تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 27 اپریل، 2020

کاروبار کا نیا گُر


مسٹر پیٹر ہوانگ   تائیوان کے شہری اورچین کے شہر  شانتو میں ایک کمپنی  اور  فیکٹری کے مالک ہیں۔ ویسے تو  میں انہیں  بیس سال سے جانتا ہوں مگر  گزشتہ آٹھ سال  ان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی رہا ہے۔ اپنے ملک میں لازمی فوجی تربیت کی  بناء پر کمانڈو ،   کاروبار سے جڑے ہونے  کی وجہ سے خوب پڑھے لکھے،  چیمبر آف کامرس کے نائب صدر اور یہاں کے  سماجی حلقوں میں سرگرم کارکن ہیں ۔ گولف  میں ہول ان ون کرنے والے خوش قسمت،  محفلوں کی جان اور یار باش  آدمی ہیں۔

 جس طرح ہر انسان میں کئی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ان کی خامی  پیسے کے پیچھے بھاگتے رہنے کے دوران اپنے بچوں سے علیٰحدہ رہنا بھی ہے۔  ان کے بچے دیگر خاندان کے ساتھ تائیوان میں رہتے ہیں تو وہ خود یہاں شانتو میں مقیم ہیں۔

کاروبار سے متعلقہ کہیں کوئی بات  ہو رہی ہو  اسے سمجھنا اور اس پر غور کرنا ان کا شوق ہے۔  مثال کے طور ایک بار ہم شنگھائی  میں ایک تجارتی  میلہ  گھومنے کے دوران تازہ دم ہونے کیلئے  کافی پینے ایک غیر ملکی کافی شاپ پر چلے گئے جہاں بیروں نے  غلطی سے مہمانوں پرکھانے کی  ایک ڈش  گرا   دی ، اس معاملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا مگر یہ بیرے اور ان کا منیجر اس گمبھیر معاملے کو کیسے نمٹاتے ہیں دیکھنا گویا پیٹر کا پسندیدہ موضوع تھا اور اس چکر میں ہم وہاں سے  کافی کے ساتھ کھانا وغیرہ بھی کھا کر  اُٹھے۔

ایک بار اپنی علالت کی وجہ سے اس  کو کچھ  دن تائیوان جا کر رہنا پڑا، اس دوران اس نے اپنے سارے بھولے بسرے رشتہ داروں کو ملنے کی ٹھانی۔ اپنی ایک بہن کو ملنے کیلئے دور دراز پہاڑی مقام پر  گئے۔  پیٹر کی یہ  بہن  ایک سیاحتی مقام سے واپس آتی پہاڑ کی ایک اترائی پر وہاں کا مشہور موسمی پھل ناشپاتی بیچنے کا سٹال لگاتی تھی۔ صاحب اپنی بہن کو ملنے کے بعد باتیں کرنے کیلئے بیٹھے تو دیکھا کہ اس جگہ پر ناشپاتیاں بیچنے والی وہ اکیلی نہیں،  آس پاس کئی اور بھی سٹال تھے۔  مگر کچھ تو خاص تھا کہ  کسی سٹال پر بھی  اتنے گاہک نہیں تھے جتنے اس کی بہن کے سٹال پر تھے۔  رش کی وجہ سے پیٹر کیلئے اپنی بہن سے چند باتیں کرنا بھی محال ہو رہا تھا اور اتنے عرصے کے بعد ملنے پر   اور اتنی دور آ کر کچھ باتیں کیئےبغیر  لوٹ جانا  اُسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔  انتظار میں بیٹھے بیٹھے اس کا کاروباری دماغ  چلا  تو سوچنے لگا  آخر ایسی کونسی  وجہ ہے جس کی بناء پر اس کے بہن کے پاس بیسیوں گاہک ناشپاتیاں خریدنے کے ساتھ ساتھ اپنی باری کا انتظار بھی کر رہے ہیں جبکہ دوسرے سٹال پر اکا دُکا گاہک ہی  بے رغبتی سے یا جلدی سے لیکر جانے کے چکروں میں موجود   ہیں۔

ہر آنے والے گاہک کو ناشپاتی کاٹ کر کھلانا  کوئی بڑی بات نہیں تھی ، یہ سب کچھ ایک کارکن کر ہی رہی تھی مگر پیٹر کی بہن  اس دوران اپنے گاہکوں  کو یہ بتا رہی تھی  کہ یہاں کی ناشپاتیاں ملک بھر کی ناشپاتیوں سے زیادہ رسیلی اور مزیدار ہیں ۔ گاہکوں سے رائے لینے کے بعد کہ کیا انہوں نے ناشپاتیوں کا ذائقہ منفرد پایا ہے یا نہیں؟ مثبت جواب ملنے پر  وہ گاہکوں کو یہ شہ دیتی تھی  کہ اگر آپ  یہاں کی مشہور سوغات  کھا رہے ہیں تو کیا آپ  اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس نعمت سے فیض یاب نہیں کرنا چاہیں گے ؟وہ گاہکوں کو بتاتی کہ اگر وہ کہیں تو وہ ان کی طرف سے ان ناشپاتیوں کو کوریئر سروس سے ان کے عزیزوں کو ابھی بجھوا دیتی ہے، ہر  ڈبے میں وہ ایک محبت بھرے  پیغام والا کارڈ بھی ڈال دے گی جس پر لکھا ہو گا کہ میری بہن جب میں یہ لذیذ ناشپاتیاں کھا رہا تھا تو میرا دل چاہا کہ آپ بھی اس ذائقے سے لطف اندوز ہوں اس لیئے میں یہ تحفہ آپ کو بھجوا رہا ہوں۔ گاہک کو بتانے کا انداز اچھوتا  تھا اور گاہک اسے اپنے آرڈر کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزوں کے  نام اور پتے لکھوا رہے تھے۔ بات یہیں تک ختم  نہیں ہوتی تھی، اس کے بعد وہ گاہکوں سے پوچھتی کہ کیا آپ لوگ   اس تفریحی مقام پر ہر سال آتے ہیں یا کبھی کبھار؟ جواب ملنے پر وہ انہیں بتاتی کہ اگر آپ مجھے اپنا پتہ دیتے جائیں تو  میں اگلے سال ناشپاتیوں کا موسم شروع ہونے پر آپ کو اس ناشپاتیوں کے بارے میں یا د دلاؤں گی،  اگر آپ چاہیں تو اگلے سال کیلئے وہ ابھی آرڈر لے لیتی ہے ورنہ اور مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے بھجوانے کیلئے کہیں گے۔ گاہک دھڑا دھڑ اس کو اپنے گھروں کے پتے لکھوا کر جا رہے تھے۔

ملازموں کے ساتھ مل کر گاہکوں کا مطلوبہ آرڈر پیک کرنا پیٹر کے شایان شان کام نہیں تھا مگر وہ ماحول کا حصہ بننے کیلئے اُٹھ کر اُن کے ساتھ شامل ہو گیا تاکہ وہ کام کرتے کرتے موقع ملنے پر بہن سے باتیں کرتا رہے۔ اس دوران موقع ملنے پر اس نے بہن سے پوچھا کہ یہ پھل تو موسمی ہے، موسم کے خاتمے پر وہ کیا کرے گی؟ جو کچھ اس کی بہن نے بتایا وہ حیران کُن تھا کہ؛ جب موسم ختم ہو گا تو اپنے سٹال پر آنے والے ہر گاہک کو شکریہ کے خط بھیجے گی۔ اگلے سال کی فروخت اور ایڈوانس  ملنے والے آرڈرز کیلئے  وہ کسانوں کو بیعانہ یا مول  دیکر  پھل کی پیداوار خرید لے گی۔  موقع مناسبت اور عید تہوار پر اپنے گاہکوں سے رابطہ رکھے گی، بچوں کے ساتھ تفریح کیلئے کسی ملک جائے گی اور زندگی کو بھر پور  طریقے سے گزارے گی۔

کل مجھے فیس بُک پر ایک نوجوان نے دوستی کیلئے پیغام بھیجا، پروفائل سے وہ سوات کا باسی اور وہاں کے مقامی کشیدہ  کاری اور کڑھائی والے کپڑوں اور چادروں کا تاجر تھا۔ سیاحتوں کی کمی کا شکار اس علاقے اور موسموں کی تنگی تُرشی سے نبرد آزما لوگوں کیلئے مستقل کاروبار سے متعلق سوچتے ہوئے میرے دل میں خیال  آیا تھا کہ اگر پیٹر کی بہن صرف موسمی  پھل کو سال بھر کیلئے روزی کا ذریعہ بنا سکتی ہے تو فیس بُک تک رسائی رکھنے والے اس علاقے کے ہمارے یہ نوجوان اس وسیلہ باہمی میل ملاپ اور تواصل کو اپنے کاروبار کی ترقی کا ذریعہ کیوں نہیں بنا سکتے۔ گرمیوں میں چند دن کیلئے جانے والے سیاح ان کپڑوں، میووں، تحفوں اور چیزوں کو جس حیرت سے دیکھتے  اور محبت سے خریدنے ہیں کیا وہ یہاں قسمت سے  دوبارہ  یہاں آنے  کا انتظار کریں تو تب کہیں جا کر یہ  چیزیں دوبارہ خریدیں۔ چین کی مقامی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی کچھ  ویب سائٹس آنلائن محض کمپیوٹر اور موبائل ہی نہیں بیچتیں علاقائی سبزیاں تک بھی بیچتی ہیں۔ میرا پیغام واضح ہے اور آپ کیلئے ایک وسیع موقع موجود، آئیے ایسا کوئی طریقہ آزما کر دیکھتے ہیں۔

19 تبصرے:

  1. یہ یا تو پہلے بھی آپ کے بلاگ پر پڑھا ہے یا پھر جب آپ ملے تھے تب آپ نے یہ بات سنائی تھی۔ بہرحال بہترین ہے اور لوگوں کو تحریک دینے کے لئے زبردست۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت زبردست۔
    کسی بھی کام کے لیے یہ تحریر اس طرز پر مزید آئیڈیاز سوچنے کے لیے تحریک دیتی ہے۔
    میرا کئی دفعہ ایسے لوگوں سے سامنا ہوا ہے جنہوں نے کسی کام کے لیے بڑے سرمائے کے بجائے دستیاب وسائل کو ہی استعمال کرتے ہوئے کام شروع کیا جسے بعد میں اللہ نے ترقی دی۔ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کریں تو کچھ چیزیں کامن نظر آئیں گی۔ جیسے مستقل مزاجی، محنت، قناعت،صبر اور مثبت سوچ۔
    پاکستان میں تھری جی اور فور جی آیا ہی چاہتا ہے جو بہتر سوچنے اور عمل کرنے والوں کے لیے وسیع مواقع پیدا کرے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. سلیم بھائی ! ہمارے نوجوانوں کی اکثریت صرف یہ چاہتی ہے کہ کچھ کرنا نہ پڑے اور سب کچھ کیا کرایا مل جائے کیونکہ ہمارے حکمران بھی یہی کررہے ہیں ، جب سارے راتوں رات امیر بننے کے چکر میں ہوں تو اتنی سی محنت کسی کو بھی گوارا نہیں ، اللہ کرے وطن عزیز کا ہر نوجوان اسی طرح سوچے ، اپنے دن رات کو نوکریاں تلاش کرنے میں صرف کرنے کی بجائے چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنا سیکھے تو بے روزگاری میں سوفیصد کمی آ سکتی ہے ، سنا ہے ملازمت میں ایک حصہ جبکہ تجارت میں نو حصے رزق پوشیدہ ہے ، بہر حال بہت ہی نصیھت آمیز تحریر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. چینی ایک محنتی قوم ہیں ۔ صدی یا دو صدیاں قبل ہمارے ہاں بھی محنتی قوم بستی تھی پھر ناجانے کیا ہوا ۔ اب تو لوگ چاہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا ہو

    جواب دیںحذف کریں
  5. اس قسم کی تکنیک واقعی کارگر ہوتی ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں اسے بے کار اور فضول تصور کیا جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. محمد اصغر(تلمیذ)3 مارچ، 2014 کو 1:37 AM

    نہایت اچھی تجاویز ہیں اور کسی بھی کاروبار کے لیے قابل عمل۔ لیکن بنیادی عوامل جن کا ہمارے معاشرے میں فقدان ہے، وہ ہیں مقصد سے لگن، دیانت داری، حلال و حرام رزق میں تمیز اور سرکار کی طرف سے معاونت و حوصلہ افزائی۔ اگر یہ چیزیں اپنا لی جائیں تو اللہ کے فضل سے تجارت یا کاروبار ہر جگہ پنپ سکتا ہے اور بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. بلال بھائی، تشریف آوری کا شکریہ۔ یہ قصہ پہلی بار لکھا ہے، ہو سکتا ہے آپ سے زبانی ذکر کیا ہو۔ جہاں تک تحریک کا مقصد ہے وہ میں فیس بک اس کے تعارف میں کچھ یوں لکھا تھا کہ:
    اگر آپ مانتے ہیں کہ علم جس سے بھی ملے لے لو تو پھر پیٹر کی بہن سے کیوں نہیں؟ ایک ایسی خاتون کی کہانی جس نے عام سے موسمی پھل کو خاص بنا دیا تھا۔ آپ کے کاروبار کی ترقی کیلئے میرا مشورہ، ہو سکتا ہے آئیڈیا کلک کر جائے؟ اچھا لگے تو اُُسے ضرور بتائیے گا جس کا آپ بھلا چاہتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. جناب عامر ملک صاحب المحترم؛ بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ۔ آمدنت باعث آبادی ما۔
    آپ کا کہنا بالکل درست۔ مستقل مزاجی، محنت، قناعت،صبر اور مثبت سوچ کے علاوہ اللہ پاک کی ذات پر مکمل بھروسے کے ساتھ انسان ہر جگہ اپنا راستہ بنا سکتا ہے۔ جزاک اللہ۔ تشریف لاتے رہا کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. جناب محترم ملک صاحب؛ آپ نے بالکل بجا کہا ہے کہ امت کا نو حصے رزق تجارت میں اور باقی کا یاک حصہ دوسرے کاموں میں رکھا ہوا ہے۔ تن آسانی سے نوکری اچھا آپشن دکھائی دیتی ہے۔ اللہ کرے گا تجارت کا بول بالا ہوگا۔ آمد کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. سر افتخار اجمل صاحب المحترم؛ آپ کا فرمانا بالکل بجا کہ محنت میں عظمت کا درس پُرانا اور اُس پر عمل متروک ہو چکا۔ دیکھیں کب تک یہ چلتن چلتا ہے۔ اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمادیں۔ آمد کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. محترم فخر نوید صاحب، آپ میرے بلاگ پر تشریف لائے، اس کیلئے ممنون ہوں۔ اھلاً و سھلاً یا مرحبا۔
    رسم و رواج آہستگی سے ہی پنپتے ہیں، آئن لائن بیچنا آج کل بہت ہی منفعت بخش کاروبار ہے بس نوجوانوں کو اس طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے وہ جلد ہی اس ٹیکنالوجی کے مثبت اور مفید استعمال کی طرف آئیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. سر محمد اصغر صاحب، میں اپنے بلاگ پر آپ کی آمد سے بہت فخر محسوس کر رہا ہوں۔ جی آیاں نوں۔ شکریہ شکریہ شکریہ۔
    سر، معاشرے میں نجانے کیوں ایسی روش چلی ہے کہ لوگوں کے معیار حرام کو جائز بنانے پر آمادہ ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ کے قوانین سے بغاوت عام سی بات ہو چلی ہے، لوگوں کو بک جانے کی خوشی اور وہی چیز واپس لوٹا لینے پر موت نظر آتی ہے۔ چھوٹے مفاد کیلئے اقالے کا قانون ان کو کالا قانون نظر آتا ہے اور وہ سرکار کے اس فرمان کہ ایماندار تاجر کا حساب و کتاب شہداء و صالحین کے ساتھ کیا جائے سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں۔ کئی ایسی مثالیں ہیں کہ لوگوں نے چھوٹی اکائی سے کاروبار شروع کیا اور عظمت تک پہنچے، بڑے لوگوں سے قطع نظر ہمارے محلے کا ایک سچا واقعہ سنیئے:
    صاحب ریاٹئرڈ چھوٹے موٹے سرکاری ملازم تھے ، بچیوں کا ساتھ اور کرایہ کا مکان۔ جب مالک مکان سامان باہر پھینکنے پر آیا تو خاتون خانہ نے گھر میں چنے پکا اور چپاتیاں بنا کر صاحب کو ریڑھی لگا دی۔ شروع میں منہ لپیٹ کر تو بعد میں ذرا ہمت کر کے کھل کھلا کر ریڑھی لگانے لگے۔ نیک بخت بیوی کی محنت رنگ لائی اور جناب ایک دن اپنے گھر کے مالک بن بیٹھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. میں نے راولپنڈی کے ایک زرگر کو دیکھا ہے، ہم لوگوں نے صرف ایک بار اس سے خریداری کی اور اب وہ ہر سال وہ رمضان المبارک کے اختتام پر عید کارڈ ارسال کرتا ہے، واقعی یہ طریقہ بہت کارگر ہے میں سوچ رہا ہوں مریضوں کے فون نمبر بھی نوٹ کروں اور بعد میں فون کر کے ان کی خیریت دریافت کی جائے

    جواب دیںحذف کریں
  14. عامر خاکوانی3 مارچ، 2014 کو 8:24 AM

    بہت عمدہ۔ ہونا چاہیے، میرے جیسے لوگ اس معاملے میں بہت کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے جن لوگوں‌کے انٹرویو کئے، حرام ہے جو کبھی کسی سے رابطہ کیا، جبکہ ہمارے ایک دوست نے جن جن کے انٹرویو کئے، بعد میں ان سب کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات قائم ہوئے، کیونکہ وہ ہر کچھ دنوں کے بعد ان سب کو باری باری ایک کرٹسی کال ضرور کرتے، پھر ملاقات بھی کرتے ،یوں‌ تعلقات قائم رکھتے۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. آپ کی اس پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے بھی مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا لگ رہا ہے، مگر حاضری لگوا رہا۔

    خوش رہیں

    جواب دیںحذف کریں
  16. بہت عمدہ تحریر ہے سلیم بھائی۔ پڑھ کر مزا آیا۔ اپنے گاہک کے ساتھ رابطے میں رہنا اور اسے اپنے گھر کا ایک فرد سمجھنا ایک اہم کاروباری تکنیک ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  17. سلیم صاحب

    آپ بلاگستان کے شاہد آفریدی ہیں، خود ہی بہترین تحریروں کے ریکارڈ قایم کرتےاور خود ہی انہیں توڑ کر نیے ریکارڈ بناتے رہتے ہیں-

    میرے خیال میں آپ کو ایک کنسلٹنٹ ہونا چاہیے، آپ میں لوگوں کے خیالات بدلنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے

    آپ میں ایک بہتریں صلاحیت ہے کہ آپ کسی بھی موضوع کو بہیترین انداز میں پیش کرنے اور عام موضوع کو خاص بنا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں-

    بہت شکریہ

    از احمر

    جواب دیںحذف کریں
  18. بہت خوب سلیم بھائی! آپ کے بلاگ سے ہمیشہ کچھ اچھا سیکھنے کو ملتا ہے۔
    جزاک اللہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  19. تحریرپڑھ کر مشھور حدیث یادآگئ.علم حاصل کروخواہ اسکے لئے چین جاناپڑے ،مسلم قوم کے سر پرجب تک امامت کا تاج تھاوہ زندگی کے ہرمیدان میںدنیا کے لئے معلم بنی ،اور اب یہ حال ہے کہ ترقی کی دوڑ میں قیادت یاھمسری تو کجا خود کو تقلید کے درجہ پر بھی رکھنے کیلۓ آمادہ نہیں"

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں