اندھی بُڑھیا – قصہِ عبرت
سیدنا عمر اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان پیش آنے والے اس واقعہ میں، جو لوگ غور و فکر اور تدبر کرنا چاہتے ہوں، اُن کی عبرت کے لئے بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں۔
ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب (روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین) میں لکھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے ۔
ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ دیہات میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینے کی طرف لوٹ چکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمے میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بُڑھیا دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھیا سے پوچھا؛ اے اللہ کی بندی، تم کون ہو؟
بڑھیا نے جواب دیا؛ میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں، ہمارے والدین ہمیں اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں کہ میرا اور ان دو لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا؛ یہ شیخ کون ہے جو تمہارا گھر میں آتا ہے؟
بوڑھی عورت (جو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصلیت نہیں جانتی تھی) نے جواب دیا کہ میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے، ہمارے لئیے کھانا بناتا ہے اور ہماری بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے لئیے رکھتا اور چلا جاتا ہے۔
حضرت عمر یہ سُن کر رو پڑے اور کہا؛ اے ابو بکر، تو نے اپنے بعد کے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے۔
اسلام علیکم۔
جواب دیںحذف کریںجناب محمد سلیم صاحب بہت اچھی پوسٹ ہے۔ میں ریگولر آپ کی میلز کو پڑھتا ہوں۔ آپ کی میلز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
وسلام
ALLAH PAK AP KO AJAR DEDA> . I really appreciats your every subject and also forwarding it to all my near and dear
جواب دیںحذف کریںAllah Pak ap ko ajar e azim atta parmaie.I really appreciats your every subject and also forwarding it to all my near and dear
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ! اللہ ھمارے حکمرانوں کو بھی ایسی سوچ، فکرونظر عطا فرمائے۔ آمین
جواب دیںحذف کریں[...] A blind old woman and abubaker [...]
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خيراٌ
جواب دیںحذف کریںجناب محترم افتخار اجمل صاحب، آپکی تشریف آوری کا شکریہ۔ اللہ آپکو بھی جزائے خیر سے نوازے۔
جواب دیںحذف کریںبدر یوسف صاحب۔ انشاء اللہ ہمارے حکمران بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔
محترم محمد اقبال صاحب- میرے کام کیلئے پسندیدگی کا شکریہ۔ اللہ آپکو خوش و خرم رکھے۔
جناب نا معلوم صاحب۔ آپ کے نیک جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
محترم سلظان محمد، آپ کے نیک جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے اور خوش و خرم رکھے۔ آمین یا رب۔
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںجزااک اللہ جناب
جواب دیںحذف کریںanother nice post...
جواب دیںحذف کریںThank you brother...
جواب دیںحذف کریںڈیئر سعد، و جزاک اللہ ایاک ایضاً فی الدارین۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ ایاک
جواب دیںحذف کریں[...] کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے محمد سليم صاحب کے بلاگ پر يہ تحرير پڑھ کر ميں اشک بہائے بغير نہ رہ [...]
جواب دیںحذف کریںi really appreciate you and your work
جواب دیںحذف کریںthanks
ہمارے حکمرانوں کا بھی کوئی قصہ لکھ ڈالیں
جواب دیںحذف کریںعبرت کی خاطر
اپنے حکمرانوں کیلئے میں کیا لکھوں گا، تاریخ لکھ رہی ہے۔ عوام الناس ٹڑپ رہے تھے اور وہ اپنی حکومت کو گرنے سے بچانے کیلئے تگ و دو کر رہے تھے اپنا دین دھرم عزت غیرت شرم اور حیا بیچ کر
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںاللہ ہم سب کو ایسا نیک اور خیال کرنے والا دل عطا کرے آمین۔
جزاک اللہ ایاک ایضاً فی الدارین
جواب دیںحذف کریںحضرت وہ بڑے لوگ تھے، اب تو انکے پاؤں کے دھول بھی نہیںمل سکتی، یہ اور لوگ ہیں
جواب دیںحذف کریںوہ علامہ صاحب فرماگئے وہ اور تھے تم اور ہو۔
محترمی جناب افتخار راجہ صاحب، زہے نصیب آپ تشریف لائے۔
جواب دیںحذف کریںجی آپ نے سچ کہا، دنیا بھر کی نیکیاںکر کے بھی ان کے پاؤں کی خاک تک کو بھی نہیںپہنچا جا سکتا