوٹے لفظوں میں کہنے کا فن جانتے تھے۔ ایک بار کہنے لگے: میں جانتا ہوں تو بہت طاقتور اور بڑا تن ساز ہے، ڈھیر سارا وزن اٹھانا تیرے لئے کچھ بھی معنی نہیں رکھتا۔ میں تجھے پہلوان تب مانوں گا اگر فجر کے وقت منہ پر پڑی ہوئی پانچ کیلو کی رضائی کو بھی اٹھا دور پھینکا کر، بستر سے اٹھنے اور نماز کو جانے کیلئے۔
٭٭٭٭٭٭
شیخ عریفی ایک مزاحیہ بات یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار حرم شریف میں میرے قریب ایک مصری حاجی آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے یوں دعا کر رہا تھا: یارب ، میں بھی جانتا ہوں اور تو بھی جانتا ہے اس لئے خواہ مخواہ زیادہ باتیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
٭٭٭٭٭٭
سلیم بھائی۔۔۔ زبردست۔۔۔ آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔۔۔ پڑھ کر مزہ آ گیا اور بہت کچھ سیکھ بھی لیا۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںسبحان اللہ و بحمدہ و جزاک اللہ خیراٌ
جواب دیںحذف کریںسلیم صاحب ، آپ نے بہت سے لوگوں کو پڑھنے لکھنے کی مفید راہ پر لگایا، اللہ آپ کو جزا دے، میں اپنے بلاگ میں یہ فونٹ کیسے شامل کر سکتا ہوں
جواب دیںحذف کریںلفظ لفظ خوشبو، حرف حرف دل میں اترتا ہوا، خیال کی روانی پڑھنے والے کو بھی اپنے ساتھـ بہا لے جاتی ہے، بہت پیاری باتیں خوبصورت لفظوں کے پیرہن میں آپ نے شئیر کی ہیں ، آپ کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںسر جی۔ یہ روٹی چاول میٹھے والی بات جو ارب پتی صاحب کے تناظر میں لکھی؛ اس سلسلے میں ایک اختلافی کمنٹ ۔ صحت سب کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ بیماری مالی سٹیٹس نہیں دیکھتی۔
جواب دیںحذف کریںجی کاشف بھائی، آپ نے درست کہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ان صاحب سے پوچھا گیا تھا کہ کھانے میں کیا لیں گے تو عقدہ کھلا تھا کہ موصوف روٹی، چاول اور میٹھا کھانے کی نعمت سے محروم ہیں۔ کیا فائدہ ایسی دولت کا۔ اس سے بہتر تو ایک مفلس ٹھہرا جو کم از کم ان لذائذ سے محروم تو نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو صحت و سلامتی دے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںبرادرم عمران اقبال، کیا حال ہیں۔ تشریف آوری کا شکریہ۔ میرا ذوق نہیںآپ کا حسن نظر ہے۔
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب، آپ آئے بہار آئی۔ جزاک اللہ ایاک
جواب دیںحذف کریںبرادر عزیز عطا محمد تبسم المحترم، بلاگ پر خوش آمدید۔ ست بسم اللہ جی آیاںنوں۔
جواب دیںحذف کریںپسندیدگی کیلئے شکریہ۔ اللہ پاک آپ کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔ اردو فونٹس انسٹالیشن کیلئے بلال بھائ کا یہ سافٹویئر داؤنلوڈ کر کے انسٹال کر لیں۔
http://www.mbilalm.com/urdu-installer.php
بہن نورین تبسم صاحبہ، بلاگ پر خوش آمدید۔ آمدنت باعث آبادی ما۔
جواب دیںحذف کریںآپ کا حسن نظر اور آپ کا ذوق مطالعہ ہے۔ تحریر پسند کرنے کیلئے شکریہ قبول کریں
جزاء کم اللہ۔ بہت خوب پڑھ کر اچھا لگا
جواب دیںحذف کریںبہت ہی زبردست
جواب دیںحذف کریںکیا بات ہے جی
بہت عمدہ اور نہایت سبق آموز۔۔۔
جواب دیںحذف کریںمھترمہ انیسہ محمود صاحبہ، بلاگ پر خوش آمدید۔ آپ کو مضمون بھایا ہے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ جزاک اللہ ایاکی
جواب دیںحذف کریںعلی بھائی، کیا حال ہیں؟ پسندیدگی، حوصلہ افزائی کیلئے شکریہ۔۔۔۔ فیس بک پر یہ سب کچھ لکھ دینے کے بعد، اصل میں تو یہ آپ سے دوسری بار تعریف سننے کیلئے کیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمحترمی جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، کیا حال ہیں؟ تشریف آوری کا شکریہ۔ لگتا ہے اس بار آپ سے ملاقات ہو ہی جائے گی۔
جواب دیںحذف کریںانشاء اللہ ۔۔۔ کیا سعودی عرب کا دوبارہ پروگرام بن رہا ہے؟
جواب دیںحذف کریںجی، لوگ تو بس ایسا ہی کمال کرتے ہیں: آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوتاہی یا کمی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںآسلام و علیکم بہت خوب سلیم بھائی
[...] ہوگی۔ اس سے قبل میں اپنے سٹیٹس کا مجموعہ نمبر 1 اور مجموعہ نمبر 2 بھی شائع کر چکا [...]
جواب دیںحذف کریں[...] ہوگی۔ اس سے قبل میں اپنے سٹیٹس کا مجموعہ نمبر 1 ، مجموعہ نمبر 2 اور مجموعہ نمبر 3 بھی شائع کر چکا ہوں۔ 4 [...]
جواب دیںحذف کریں[…] ہوگی۔ اس سے قبل میں اپنے سٹیٹس کا مجموعہ نمبر 1 ، مجموعہ نمبر 2 , مجموعہ نمبر 3 اور مجموعہ نمر 4 بھی شائع کر چکا […]
جواب دیںحذف کریں