تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 9 مئی، 2011

Learn to use Eraser

ربڑ (Eraser) کا استعمال کرنا سیکھیئے


بیٹے  کی شادی سے اگلے دن باپ اُس کے گھر مبارک باد دینے پہنچ گیا۔ باپ کی اچانک آمد پر بیٹا خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ سلام و دعا اور نیک خواہشات کے تبادلوں کے بعد باپ نے بیٹھتے ہی بیٹے سے کاغذ اور پنسل لانے کو کہا۔

بیٹے نے کہا، ابا جی، میں نے شادی سے قبل گھر میں ضرورت کی لگ بھگ ہر چیز نئی خرید کر ڈالی ہے مگر شاید کاغذ اور پنسل خریدنا یاد نہیں رہا۔


باپ نے کہا، خیر ہے کوئی بات نہیں، ابھی جا کر کسی دُکان سے کاپی، پنسل اور ربڑ (Eraser) لیتے آؤ۔

حیرت کے ملے جُلے تأثرات کے ساتھ بیٹا بازار سے جا کر کاپی پنسل اور ربڑ خرید لایا، یہ مطلوبہ چیزیں اپنے والد کے سامنے رکھتے ہوئے اُس کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گیا۔

باپ نے یہ چیزیں واپس بیٹے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا؛ لکھو!

بیٹا؛ کیا لکھوں؟

باپ: جو جی میں آئے لکھ ڈالو۔

باپ کی بات کا مطلب نا سمجھ آنے کے باوجود بھی حکم کی تعمیل میں بیٹے نے کاپی پر اپنی طرف سے ایک جملہ لکھ ڈالا۔ باپ نے بیٹے کا جُملہ مکمل ہوتے ہی مٹانے کا کہہ دیا۔ نوجوان نے بغیر کسی ردو کد کے جملہ مٹا ڈالا۔

باپ؛ لکھو۔

بیٹا؛ ابا جی آخر کیا لکھوں؟

باپ؛ جو جی میں آتا ہے لکھ ڈالو۔

بیٹے نے ایک با ر پھر اپنی طرف سے کاپی میں ایک جملہ لکھ ڈالا۔ جُملہ مکمل ہوتے ہی باپ نے ایک بار پھر اِسے مٹانے کو کہا۔ نوجوان نے اس بار پھر حیرت کے ساتھ ربڑ اُٹھائی اور اپنا لکھا ہوا جُملہ مٹا ڈالا۔

باپ؛ لکھو۔

بیٹا؛ ابا جی، خُدا کیلئے کُچھ تو بتائیں کہ میں آخر کیا لکھوں؟

باپ؛ جو جی میں آتا ہے لکھو۔

بظاہر باپ کا رویہ سمجھ نہ آنے کے باوجود بھی بیٹے نے ایک بار پھر کاپی میں ایک جُملہ لکھا۔

جُملہ مکمل ہوتے ہی باپ نے ایک بار پھر مٹا دینے کو کہا اور بیٹے نے مزید حیرت و استعجاب کے ساتھ مگر بلا توقف اُسے مٹا ڈالا۔

باپ نے نظریں اُٹھا کر بیٹے کو دیکھا، اپنا ہاتھ شفقت کے ساتھ اُسکے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا؛ بیٹے، کُچھ اس طرح ہی شادی کی مثال ہوتی ہے۔ شادی کے بعد ہمیشہ ایک ربڑ (Eraser)کی ضرورت پڑتی ہے۔ ربڑ اپنے ساتھ رکھو تاکہ شادی کے صفحات پر کُچھ معیوب اور مزاج سے مُخالف بات نظر آئے تو اُسے مٹا ڈالو اور تیری بیوی بھی ایسا ہی کرتے ہوئے تیری خامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر اپنی کتاب سے اُن نا پسندیدہ رویوں اور واقعات کو مٹا ڈالا کرے۔ اگر ایسا نہ کیا تو یہ کاپی کُچھ ہی دنوں میں گُڈ مُڈ لکیروں اور سیاہی کے بھدے داغوں سے بھر جائے گی۔

بلکہ تھوڑی سی سمجھداری اور دانائی کے ساتھ زندگی گُزارنے سے تو کاپی پنسل اور ربڑ خریدنے پر خرچ کیئے جانے والے پیسے بھی بچائے سکتے ہیں۔ زندگی میں کئی ایسے معمولی واقعات پیش آ جاتے ہیں جن پر غور و خوض کرنا بھی محض اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کیا بگڑ جائے گا اگر ان واقعات کو نظر انداز کر تے ہوئے بندہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو خوشی اور خوبصورتی کے ساتھ نباہ کرتے ہوئے گُزارے۔ تلخ یادوں اور فضول حجتوں کو پلے باندھنے کی توانائی بچا کر زندگی کو اُسکی اصلی لذت اور بھرپور مسرتوں کے ساتھ گزارے۔

عرب کہا کرتے ہیں کہ کسی قوم کا جاہل شخص اُس قوم کا سردار تو نہیں ہوا کرتا مگر سردار قوم کی جہالتوں کو صرف نظر کرنے والا ضرور ہوا کرتا ہے۔

اور اِسی بات کی تائید امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس قول میں کرتے نظر آتے ہیں کہ: اخلاق کا حسن اور خوبصورتی دس میں سے نو حصے تو نظرا انداز کرتے رہنے میں ہے۔

اور نظر انداز کر دینے کا مطلب علم اور ادراک رکھتے ہونے کے باوجود بھی غیر ضروری اور معمولی توجہ کے قابل معاملات پر غور و خوض کرنے سے اجتناب کرنا ہوتا ہے۔ یا سادہ الفاظ میں اسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ تم کسی معمولی واقعہ کے بارے میں جانتے تو ضرور تھے مگر اسکے اضرار و نقصانات اور فتنہ سے بچنے کی خاطر ان پر غور و خوض اور صرفِ توانائی کرنا بہتر نا جانتے ہوئے نظر انداز کیا۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جس طرح کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدح سرائی میں کہا جاتا ہے کہ آپ گھر میں تو ایک لومڑی کی مانند (لا تعلق اور مداخلت نہ کرنے والا) مگر گھر سے باہر ایک شیر کی مانند تھے۔

اسکا یہ بھی مطلب بنتا ہے کہ وہ اپنے گرد و نواح میں وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات سے تغافل برتتے تھے تاکہ اُنکے علم و ادراک ہونے کے با وجود بھی مُخل ہونے سے اہل خانہ یا دوسرے لوگوں کے جذبات و احساسات مجروح نا ہوں۔ یا اُنکی مُخل اندازی دوسروں کی طبیعت پر گراں نا گُزرے۔ یہاں یہ بات شدت کے ساتھ ذہن میں رکھی جائے کہ یہ سب باتیں اُن اُمور سے متعلقہ ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور احکامات شرعیہ کے متصادم ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا تھا۔
اور اِسی بات کی طرف ہی تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے کہ (مسلم کی روایت کردہ ایک حدیث مبارک کا مفہوم) کوئی مومن یا مومنہ اس حالت میں ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہو رہے ہوتے کہ اُن کے درمیاں کسی بات پر نفرت و ناراضگی تھی اور اب وہ آپس میں راضی نا ہو چکے ہوں۔

یہ اصول صرف شادی شدہ لوگوں پر ہی لاگو نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ کے ہر شعبہ میں ہی اسکی ضرورت ہے۔ بس اتنا خیال رکھا جائے کہ ہر شخص، ہر معاملہ یا ہر کام کو اُسکی ضرورت اور اہمیت کے مُطابق ہی قدر و منزلت دی جائے تاکہ ہم کسی کی اہمیت اور فوائد کو کھو نا بیٹھیں۔ اور اس بات کا بھی خاص دھیان رہے کہ ہم ربڑ کا استعمال کہیں خوبصورت یادوں کو یا کسی کے احسانات اور مہربانیوں کو محو کرنے میں نا کر بیٹھیں۔

19 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ ۔ ایک بار پھر سبق اموز کالم۔ واقعی ہمیں یہ پنسل اور ربڑ سے مٹانے کی عادت بنانی چاہئے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اِس دفعہ کا مضمون بہت مختلف اور خوب ہے۔ آجکل کے جدید دور میں صبر اور برداشت جیسے عنصر کا کافی مندا ہے۔ درگزر جیسی صفت نایاب ہوتی جا رہی یے۔ آپ نے اِس موضوع کو چھیڑ کر بہت بہتر کیا۔ دعا یے کہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ھم اِسکے رنگ کو اپنی زندگی کی تصویر میں بھر سکیں۔ آمین!

    جواب دیںحذف کریں
  3. اِس دفعہ کا مضمون بہت مختلف اور خوب ہے۔ آجکل کے جدید دور میں صبر اور برداشت جیسے عنصر کا کافی مندا ہے۔ درگزر جیسی صفت نایاب ہوتی جا رہی یے۔ آپ نے اِس موضوع کو چھیڑ کر بہت بہتر کیا۔ دعا یے کہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ھم اِسکے رنگ کو اپنی زندگی کی تصویر میں بھر سکیں۔ آمین!

    جواب دیںحذف کریں
  4. پیارے بدر یوسف - گبھرو جوان اور جوشیلے مرد بننے کے چکروں میں لوگ اسلامی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں، عفو و در گزر، رحم و کرم , عنایت اور عطا کو بھلا دیا جاتا ہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آٓخری نصیحت (الصلاۃ ، الصلاۃ وما ملکت ایمانکم) نماز، نماز اور تمہاری بیویاں تھی۔ سب سے اچھا درہم وہ درہم ہے جو اپنی بیوی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ بیوی کے متعلق اتنی تلقین اور نصیحتین باتئی جا سکتی ہیں کہ سننے والا جواباً صرف زن مرید کہہ کر ہی چپ کرائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے اور کمی کوتاہی کو معاف فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  5. خراسانی صاحب، تشریف آوری اور عزت افزائی کا شکریہ۔ الہہ تبارک و تعالیٰ عفو و در گزر کی صلاحیت عطا فرمائیں۔ آمین یا رب

    جواب دیںحذف کریں
  6. bohat acha kam kiya ha Allah ap ko zjazae khare atta kera aj kal media ka baghre iaslah momken nahin ha Allah tala ap ko mazid istakamat atta fermayay

    جواب دیںحذف کریں
  7. Dear Mughal Sahb, welcome to my blog and thanks for your kind appreciations and wishes. Allah Tabarak wa Ta;ala aapki duain qabool farmaiy aur aapko bhi khosh o abad rakhay. Ameen Ya Rab.

    جواب دیںحذف کریں
  8. I like your efforts very much

    جواب دیںحذف کریں
  9. Dear Muhammad Haroon, Welcome to my blog, I appreciate your kindness.

    جواب دیںحذف کریں
  10. Dear Muhammad Haroon, Thanks for your visit to my blog. I appreciate you liked my efforts.

    جواب دیںحذف کریں
  11. محمد سلیم صاحب بہت اچھی مثال پیش کی واقعی آپ نے

    کافی سمجھدار آدمی معلوم ہوتےہیں آپ

    جواب دیںحذف کریں
  12. محترمہ تحریم صاحبہ، چراغ کے نیچے ہمیشہ اندھیرا ہوتا ہے، کہاں کی سمجھداری، معاملہ گفتار کے غازی والا ہے، اللہ ہدایت دیئے رکھے۔ آمین یا رب

    جواب دیںحذف کریں
  13. Dear Saleem Assalam o alaikum Wa Rahamatullahi wa Barkata-hoo
    Aap ki tehreerein Dil-O-Dimagh ko jhinjod-ti hai. ALLAH TA'ALA hum sab ko amal ki taufeeq ata kare. Mere Paas bhi Izdwaji Zindagi ke mutaliq tehreeron ka ek khazana hai. Mohammed Aneesuddin, BSNL, KHAMGAON INDIA

    جواب دیںحذف کریں
  14. Dear Anonymous, many thanks for your deep consideration on my articles. Allah Ta'la hum sabko amal ki bhi taufeeq day. Aap kaliay bohot si naik khaishaat kay saath Allah Hafiz.

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں