بس راوالپنڈی ڈایوو اڈے پر پہنچی تو صبح کی نماز کا وقت تھا اور ہر طرف اذانیں ہو رہی تھیں۔ اڈے کی عارضی طور پر بنی مسجد میں خوب رش تھا، میں نے بھی جلدی جلدی وضو کر کے سنتیں ادا کیں تاکہ جماعت پا سکوں مگر ادھر تو ہر کوئی انفرادی نماز پڑھ کر بھاگنے کے چکر میں تھا۔ پہلے تو میں دیکھتا رہا پھر بول ہی پڑا کہ بھائیو کم از کم پچاس لوگ اب تک انفرادی نماز پڑھ کر جا چکے ہیں کیوں نہیں ایک جماعت کرا لیتے۔ ایک باریش شخص نے مجھے کہا کہ اگر میں امامت کراؤں تو وہ میرے پیچھے نماز پڑھے گا۔ حیرت کے ساتھ میں نے امامت کی اور دس پندرہ لوگوں نے میری اقتداء میں نماز پڑھی۔
شرق الاوسط میں بسنے والے جانتے ہیں کہ امامت کو وہاں پر مسئلہ نہیں بنایا جاتا۔ کسی ایک کو آگے بڑھا کر جماعت کرا لی جاتی ہے۔ اور بات بھی اتنی سی ہی ہے کہ امامت اس کو دیدی جائے جو علم میں زیادہ ہو، سب برابر ہوں تو عمر میں بڑے کو آگے کر دیا جائے ، عمر میں بھی سب برابر ہوں تو اعلیٰ مرتبے والا یا پھر کوئی ایک امام بن جائے۔
سعودی عرب میں جب ہم نے متفقہ طور پر دو کی بجائے جب ایک سیشن میں ڈیوٹی دینا منظور کرائی تو جہاں ہمیں کئی فوائد ملے وہیں یہ نقصان بھی ہوا کہ دوپہر کو ہماری کمرشل عمارت مکمل طور پر بند ہوجاتی اور ہم اپنے دفتر میں محصور ہو کر رہ جاتے۔ اس طرح ہم عصر کی نماز وہیں اپنے دفتر میں پڑھتے، سری نماز میں تکبیر اور سلام تو کوئی بھی کہہ لیتا تھا اس لیئے جب بھی کبھی ، اگر مجھے آگے کیا گیا تو میں نا امامت سے ہچکچایا اور نا ہی اسے کوئی بوجھ سمجھا۔
ایک بار ٹرانزٹ میں بنکاک ایئرپورٹ پر، وہاں کی مسجد میں جا کر میں نے پوچھا کسی نے مغرب یا عشاء پڑھنی ہو تو میرے پیچھے آ جائے اور اس طرح پہلی بار جہری نماز پڑھائی۔ وہیں پہلے سے موجود کچھ لوگوں نے ذہن بنا لیا کہ صبح کی نماز بھی مجھ سے پڑھوائیں گے جس کا مجھے بعد میں علم ہوا۔ نمازوں سے فارغ ہو کر میں نے مزیدکچھ وقت گزارا اور پھر چائے کافی کیلئے باہر چلا گیا۔ جب صبح کے قریب ٹہلتا ہوا واپس آیا تو ایک بزرگ کو پریشانی کی حالت میں اپنی طرف آتے دیکھا۔ کہنے لگے تم ادھر پھر رہے ہو اور ادھر ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں کہ جماعت کرواؤ۔ میری حیرت دیدنی تھی ، میں نے جلدی جلدی تیار ہو کر کوئی پچیس تیس لوگوں کی امامت کرا ڈالی۔ بڑی ذمہ داری کا احساس تھا پتہ نہیں نماز میں کیا کیفیت رہی مگر یہ مرحلہ گزر گیا۔ بعد میں جہاز پر مجھے ایک شخص آ کر ملا اور کہنے لگا آج میں نے صبح کی نماز آپ کے پیچھے پڑھی ہے اور یقین کریں جتنی تسکین مجھے آج ملی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ملی تھی، اس کے یہ تاثرات میرے لئے بہت ہی حیرت کا باعث تھے۔
اس کے بعد (پاکستان میں) مجھے جب بھی موقع ملتا امامت کیلئے اپنی خدمات پیش کر دیتا مگر اپنی ظاہری شباہت کے باعث کبھی بھی کامیاب نا ہو سکا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ جب مسجد گیا تو صبح کی نماز ہو چکی تھی۔ میرے علاوہ بھی دو تین اور لوگ تھے جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ باہمی اتفاق سے طے پایا اگر میں امامت کرواؤں تو وہ میرے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے تیار ہیں۔ اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر میں نے نماز پڑھا ڈالی۔ جیسے ہی سلام پھیرا تو مسجد میں موجود دوسرے تیس چالیس لوگ انتہائی ناراضگی کے عالم میں ہمارے سروں پر کھڑے تھے۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ ہم نے مسجد میں یہ کیا تماشہ کیا ہے ۔ انہوں نے نماز کے بعد بآواز بلند ذکر کرنا تھا اور ہماری نماز نے ان کے ذکر میں خلل ڈالا۔ اگر واقعی ہمیں با جماعت نماز کا شوق تھا ہی تو ہم وقت پر مسجد میں کیوں نہیں آئے۔ اگر ہم نے اپنی ہی جماعت کرانی تھی تو ہم نے چھوٹی سورتوں کا انتخاب کیوں نہیں کیا۔ اگرہم کل چار پانچ لوگ تھے تو تلاوت میں اپنی آواز اتنی کیوں بلند کی۔ ماحول کچھ یوں تھا کہ ان لوگوں نے ہمیں ابھی مارا کہ تبھی مارا۔ میری اقتداء میں بیٹھے ایک شخص نے مجھے آنکھ ماری اور صورتحال سے لطف اندوز ہونے کا اشارہ کیا، جبکہ میں اپنے محلے داروں کی معصومیت پر کڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد مسجد میں مجھے جن عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا وہ علیٰحدہ داستان ہے۔
محلے کی مسجد میں کئی بار ایسا ہوا کہ امام صاحب لیٹ ہوگئے۔ لوگوں کا اضطرابی حالت میں بار بار گھڑی دیکھنا ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے مگر کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ آگے بڑھ کر امامت سنبھال لے۔ مجھے تو کبھی بھی ایسا نا کرنے دیں کیونکہ میں کئی بار رضاکارانہ طور پر پیش کش کر کے آزما چکا ہوں۔ ہماری مسجد میں سب لوگ اقامت کے دوران بیٹھے رہتے ہیں جب اقامت کہنے والا حی علی الصلاۃ پر پہنچتا ہے تو سب کھڑے ہوتے ہیں۔ اس بار میں نے دیکھا کہ امام صاحب تو نہیں آئے مگر پھر بھی ایک بابا جی اُٹھ کر اقامت کہہ رہے ہیں۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کس سے امامت کرائی جاتی ہے۔ تو ایک نوجوان سا لڑکا آگے بڑھا اور سب نے اُس کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ لڑکا امام صاحب کا بیٹا ہے اور امامت کیونکہ ایک پیشہ ہے اس لئے اگر امام خود نہیں آئے گا تو متبادل کے طور پر کسی کو بھیجے گا۔
میں نے جہاں تک دیکھا ہے امامت کرنے والے کسی شخص کو معاشی طور پر آسودہ حال نہیں پایا۔ گویا یہ بھی ایک شرط ہو کہ امام صاحب مفلس اور مفلوک الحال بھی ہونگے۔ عموما امام صاحب دور دراز کے علاقے یا محلے سے ہوتے ہیں ورنہ ایسی باتیں جو امام کی شان میں مناسب نا ہوں وہ ظاہر ہو جاتی ہیں۔ امام کی بیوی پردہ دار ہو، اس کے گھر میں ٹی وی نا ہو، بیٹیاں اس کی سکول و کالج جانے والی نا ہوں۔ گویا زندگی کی کسی سہولت کا ان کے گھر میں دخل نا ہو۔ یہ ہیں جی پاکستان میں امامت کی شرائط۔
ہمارے علاقے کی ایک بڑی مسجد کے شیخ صاحب نے اپنی جمعہ کی تقریر میں بتایا کچھ لوگ ان کے پاس آئے کہ ہم نے مسجد بنائی ہے اور امامت کیلئے ایسا بندہ تلاش کر رہے ہیں جو ہزار پندرہ سو روپے پر راضی ہو جائے۔ نیک پاک ہو، فارغ وقت میں کیونکہ ہمارے بچے بچیوں کو قرآن بھی پڑھائے گا اس لیئے اخلاق اور کردار کا بھی اعلیٰ ہو۔ ٹی وی نا دیکھتا ہو، سگریٹ نا پیتا ہو۔ اس کے اپنے گھر والے پردہ دار ہوں اور دینی تعلیم کے علاوہ کوئی اور کام نا کرتے ہوں۔ شیخ صاحب کہتے ہیں جب ان لوگوں نے بولنا بند کیا تو میں نے کہا میرے ذہن میں ایک آدمی ہے تو سہی۔ اچھا اخلاق ہے، با کردار ہے، شاید آپ سے یہ تنخواہ بھی نا لے۔ ماضی میں بہت سے اہم کام سر انجام دیتا رہا ہے مگر آج کل فارغ ہے اور ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہے۔ کہو تو اس کا نام بتا دوں خود جا کر مل لو۔ بندے بہت خوش ہوئے کہ جی لگتا ہے ہم ایسا ہی کوئی آدمی تلاش کر رہے تھے آپ ہمیں اس کا نام پتہ بتائیں ہم ابھی جا کر اس سے ملتے ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا اس فارغ آدمی کا نام جبرائیل (علیہ السلام) ہے جو آپ لوگوں کی شرطوں پر پورا اترتا ہے جا کر مل لیجیئے۔
(جاری ہے)
آپ کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہے اور پاوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دم پر
جواب دیںحذف کریںمیرے عزیزم ۔ آجکل پاکستانی مولوی اور امام بھی بڑے ماڈرن ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی میں ہمارے علاقے کے امام صاحب کے گھر ٹی-وی بھی ہے مگر اسلامک چینلز دیکھتے ہیں۔ انکے تینوں بچے اعلیٰ یونیورسٹیز سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حقیقت میں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اِس ملک میں مذہب کی آڑ میں اور نام پر پیسے بٹورے جاتے ہیں اور مذہب کو ایک مفادپرستی کا کھیل بنا لیا ہے۔ آج جِسکی وجہ سے ہم لوگ اللہ سے دُور ہو چکے ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں۔ مذاہب اور فرقوں کے چنگل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ ا للہکیرسی پر ہماری گرفت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتی جا رہی ہے اورایک دن جب یہ رسی ہاتھ سے چھوٹ گئی تو قیامت ھو گی۔
جواب دیںحذف کریںگویا امام صاحب اب اپنے بچوں کو بھی نہ پڑھائیں۔ افسوس ایسی سوچ پر۔
جواب دیںحذف کریںبہت اعلیٰ جناب! ۔۔۔ ایک بہت اہم مسئلہ پر آپ نے توجہ دلائی۔۔ فقہہ حنفیہ میں مسجد کے اندر دوسری جماعت کرانا غالبآ معیوب سمجھا جاتا ہے شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ کہیں نماز کو ہلکا نا سمجھ لیا جائے۔ لیکن اس سے ایک بڑا نقصان یہ ہوجاتا ہے کہ بہت سارے لوگ جماعت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںسعودی عرب میں یہ مسئلہ نہایت ہلکا لےلیا گیا ہے اور امام کے لیے جن کم از کم شرائط کا خیال ضرور رکھا جانا چاہیے ان سے غفلت برتی جاتی ہے۔ یہاں ہر طرح کا زانی، بےایمان، بدمعاش اور حرام خور بڑے مزے سے امامت کراسکتا ہے اور کراتا ہے۔
حتی ٰ کہ راقم کے ساتھ ایک عجیب و غریب واقع ہوا۔ کہ کلینک میں فجر کی نماز کے بعد ایک مصری نماز پڑھایا کرتا تھا۔ اور نماز پڑھانے میں خود آگے بڑھنا اپنا فرض سمجھتا تھا کہ فجر کے وقت باقی نمازی غیر عرب ہوا کرتے تھے۔ ایک دن نماز کے دوران اسکی جیب سے فرعون کی شبیہ والی کی چین نکل کر سامنے گرگئی۔ نماز کے بعد راقم نے خفگی سے اس پوچھا کہ فرعون کی شبیہ والی کی چین رکھ کر نماز کیوں پڑھاتے ہو تو جواب آیا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام والا فرعون نہیں۔ جس کے بعد میں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ مسجد جا کر ہی نماز پڑھ لی جائے۔
گویا ٹی وی رکھنا یا اعلی' تعلیم حاصل کرنا موڈرن ہونا ہے
جواب دیںحذف کریںسلیم بھائی!
جواب دیںحذف کریںدین آسان اور سمجھ میں آنے والی شئے ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ سب مسلمانوں کو آذان۔ تکبیر اور جماعت اور قرائت ۔ وغیرہ کے بارے سمجھ اور تجربہ ہونا چاہئیے کہ جب بھی آذان دینا یا نماز پڑھوانی پڑھ جائے تو یہ عام معمول ہو۔ تانکہ مشکل اور جھجھک پیش نہ ہو۔
البتہ پاکستان میں ہماری ایک بڑی اکثریت ابھی تک ایک لگے بندھے طریقے سے دین کے بارے علم رکھتے ہیں اور وہ بھی بس واجبی سا۔ اسلئیے اسطرح نماز یعنی جماعت کروانا ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کو فہم سے بالا ہوجاتا ہے ۔ اکثر جنگل میں شکار وغیرہ پہ۔ یا دوران سفر ۔ یا عام مساجد میں ۔ بہت سے لوگوں کو اکیلے اکیلے اپنی نماز پڑھتے دیکھا جاتا ہے اور اچھے خاصے دین کا فہم رکھنے والے لوگ بھی سامنے آنے والی مخالفت کے ڈر سے خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔
اس مسئلے کا ایک پہلو معاشی بھی ہے۔ میں ایک ایسی بستی کو بھی جانتا ہوں ۔ جہاں کے لوگ پاکستان کی عام آبادی کی نسبت بہت خوشحال ہیں ۔ اور وہاں ان مساجد میں امامت ملنے کے لئیے کچھ نیم خواندہ مگر غریب لوگوں نے باقاعدہ لابنگ کی ہے اور متواتر کرتے ہیں ۔ وہاں امام صاحب کی اسقدر آمدن ہے کہ اس سے انہوں نے اپنے علاقے میں ایک عدد مدرسہ تعمیر کروایا ہے ۔ اور اپنے آبائی علاقے میں خود باقاعدہ طور پہ وہاں چھ دن سارے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور صرف جمعہ المبارک اور عیدین وغیرہ پڑھانے کے لئیے مذکورہ بستی تشریف لاتے ہیں۔ جبکہ بستی والوں کی عام دنوں کی امامت کے لئیے بڑے امام صاحب نے ایک اپنے سے کم تعلیم اور کم مرتبہ امام معمولی معاوضے پہ رکھا ہوا ہے۔
پاکستان میں مساجد سے پورے پورے خاندان کا ذریعہ معاش اور سماج میں قدرے نمایاں مقام جڑا ہوتا ہے ۔ اسلئیے ایسی مساجد کے امام حضرات محض پیشہ ور نیم خواندہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو اپنے سامنے کسی بھی نوارد کو کسی طور اہمیت دینے پہ تیار نہیں ہوتے ۔ کہ مبادا انکی روزی روٹی اور علمی حیثیت پہ حرف آجائے ۔
یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اسطرح کے پیشہ ور اور علم و عمل سے خالی اماموں کے پند و نصائح میں اثر باقی نہیں رہا۔ اور لوگ عام مولوی حضرات کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ جو کہ ایک بڑا المیہ ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں درست طور پہ دین سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
پاکستان میں مسجد میں دوسری جماعت اور امامت کو خوامخاہ تفرقہ کا الزام لگا کر مسئلہ بنایا جاتا ھے۔ ادھر دبئی میں یہ کوئی اچھوتی بات نہیں ھے۔ کوئی بھی جماعت کروا لے اور مسجد میں کتنی ہی مرتبہ جماعت کروا لی جائے، کوئی برائی نہیں۔
جواب دیںحذف کریںمیری معلومات کے مطابق فقہ حنفیہ میں مروج ہے کے دوسری جماعت وہ شخص کرواۓ گا جو پہلی جماعت میں شریک ہو. یہ چیز میں نے ایک مرتبہ عرب امارات میں بھی دیکھی جہاں ایک شاپنگ مال میں ایک عربی صاحب بار بار جماعت کروا رہے تھے. واللہ اعلم بالصواب
جواب دیںحذف کریںجناب محترم دوسرا کاشف صاحب؛ خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی یہ بات منطقی نہیںلگتی کہ دوسری جماعت وہی کرائے جو پہلی جماعت میںشریک تھا۔
عرب امارات میںآپ نے جس صاحب کو دوبارہ بھی جماعت کراتے دیکھا وہ مسافر دوستوںپر مشتمل گروپ تھا جو اپنی نمازوںکو قصر اور جمع کر کے پڑھ رہے تھے۔ (ظہر اور عصر ملا کر کر یا مغرب اور عشاء ملا کر)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
محترم کاشف صاحب؛ خوش آمدید
جواب دیںحذف کریںپاکستان میںتلاش معاش کی بھاگ دوڑ میںمذہب ثانویت اختیار کر گیا ہے۔ مسجد کے دروازے پر پھلوںکا ٹھیلہ لگانے والا مسجد میںنماز نہیںپڑھتا۔ اس لیئے مذہبی معلومات کی کمی تفرقہ بازی نہیں بلکہ کم علمی ہے۔ عرب ملکوںمیںدوسری جماعت کوئی مسعلہ تو نہیںمگر جیسے ڈاکٹر جواد صاحب نے لکھا وہاںامام کے اختیار میںبنیادی شرطوںسے بھی صرف نظر کیا گیا۔
جناب احمر صاحب؛ خوش آمدید۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے آمین
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ کے مشاہدات بالکل صحیح ہیں۔ عرب اپنے آپ کو ایک حد تک عجمی سے افضل گردانتے ہیں اور اس حساب سے امامت کیلئے اپنے آپ کو زیادہ مستحق۔ معاملات میں کمزور ترین ٹیکسی ڈرائیور بھی امات میں اپنے آپ آپ کو آگے کرتے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںبرادر عزیز جناب جاوید گوندل صاحب۔ تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںسچ ہے جہاں معاشرے کے دوسرے کرداروں نے مثبت یا منفی ترقی کی ہے یہ کردار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ ہمارے ہاں ایک امام صاحب کو تو سیلانی نیٹ ورک (فرضی نام) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر خالی جگہ پر مدرسہ اور ہر مدرسے مسجد میں اپنے آدمیوں کو ملازمت اور دوسرے سینکڑے دھندوں کی وجہ سے اس کا یہ نام پڑا۔
آئمہ کرام چھوٹے مسائل پر بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ مذہب کی مبادیات سے ناسمجھ اور نا بلد رہتے ہیں۔ جمعہ کے خطبات میں ہزاروں ایسے ماسئل ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے مثلا رکوع کے بعد قیام اور سجدوں کے درمیان قعدہ کی مقدار کیا ہوگی؟ نماز کا چور کون ہے؟ کس کی نماز کو کووں کے ٹھونگوں سے تشبیہ دہ گئی ہے۔ تحیۃ المسجد کی افادیت، صفوں کی درستگی کا صحیح طریقہ، صبغ و شام کے اذکار، مسنون دعائیں، وضو و غسل کے طریقے، جنازہ کی تعلیم، میت کے غسل کا طریقہ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب پر بات کرنا ان کو چھوٹا بناتا ہے اور جو کچھ وہ بولتے کہتے ہیں اس سے دین کا نقصان اور معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے کی توفیق دیں آمین
محترم جناب منیر عباسی صاحب، تشریف آوری کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںپاک و ہند میں مزارات سے جڑے لوگ ہی قابل احترام ٹھہرے جبکہ دوسرے مذہبی لوگ اپنے مطلوبہ عزت و وقار سے محروم رہے۔ بات بے جا نا ہو تو ان بیچاروں کا شمار تو نچلے درجے کے کمی کمین لوگوں میں ہوا۔ ہمارے جنت نظیر ملتان (درباروں کی کمائی کے لحاظ سے) کی مثال سامنے ہے کسی نا کسی دربار سے جڑے بندے کو دیکھ لو دنیا و ما فیہا کی عشرتوں سے بہرہ ور ہے مگر دین کے خدام فقراء میں شمار ہوئے۔
جناب الطاف سیلانی صاحب۔ خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںایک بار کسی نے اخباری مفتی سے پوچھا تھا کہ ہمارے محلے کے مولوی کے گھر میں ٹی وی ہے۔ اس کے پیچھے کیا ہماری نماز ہو جائے گی۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ اگر تم فرشتے ہو تو تمہاری نماز نہیں ہوگی۔
حنفی مسلک میں ایک مسجد میں دوسری جماعت کروانے کی اجازت نہیں ہے. بات آپ کی منطق کی نہیں بلکہ علما دین کے اجماع کی ہے.
جواب دیںحذف کریںیہ لنک چیک کریں
http://www.askimam.org/public/question_detail/17487
اسلام و علیکم
جواب دیںحذف کریںبہر صورت یہ یاد رہے کہ بغیر عزر کے جماعت سے پیچھے رہنا اور خواہ مخواہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر دوسری جماعت کا رواج ڈالنا درست نہیں کیونکہ دوسری جانب جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی بہت تاکیدوار دہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے کہ مومنوں کی نماز اکھٹی ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
” مجھ یہ پسند ہے کہ مومنوں کی نماز ایک ہو یہاں تک کہ میں نےا رادہ کیا ہے کہ کچھ آدمیوں کو محلوں میں پھیلا دوں اور وہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دیں ۔”
مسائل سے ھٹ کر پاکستان میں دوسری جماعت کا مطلب ھے
1۔ لوگ جان بوجھ کر لیٹ ائیں گے
2۔ جماعتیں دو نہیں کئی ھوں گی
3۔ مسجد میں دوسری جماعت دوسرے مسلک کے بھی شروع کر
سکتے ھیں جو مسجد پر قبضہ کرنے کا کوئی موقع ھاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس لیے بعض مساجد میں لکھ دیا جاتا ھے امام کی اجازت کے بغیر دوسری جماعت منع ھے وغیرہ۔
سلیم بھائی ماشائآللہ آپ نے کافی علم کے موتی بھکیرے ھین جزاک اللہ