تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 14 مارچ، 2011

اسلام کی قیمت بیس پنس


سالوں پہلے کی بات ہے جب ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔ لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔ امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!! ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔ بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔ اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔۔

اور اسکے بعد۔۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد فعل کی پرواہ نہ کرتے ہوں۔ مگر یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔ یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔ اس طرح تو ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔ اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی۔۔ صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے رویوں کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور ہمارے شخصی تصرف کو سب مسلمانوں کی مثال نہ سمجھ بیٹھے۔ یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے تصرفات اور رویئے کے مُطابق ذہن میں نہ بٹھا لے!!!

8 تبصرے:

  1. خیر حقیقی مسلمان اپنے معاملات میں نہائت کھرا ہوتا ہے۔ ہم پردیس میں اس کی کئی مثالیں دے سکتے ہیں جن میں مسلمانوں نے انتائی دیانتداری کا مظاہرہ کیا اور اغیار کے دل جیتے۔ جن میں ذاتی معاملات سے لیکر کاروباری سودے بھی شامل ہیں۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پیارے وطن میں بے ترتیبی اور بد نظمی کے ساتھ ساتھ بددیانتی کو پچھلی کچھ دہائیوں سے ایک خاص طریقے سے رواج دیا گیا ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی جکڑ میں لے لیا ہے۔

    تنخواہ کی کمی رشوت ، کرپشن سے پوری کر لی جاتی ہے۔ عام آدمی سارا سارا دن اپنے روز مرہ کے معمولی معمولی سے معاملات کے حل کے لئیے بے مقصد اپنے نمائیندوں کے پیچھے خوار ہوتا رہتا ہے۔ جن کی تان بھی رشوت پہ ٹوٹتی ہے۔ ایک معموملی چپڑاسی سے لیکر ملک کے سربراہ تک ہر کوئی انعام اور کمیشن کا طلبگار ہے۔ڈاکخانوں ، تھانوں، کچہریوں سے لیکر کار سرکار کے اعلٰی عہدیداروں تک بدیانتی نے ہماری قوم کو نفسیاتی طور پہ بھی بدیانت بنا چھوڑا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر قسم کے وسائل اور رقم موجود ہے۔ کسی نہ کسی طور ہر ملازم کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ قوم کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر یہی وسائل اور رقم بندر بانٹ کئیے بغیر ایمانداری سے حقداروں کو تقسیم کی جائے۔ محض ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی پہ مک مکا کی گئی رقم چالان کی صورت میں خزانے میں جمع ہو تو ایک دن کی مک مکا کی بجائے چالانوں سے ہونے والی چند دن کی آمدن سے پولیس کے محکمے کو پورے ماہ کی تنخواہ دی جاسکتی ہے۔ ملکی وسائل بڑھنے سے ترقی ہوگی۔ تنخواہیں بڑھیں گی امن عامہ قائم ہوگا۔ روزگار بڑھے گا۔ معمولی ضرورتوں سے لیکر نہائت اہم مسئلوں کے حل کے لئیے پریشان اور خوار ہونے والے عوام کو دلجمعی سے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ قوم ایک نئی سمت اختیار کر لے گی۔ آخر کچھ تو کرنا پڑے گا کہ ہم بہ حیثیت ایک زندہ قوم اپنی تقدیر کے مالک خود بن سکیں۔ خیرات زکواۃ، امداد اور قرضوں کے عوض اپنی خود مختاری اور آزادی گروی رکھ کر ہم کب تک زندہ رہ سکیں گے؟۔ ریمنڈ ڈیوس اس کی ایک ہی مثال عوام کی آنکھیں کھول لینے کے لئیے کافی ہے۔

    اسلئیے ضرورت اس عمل کی ہے کہ پاکستان میں دیانتداری کو رواج دیا جائے ورنہ پاکستان اور قوم دونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ علمائے دین اپنے منبروں سے بدیانتی سے پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات اور اسکے پر امن طریقے سے سدباب سے آگاہ کر تے ہوئے اپنا کرادار ادا کر سکتے ہیں اس کام کی ابتداء وہ لوگ کریں جو کسی حوالے سے رول ماڈل ہیں تانکہ عام آدمی اپنی عاقبت کے ساتھ اپنی دنیا یعنی پاکستان سنوارنے میں اپنا چٹانی کردار ادا کر سکے۔



    اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. ميں نے آپ کی يہ تحرير آپ کا ربط دے کر شائع کی ہے مگر ربط آپ کے بلاگ پر ظاہر نہيں ہوا
    http://www.theajmals.com/blog/2011/04/10

    جواب دیںحذف کریں
  3. شکریہ، بہت اچھی بات آپ نے بتائی۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب عامر شہزاد صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ نے بہت توجہ سے مضامین پڑھے ہیں جس کی وجہ سے کئی نا مکمل لنکس کی بھی نشاندہی ہو گئی۔ تشریف لاتے رہا کریں، آپ سے سیکھنے کو ملے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. سر آپ نے اس آرٹیکل کو شائع کر کے میرے بلاگ کو چار چاند لگا دیئے ہیں، اللہ آپکو صحت و ایمان کی سلامتی سے نوازے رکھے۔ آمیں یا رب

    جواب دیںحذف کریں
  6. [...] اسلام کی قیمت بیس پنس Posted on March 14, 2011 by محمد سلیم سالوں پہلے کی بات ہے جب ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔ لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔۔ مزید پڑھیئے۔۔۔۔ [...]

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں