تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 26 مئی، 2012

آپ بیش قیمت ہیں


مقرر نے سو ڈالر کا نیا کڑکڑاتا  نوٹ جیب سے نکال کر حاضرین کےسامنے لہراتے ہوئے پوچھا، کون ہے جو یہ سو ڈالر کا نوٹ لینا چاہے گا؟


حاضرین میں سے لگ بھگ سب ہی لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے نوٹ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔


مقرر نے کہا ٹھیک ہےنوٹ تو ایک ہی ہے اور میں صرف ایک ہی شخص کو دونگا مگر اپنی اس حرکت کے بعد۔ اور ساتھ ہی اس نے نوٹ کو مسل کر چر مر کیا، ہتھیلی  پر رگڑ کر گولا بنایا اور پھر پوچھا، کون ہے جو نوٹ کو اس حال میں بھی لینا پسند کرے گا؟ لوگوں کی طلب میں کوئی بھی کمی نہیں آئی تھی، سب نے یہی کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا وہ نوٹ اس حال میں بھی لینا چاہیں گے۔


اس بار مقرر نے نوٹ کو زمین پر پھینک کر  اپنے جوتوں سے مسل دیا۔ مٹی سے لتھڑے بے حال  نوٹ کو واپس اٹھا کر  حاضرین سے پوچھا کیا وہ نوٹ کو اس حال میں بھی لینا چاہیں گے؟  اور اس بار بھی نوٹ لینے والوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور لوگوں کے ہاتھ ویسے ہی اٹھے ہوئے تھے۔


مقرر نے نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹ تو میں تم لوگوں کو نہیں دیتا مگر ایک سبق ضرور دینا چاہتا  ہوں جو ابھی ابھی ہم نے اخذ کیا ہے اور  وہ سبق یہ ہے کہ پیسوں کےساتھ چاہے جو بھی سلوک کر لو اُن کی قدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اُن پیسوں کے طلبگار اور لینے والے ویسے ہی رہتے ہیں۔ میرا نوٹ نیا نکور اور کڑکڑاتا ہوا سو ڈالر کا تھا تو رگڑا ، جوتوں کے تلوے سے مسلا اور مٹی میں لتھڑا ہوا بھی سو ڈالر کا ہی ہے۔ اس کی قیمت میں کہیں سے کوئی کمی نہیں آئی۔


ہم انسان بھی تو اسی طرح کئی بار حالات کے منجھدار میں پھنس کر اپنا توازن کھوتے اور گر پڑ جاتے ہیں، کئی بار  پریشانیوں کے کیچڑ اور غموں کے تعفن میں لتھڑ جاتے ہیں۔ کئی بار اپنے غلط فیصلوں کے ہاتھوں ناکام ہو کر زمین پر جا گرتے ہیں اور اسباب کی کمی کی بنا پر چر مر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی قدر نہیں اور نہ ہی ہماری کوئی قیمت ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے، یاد رکھئیے کہ حالات جیسے بھی ہو جائیں آپ کی قدر و قیمت میں کہیں سے بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ اپنے آپ میں یکتا اور انوکھے ہیں۔ مت سوار ہونے دیجیئے اپنی لغزشوں کو اپنے حواس پر، مت دھندلانے دیجیئے اپنے خوابوں کو اپنی ناکامیوں کی پرچھائیوں کے نیچے دب کر، بھول جائیے اپنی نا مرادیوں کو۔ آپ کی اصل قیمت وہی ہے جو آپ نے خود مقرر کرنی ہے اور یاد رکھیئے اپنی قدر کو کبھی کم مت کیجیئے اور نا ہی اپنی قیمت  کبھی کم لگائیے۔

28 تبصرے:

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ
    بہت اچھا سبق دیا ہے۔ واقعی ہمیں اپنی قدر کرنی چاہیئے

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم
    درست کہا آپ نے سلیم بھائ- انسان کو کبھِی بھی اپنے آُپ سے اور حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے- مثبت سوچ اور پر امیدی ایک مسلمان کی پہچان ہوتی ہے- اقبالؒ نے اس موضوع پر بہت سے اشعار بھی کہے-

    خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
    یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوب،

    اس اُمید افزا تحریر کے لئے بے حد شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بھائی ایم اے راجپوت صاحب، کیا حال ہیں؟ مضمون کی پسندیدگی کیلئے شکریہ قبول کریں۔ جی واقعی ہمیں دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیئے، حالات جیسے بھی ہوں ہماری قدرومنزلت برقرار رہے گی انشاء اللہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. محترم جناب سردار جہانگیر صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، اھلا و سھلا، آمدنت باعث آبادی ما۔
    تحریر پسند کرنے کا شکریہ، آپکا تبصرہ میرے لئے اعزاز ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. بہن ام عروبہ صاحبہ، اتنے باذوق تبصرہ کیلئے شکریہ قبول فرمائیں۔ حالات خواہ کیسے رہیں ہمیں‌ مایوس نہیں‌ہونا چاہیئے۔ ایک بار پھر شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  7. پیارے محمد احمد صاحب، خوش آمدید۔ پسندیدگی کیلئے اور تبصرہ کرنے کیلئے شکریہ قبول کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. السلام علیکم ورحمتہ اللہ
    سلیم بھیا ماشإاللہ اچھی تحریر لکھی۔۔۔ شکست حال انسانوں کے حوصلے بلند کرنے کی اِس کاوش پر خوشی ہوئی

    جواب دیںحذف کریں
  9. ڈالر کا ہر نیا نوٹ تو بڑھتے ہوئے سود کیساتھ ایشو ہوتا ہے اور پہلے سے ایشو ہوئے وے نوٹوں کی قیمت میں کمی اور ان پر لگے وے پرانے سود میں اضافے کا سبب بنا کرتا ہے ۔ انسان کو تو اپنی قیمت متواتر ہی لگواتے رہنی چاہیئے تاکہ اپنی قیمت کو مینٹین کرنے کیلئے بوقت ضرورت تبدیلیاں کی جا سکیں ۔ ایک دفعہ میں ہی پوری قیمت کا بتا دو تو بس پھر ہمیشہ ہی کیلئے ڈیویلیو ہوتے رہو ۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. سلیم بھای بھت اچھے، انسان کی واقع کوی قیمت نھین لیکن اپنے اپ کو اس معاسرے مئن سنبھال کے رکھنا بھت لازمی ھے۔ ورنھ لوک بھت جلدی ڈیویلیو کر دین گے۔
    اپ کی ساری تھریر بھت اجھی ھوتی ھین شکریہ

    ملک نواز سعودی عریبھ

    جواب دیںحذف کریں
  11. یہ بات تو سولہ آنے درست ہے، اور ازمنہ قدیم سے یہ کہاوت چلی آرہی ہےکہ بندہ نہیں بندلتا بلکہ حالات بدل جاتے ہیں، آپ کا سلسلہ بہت اچھا ہے، جاری رکھئے اسے

    جواب دیںحذف کریں
  12. الحمدللہ میں بلکل خیریت سے ہوں آپ سنائیں کیسے ہیں؟ اور کیا ہو رہا ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  13. بهت خوب یہ بات تو سولہ آنے درست ہے،

    جواب دیںحذف کریں
  14. عادل بھیا، آپکی بہت مہربانی کہ آپ نے میری تحریر کو پسند کیا۔ مقصد ہمت افزائی تھا اور لگتا ہے کہ پورا ہو گیا ہے۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  15. پیارے ج ج س صاحب، مجھے آپ کے تبصرے سے کوئی سروکار نہیں‌ہے، میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے فیس بک پر اسے لائیک کیا ہے۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  16. جناب ملک نواز صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، میری تحاریر پسند کرنے کیلئے شکریہ قبول کریں۔ تشریف لاتے رہا کریں

    جواب دیںحذف کریں
  17. جناب ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب، جی ہاں، لوگ نہیں‌حالات بدل جایا کرتے ہیں۔ تشریف آوری اور حوصلہ افزائی کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  18. جناب عبدالرحیم صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، تائید کیلئے شکریہ قبول فرمائیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  19. محبوب بھوپال27 مئی، 2012 کو 11:43 PM

    اسلام و علیکم
    کام کی باتیں آپ بہت اچھے پیرائے میں اپ بتاتے ہیں اس بات کا ملکہ اللہ تعالی نے اپ کہ دیا ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ امین

    جواب دیںحذف کریں
  20. ہمیشہ کی طرح عمدہ تحریر ہے۔
    جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  21. بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔
    جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  22. ماشاءاللہ سر جی بہت اچھا سبق دیا ہے بڑے آسان طریقے سے سمجھایا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  23. پیارے خرم ابن بشیر، بہت دنوں کے بعد آنا ہوا، پسندیدگی کیلئے شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  24. بلکل ٹھیک انسان کو پہلے خود اپنی قدر کرنی چاہیے

    جواب دیںحذف کریں
  25. سیدہ ناعمہ آصف22 ستمبر، 2012 کو 2:47 PM

    السلام علیکم محمد سلیم بھائی۔

    آپ کا بلاگ پڑھنے کا یہ پہلا اتفاق ہے۔ مجھے آپ کے لکھنے اور پیغام رسانی کا یہ انداز بہت پسند آیا۔ ایک بات کی اور خوشی محسوس ہوئی کہ آپ نے میرے دل کی بات کو الفاظ بخشے ہیں۔ میرا بھی یہی ماننا ہے کہ انسان جب تک اپنی عزت خود نہیں‌کرتا، دوسرے اس کی عزت نہیں کرتے۔ جب تک وہ خود کو اہمیت نہیں دیتا، لوگ اس کی قدر و قیمت سے آگاہ نہیں ہوتے۔ انسان اپنا مقام خود بناتا ہے، اپنا آپ خود منواتا ہے اور جو ایسا نہ کرتے ہوئے محض دوسروں سے توقعات وابستہ رکھتے ہیں وہ ساری زندگی یا تو احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں یا پھر شکوہ شکایت جیسے مرض میں مبتلا۔
    بہرحال آپ کی مثبت سوچ اور پیغام بہت سے لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہیں جو کسی کے الفاظ سے سیکھ لیا کرتے ہیں۔ بے شک جس پر خدا مہربان ہو۔

    بہت سی دعاؤں کے ساتھ۔ لکھنا جاری رکھیے گا۔ اللہ کرے زورٍقلم اور زیادہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  26. محترمہ سیدہ ناعمہ آصف صاحبہ، بلاگ پر خوش آمدید، اتنی توجہ کے ساتھ پڑھنے اور اتنے خلوص کے ساتھ تبصرہ کرنے پر آپکا بیحد مشکور ہوں۔ وقتا فوقتا تشریف لا کر راہنمائی کیا کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  27. بھت اچھی تحریر ھے امید افزا اور حوصلھ بخش

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں