تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 28 اپریل، 2011

Stucked on……

اٹکی ہوئی سوئی

یہ مضمون آپ کی تفریح طبع کیلئے ترجمہ کیا گیا ہے، اُمید ہے یہ آپ کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ لا سکے گا۔

*********

ایک طالبعلم مضمون نویسی جیسے عام مضموں میں فیل ہوا تو سکول کے مہتمم نے اُستاد کو اپنے دفتر میں بلا کر اس طالبعلم کے اس قدر عام اور آسان مضمون میں فیل ہونے کا سبب دریافت کیا۔


اُستاد نے بتایا کہ جناب یہ لڑکا مضمون نویسی میں اصل موضوع سے توجہ ہٹا کر اپنے ذاتی افکار کی طرف لے کر چلا جاتا ہے، اِس لیئے مجبوراً سے فیل کرنا پڑا۔

مہتمم صاحب نے اُستاد سے کہا ٹھیک ہے کوئی مثال تو دو تاکہ مُجھے پتہ چلے کہ تمہاری بات صحیح ہے؟

اُستاد نے بتایا، میں نے اِسے موسم بہار پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ اِس طرح لکھا: موسم بہار سال کا خوبصورت ترین موسم ہے۔ کھیت کھلیان سر سبز اور ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔ ان کھیت کھیلانوں کے ہرا بھرا ہونے سے اونٹوں کیلئے چارے کی فراہمی بہت ہی آسان ہوجاتی ہے۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں۔ بدو اونٹوں کو نہایت پیار اور مُحبت سے پالتے ہیں۔ اونٹ نا صرف دودھ اور گوشت کے حصول کیلئے پالا جاتا ہے بلکہ اس سے ہر قسم کی بار برداری اور آمدورفت کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے سواری کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اونٹ ایک پالتو جانور ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس طرح اس طالبعلم نے اصل مضمون اور اسکے عنوان کو بھلا اپنی ساری توانائی اونٹ کی غزل سرائی پر خرچ کی۔

مہتمم صاحب نے اُستاد سے کہا، نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا، اصل میں تُم نے عنوان ہی ایسا دیا تھا جس میں موسم بہار کی سرسبزی اور شادابی کا تعلق زراعت اور حیوانات کے پالنے وغیرہ سے بنتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ طالبعلم اس مشابہت کی وجہ سے اصل موضوع کو بھول کر کسی اور سمت میں چلا گیا۔

اُستاد نے کہا، میں ایسا نہیں سمجھتا، ایک بار میں نے اِسے جاپان کی مصنوعات اور ٹیکنالوجی پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ اس طرح لکھا کہ؛ جاپان ایک ترقی یافتہ مُلک ہے جو اپنی مصنوعات اور خاص طور پر اپنی کاروں کی مصنوعات اور برآمدات کیلئے پوری دُنیا میں مشہور ہے۔ کاریٰں پوری دُنیا میں انسانوں کے سفر کے وسائل کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں مگر بدو اپنی آمدورفت کے وسائل کیلئے اونٹ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مہتمم صاحب نے اُستاد سے پوچھا، کیا تمہارے پاس ان دو مثالوں کے علاوہ بھی کوئی اور مثال ہے؟

اُستاد نے جواب دیا، جی ہاں جناب، اِسے آپ کوئی سا بھی عنوان مضمون لکھنے کیلئے دیدیں، یہ ایک سطر اُس موضوع پر لکھ باقی کا مضمون اونٹ کی مدح سرائی پر لکھ کر پورا کرتا ہے۔ ایک بار میں نے اسے ایک ایسا عنوان دیا جس سے اسکا ذہن اونٹ کی طرف جا ہی نہ سکے مگر اس نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ میں نے اسے دور حاضر کی بہترین ایجاد کمپیوٹر پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ یوں لکھا کہ؛ کمپیوٹر دورِحاضر کی مفید ترین ایجاد ہے، شہروں میں تو اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہوتا جا رہا ہے مگر بدوؤں کے پاس کمپیوٹر کہاں سے آئے۔ اُن کے پاس تو اونٹ ہوتے ہیں۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مہتمم صاحب نے مدرس سے کہا، تم اس طالبعلم کو فیل کرنے میں حق بجانب ہو۔ ٹھیک ہے تم جا سکتے ہو۔

طالبعلم کو اپنے فیل ہونے پر بہت غصہ آیا، اُس نے وزیرِ تعلیم کو ایک خط لکھ ڈالا۔

جناب وزیرِ تعلیم صاحب، السلام ُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میں آپ جناب کے علم میں اپنے اوپر ہونے والے ایک ظُلم کی روئیداد لانا چاہتا ہوں۔ میں اپنی جماعت کے ذہین طلباء میں شمار ہوتا ہوں مگر اس کے باوجود بھی مُجھے فیل کر دیا گیا ہے۔ جس پر میرا صبر اونٹ کے صبر جیسا ہے۔ کیونکہ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں۔ بدو اونٹوں کو نہایت پیار اور مُحبت سے پالتے ہیں۔ اونٹ نا صرف دودھ اور گوشت کے حصول کیلئے پالا جاتا ہے بلکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ جناب کے علم میں مزید یہ بات بھی لانا چاہتا ہوں کہ اونٹ کی کوہان میں وافر مقدار میں پائی جانے والی چربی اونٹ کیلئے کئی دنوں کیلئے طاقت اور تونائی کی فراہمی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اونٹ کی آنکھوں کی مخصوص بناوٹ اسے صحرائی ریت کے بگولوں اور اندھیوں میں حفاظت کا باعث بنتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری آپ جناب سے التجاء ہے کہ مُجھ پر ہونے والے اس ظلم کا سدِباب کریں بالکل اسی طرح جس طرح آجکل کے دور میں اونٹ کی کلیجی کے سندوئچ کھانے کا فیشن بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس عادت کے سدِباب کی اشد ضرورت ہے۔

15 تبصرے:

  1. ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ جناب کے علم میں مزید یہ بات بھی لانا چاہتا ہوں کہ ہمارے سیاست دانوں کی طرح اونٹ کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔


    بہت شکریہ سلیم صاحب۔۔ مزا آیا پڑھ کر۔۔۔ یوں ہی مسکراہٹیں بانٹتے رہیں۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. انداز تحریر دلچسپ ہے
    ایسے لوگ بکھرے پڑے هیں همارے ارد گرد جن کو کوئی بھی موضوع دے دیں
    وھ بات کو اسلام پر هی لے آئیں کے

    جواب دیںحذف کریں
  3. خاور بھائی، میرے بلاگ پر خوش آمدید، آخر آپکی تصویر میرے بلاگ پر لگ ہی گئی۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. واہ کیا بات ہے، بہت اچھا آرٹیکل ہے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. Although I did not understand this language, I know it is rich in contents and very insterested in what you write

    جواب دیںحذف کریں
  6. Dear YoYo, how are you? Long time did not see you? How is your study going in Guangzhou? What time do you plan to come back in Shantou? We all are missing you.

    جواب دیںحذف کریں
  7. جناب احسن صاحب، پسنیدیدگی کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. محمّد عرفان6 مئی، 2011 کو 3:57 AM

    سلیم صاحب !
    آپ کے بلاگ پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا. اور خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو دوسری زبانوں سے ترجمہ کر کے ہمارے لیے آسانی پیدا کر رہا ہے. اب یہ کام کوئی بدو تو نہیں کر سکتا کیوں کہ انھیں ہجرت کرنے اور اونٹ سمبھالنے کے علاوہ کوئی اور کام بھی نہیں آتا. اور اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی. اب اونٹ بیچارہ ٹہرا خشکی کا جانور. اور یہ زبان کو نہیں بلکہ صوت ( یعنی آواز) کو سمجھتا ہے. اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں......... آگے تو آپ سمجھ ہی گیۓ ہوں گے.....

    جواب دیںحذف کریں
  9. محترم جانب محمد عرفان صاحب۔ میرے بلاگ کو چھوڑیں، آپکا تبصرہ پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ آپکی زندہ دلی کا جواب نہیں، اللہ آپکو یونہی ہنستا مسکراتا رکھے۔ آمین یا رب۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. محمّد عرفان7 مئی، 2011 کو 4:49 PM

    شکریہ. ذرا نوازی ہے آپ کی. میں آپ سے اجازت چاہوں گا کہ میں آپ کے بلاگ سے کچھ پوسٹ جو مجھے بہت اچھے لگے، اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کروں. اور یقینا آپ کے بلاگ کا لنک ساتھ ہی ہوگا.

    جواب دیںحذف کریں
  11. محترم محمد عرفان صاحب، مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ میرے آرٹیکلز کو اپنے بلاگ پر نشر کیئے جانے کے قابل سمجھتے ہیں۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں