تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 7 فروری، 2014

برفباری اور آئیسکریم


غالباً سن 2004  کے مہینے جنوری کے اواخر  کی بات ہے جب ہماری آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہوتی تھیں۔    میں چین سے جدہ  پہنچا تومیرا باس کوریا اور تائیوان سے گھومتا مجھے ملنے یہاں شانتو آ گیا۔ عجیب صورتحال پیدا ہوگئی،   میں سوچ کر گیا تھا چند دن جدہ رہ کر، واپسی پر ملتان میں عیدالضحیٰ کرتا ہوا یہاں شانتو  واپس آ جاؤنگا مگر باس نے کہا ابھی شانتو آجاؤ اور واپس اکٹھے چلیں گے،  تم پاکستان رُک جانا اور میں جدہ چلا جاؤنگا۔ بس جی، بات  ٹوروں ٹپوں کی ہو اور ہم رُک جائیں، اوپر سے حکم بھی باس کا۔ میں نے اسی دن پی آئی کے دفتر سے اپنی ٹکٹ  (اسلاماباد-ھانگ کانگ-شانتو) کنفرم کرنے کیلئے رجوع کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ آجکل  ہانگ کانگ ایئرپورٹ پر پاکستانیوں کے ٹرانزٹ ٹائم  سےمتعلق  نیا قانون رائج ہوا ہے۔ میری ٹکٹ اس نئے قانون سے متصادم اور ناقابل استعمال ہے تاوقتیکہ میرے پاس ہانگ کانگ کا ٹرانزٹ ویزا ہو تو۔

بڑی عید سر پر، اور میں دو تین دن شانتو رہ کر واپس  آنے کے چکروں میں، ملتان سے اسی رات  بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچا۔ ایئرپورٹ، چائنا ایمبیسی اور  پی آئی اے راولپنڈی ؛    ہر جگہ کوشش  کی ،  ناکامی کے بعد نئی ٹکٹ لینے بازار جا پہنچا۔  (واضح رہے ان دنوں انڈیا کے وزیر اعظم  واجپائی صاحب اسلاماباد پہنچا چاہتے تھے، انتظامی امور میں سختی کی وجہ سے میں اس بھاگ دوڑ کے دوران روایتی  پولیس گردی کا شکار ہو گیا، جس کے بارے میں کچھ بتانا ایک علیٰحدہ پوسٹ کا متقاضی ہے)۔

ٹریول ایجنٹ میری پریشانی اور قصہ گوئی  پر بہت ہنسا،  اشک شوئی کیلئے مجھے  ایک بریانی کی پلیٹ منگوا کر دی اور چین  جانے کیلئے دوسری صبح کی اسلاماباد اورمچی کی ٹکٹ بنا دی۔  میری سادگی سے متاثر ہو کر ایک بندے کا نام بتا دیا کہ یہ اسلاماباد  ایئرپورٹ پر ملے گا،  یہ بھی اُدھر ہی جا رہا ہے۔ ہمارا نام بتانا، تمہارے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرے گا۔ دوسری صبح میں ایئرپورٹ جا پہنچا۔ ٹریول ایجنٹ کے بتائے ہوئے عدنان بھائی (فرضی نام ) کو تلاش کیا اور ان کے ساتھ چیک ان ہوا۔ عدنان بھائی اس روٹ کے سب سے واقفکار  تاجر تھے اور پنڈی میں ایک جانی پہچانی شخصیت۔ ایئرپورٹ پر وقت اور سفر کے دوران ان کا برتاؤ زندگی بھر یاد رکھنے والی چیز ثابت ہوا۔

جہاز نے اسلاماباد سے اڑان بھری۔ اس روٹ پر سفر کرنے والے  بیشتر  مسافروں کی حالت اور دیگر ماحول ڈیرہ غازی خان سے دوبئی یا ملتان سے مدینہ جانے والی  پرواز سے مختلف نہیں ہوتا۔  اڑان کے بعد جہاز ہموار ہونے کی دیر ہوتی ہے لوگ اٹھ کر ایک دوسرے سے حال احوال بانٹنا اور ملاقاتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔  لوگوں کی اس چہل قدمی کے دوران  ایک بات جو مجھے بہت عجیب لگی وہ ہر مسافر کا میرے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے گھورنا  تھا۔ چند ایک نے تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے کا کام کیا کہ مجھ سے پوچھ کر ہی  آگے بڑھے کہ بھائی کیا تم  بھی اورمچی جا رہے ہو؟   جب کئی بار ایسا ہوا تو مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے عدنان بھائی سے پوچھ ہی لیا کہ آخر یہ سب لوگ میرے اورمچی جانے پر اتنی حیرت کا اظہار کیوں  کر رہے ہیں؟ اس بار عدنان نے مجھے حیرت سے دیکھا اور کہا؛ سچ یار، تم تو اورمچی جانے کیلئے تیار ہی نظر نہیں آرہے، یہ کیسے سفر کر رہے ہو؟ تمہیں پتہ ہے اگر تم  خوش قسمت نکلے تو  وہاں  کا درجہ حرارت  منفی بیس  تک ہو گا، ورنہ  یہ منفی چالیس بھی ہو سکتا ہے۔

کہاں ہم ملتانی لوگ ، دس درجہ حرارت  کو پالا کہنے والے اور  بس چلے تو   آگ میں ہی گھس بیٹھیں اور کہاں یہ اصل والی سردی، میرا  تو ابھی سے دل ڈوبنا شروع ہو گیا تھا۔ اورمچی پہنچ کر معلوم ہوا کہ درجہ حرارت منفی سترہ اور برفباری  پوری شدت سے جاری تھی۔ ایئرپورٹ لاؤنج میں جیسے ہی سامان ملا تو سب سے پہلا کام میں نے دو چارپینٹیں  اکٹھی اور اوپر نیچےتین چار شرٹیں پہننے والا کیا۔ ایک بزنس سوٹ تھا تو سہی مگر وہ اس سردی کیلئے نہیں بنا تھا تاہم نا ہونے سے کچھ ہونا  بہت بہتر۔

عدنان صاحب اسی ایئرلائن سے آگے کا سفر کر رہے تھے اس لیئے انہیں   ٹرانزٹ مسافر  کی حیثیت  سے مفت ہوٹل کی سہولت   میسر تھی۔  میرے پاس آگے سفر کا کوئی بندوبست ہی نہیں تھا، ایجنٹ نے دل پر بھاری نا ہو جائے  کا سوچ کر یہاں تک کا ہی ٹکٹ بنا دیا تھا اور ہمیں آگے کی خود جانو پالیسی پر ادھر روانہ کیا تھا ۔ اورمچی  ایئرپورٹ سے الوداعی طور پر ملتے سے پہلے، عدنان نے مجھ پر یہ  احسان کیا کہ دو آدمیوں سے میرا تعارف کرا دیا جو  مجھے شہر لیتے جائیں اور دیگر  چند  امور میں میری مدد بھی کر دیں۔  یہ صاحبان پشاور سے تشریف لارہے  تھے، ان  میں سے ایک کا نام ظاہر شاہ (شاہ جی اصلی ہیں مگر  نام فرضی ہے) تھا۔ جناب چین کے پرانے بھیدی، اورمچی کے چپے چپے سے واقف اور گوانگزہو میں ایک دفتر کے مالک تھے ۔  دوسرے صاحب ان کے ماتحت اور ملازم تھے۔ ظاہر شاہ نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ ہانڈی والی کرو گے ناں!  اور میں نے اپنے ان محسنین سے   ہاں کر دی۔ ہم لوگ  علیٰحدہ علیٰحدہ ٹیکسی لیکر ہوٹل پہنچے اور ہم  نے اپنے لیئے کمرے لیئے، وہ دو علیٰحدہ اور میں اکیلا ایک  کمرے میں۔

کمرے میں سب سے پہلا کام تسلی کے ساتھ مناسب کپڑے پہننے  والا کیااور  ظاہر شاہ کے فون آنے تک میں باہر جا کر کھانا کھانے کیلئے بالکل تیار ہو چکا تھا۔  راستے برف سے اٹے ہوئے، دو اطراف میں اس   برف سے بنے ہوئے بند ، اپنے درمیان میں سڑک کو کسی نہر کا منظر پیش کر رہے تھے۔ ایسا موسم مقامی لوگوں  کیلئے معمول کی بات اور زندگی بھرپور طریقے سے رواں دواں تھی۔ زندگی میں پہلی بار برف دیکھنا اور نا مچلنا، یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ میں نے راستے سے  برف اٹھا کر کھیلنا شروع کیا۔ گولے بنا کر ہوا میں پھینکے، دوبارہ کیچ کیئے اور بیٹنگ بھی کر ڈالی۔ ظاہر شاہ کیلئے میرا رویہ عجیب تھا، کہنے لگا   برف تم اٹھاتے ہو سردی مجھے لگتی ہے۔ اس کے جواب میں میں نے اُسے کہا ظاہر شاہ تم کیا جانو، میرا دل  اس وقت کیا کر رہا ہے؟ میں چاہتا ہوں مجھے کہیں آئیسکریم نظر آئے اور میں اپنی ساری خواہشات آج ہی پوری کر لوں۔

ریسٹورنٹ دو رویہ میزوں والا تھا جس کے درمیان میں ایک لمبی سی آہنی جالی دار دیوار سی تھی جس میں آگ روشن تھی۔ ایسے ماحول میں کھانے کا مزا ہی آ گیا۔  ایک کمی تھی تو کھانے کے بعد کڑک قسم کی چائے کی، جس کے بارے میں ظاہر شاہ نے بتایا کہ ہوٹل پہنچ کر وہ خود بنائیں گے اور مجھے دعوت دیں گے۔ ہر مسئلہ حل ہو چکا تو برفباری حسین اور ماحول رنگین لگنے لگ چکا تھا۔  کھانے کے بعد ہم ایک مقامی ٹریول ایجنٹ کے پاس گئے جس سے میں نے گوانزو کی ٹکٹ بنوائی،  قیمت دیکھ کر ظاہر شاہ کو ماتم کرنا پڑا کہ جتنے پیسوں میں  بذریعہ ہوائی سفر گوانزو جا رہا تھا  لگ بھگ اتنے ہی پیسوں میں وہ لوگ  بہتر گھنٹے کی خجالت کے بعد بذریعہ ٹرین ادھر پہنچتے۔ ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا  کیا میرے پاس کچھ اضافی   پیسے ہیں تاکہ وہ بھی ہوائی جہاز کی ٹکٹ خریدیں  اور واپس ہوٹل میں جا کر مجھے پیسے واپس کر دیں، جو میں نے آسانی سے قبول کر لیا۔  ظاہر شاہ سے دوستی گہری ہوتی جا رہی تھی۔

واپسی پر میں نے بازار سے  پانی اور موسمی پھل خریدے،  فون بوتھ سے شانتو فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی ۔ ہوٹل والی لین میں مڑتے ہوئے   نجانے ظاہر شاہ کے دل میں کیا آیا، مجھے ہنستے ہوئے کہنے لگا آپ میرے اس آدمی کے ساتھ ہوٹل جائیں، میں آپ کیلئے آئیسکریم لیکر ابھی آتا ہوں۔ میں نے ظاہر شاہ کے اس مذاق پر مسکرانے پر اکتفا کیا اور  ہم دونوں  چلتے ہوئے اپنے اپنے کمروں میں پہنچ گئے۔

ظاہر شاہ کے چائے پلانے کے وعدے کو بھول کر میں  لحاف میں گُھس چکا تھا کہ گھنٹے بھر  کے بعد میرے روم نمبر پر کال آئی  ہمارے کمرے میں آ جاؤ اور اپنی آئیسکریم لے جاؤ۔ اس بار مجھے یاد آیا کہ ابھی چائے پینا تو باقی تھا، شاید اب بن گئی ہو۔ رضائی کو خیرباد کہا اور ان کے کمرے کی طرف چل پڑا جو بالکونی کی دوسری نکڑ پر تھا۔  ان کے کمرے کا دروازہ تقریباً کھلا ہوا ہی تھا ، اندر گیا تو ان دونوں صاحبان کے علاوہ ایک مقامی اویغر لڑکی بھی موجود تھی۔ ظاہر شاہ صاحب بولے سلیم بھائی یہ رہی آپ کی آئیسکریم، لے جایئے۔ اور لڑکی بھی  میرے ساتھ جانے  کیلئے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔

میں سعودی عرب میں برسوں اکیلا بھی رہا ہوں تو ہمیشہ اچھے اللہ خوفی کرنے والے لوگوں کے ساتھ، یا پھر اپنیے خاندان کے ساتھ رہا ہوں۔ اللہ شکر خورے کو ہر جگہ شکر دیتا ہے مگر عربستان میں خیر کا تناسب اب بھی بہت زیادہ ہے۔ کئی بد وہاں جا کر اچھے بن جاتے ہیں اور کبھی کبھار معاملہ اُلٹا بھی ہوا ہے۔  ۔ میں پارسا تو نہیں ہوں جو کہہ سکوں کہ مجھے موقعے ملے تھے مگر میری شرافت قائم رہی، تاہم یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اللہ پاک نے مہربانی کی اور میرے لیئے برائی کے اسباب اور مواقع ہی پیدا نا کیئے۔  آج ظاہر شاہ نے میرے لیئے  پارسائی کا واحد راستہ موقع نا بن پانا بھی بند کر دیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار ایسی صورتحال کا سامنا تھا۔ مجھے یکا یک ایسے لگا جیسے ساری سردی دوبارہ میرے جسم میں لوٹ آئی ہو، دل و دماغ کا تو جو حال ہوا سو ہوا، ٹانگوں تک نے دوبارہ سے کپکپانا شروع کر دیا تھا۔

اس قبیل کی لڑکیاں جن مجبوریوں سے اس راستے پر آتی ہیں وہ آسودہ گھرانوں سے تو نہیں ہوتیں، ماحول کے اثر سے ان کے  چہرے کی معصومیت جلد ہی خباثت میں بدل جایا کرتی ہے۔ مگر یہ موصوفہ انتہائی خوبصورت تھی،   چرمی نی ہائی شوز  کے ساتھ   قیمتی فر کوٹ پہن رکھا تھا اور اپنے آپ کو ہائی سوسائٹی کا ثابت کرنے کیلئے اپنے سے چار گُنا زیادہ خوبصورت بلی بھی اُٹھا رکھی تھی  (اب بندہ پاکستانی بھی ہو اور الٹرا ساؤنڈ بھی نا کرے)۔

میں نے  ظاہر شاہ سے کہا؛  شاہ جی، میں بال بچوں والا  اور شریف آدمی ہوں، اللہ پاک  نے مجھے مکہ و مدینہ کی سعادتیں دی ہوئی ہیں، آپ میری بات کا مطلب غلط سمجھے ہیں، میں یہ والی آئیسکریم نہیں ، دوسری والی مانگ رہا تھا۔

شاہ جی روایتی پاکستانی  بنے اور اونچی آواز میں کہا؛ میں غلط سمجھا ہوں تمہاری بات کو ؟ میرا گوانزہو میں دفتر ہے اور تیرے جیسے سارے حاجیوں کو اور ان کے کرتوتوں کو جانتا ہوں، سارے  *** بال بچوں والے ہوتے ہیں اور سب  کا شوہدہ پن اور حرکتیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اُس وقت آئیسکریم آئیسکریم کی رٹ سے سر کھا  رکھا تھا، اب  اتنی دور سے جا کر لا دی ہے تو نخرے کر رہے ہو اور بڑے حاجی بن رہے ہو۔ کون دے گا اب اس کے پیسے؟

پیسوں والی بات سُنتے ہی میں نے منت سماجت والا رویہ چھوڑا کیونکہ شاہ جی  کسی اور بات سے نہیں محض پیسوں کے نقصان سے ڈر رہا تھا ۔ میں نے کمرے سے باہر جاتے ہوئے کہا؛  شاہ جی، آپ نے میرے ٹکٹوں والے پیسے بھی تو ابھی نہیں دیئے ناں،  اس کے پیسے آپ اُس مبلغ سے منہا کر لیں اور اسکو  ابھی اور اسی وقت جانے دیں۔ میں جا رہا ہوں، آپ سے صبح ملاقات ہوگی۔

میں ڈرتے دل کے ساتھ واپس اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سوچنے لگا پتہ نہیں یہ والی آئیسکریم آتی کتنے کی ہے،  شاہ جی کہیں ٹکٹ والے پیسے  ایسے ہی ناں پورے کر لیں۔ ابھی بمشکل کمرے  میں جا کر دوبارہ سونے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ شاہ جی کا پھر فون آ گیا، کہنے لگے سلیم بھائی  ہم آپ سے مذاق کر رہے تھے۔ یہ لڑکی تو ہماری مہمان ہے۔ ہمارے اس کے ساتھ پُرانے تعلقات ہیں، آپ واپس آئیں اور اس سے گپ شپ کریں، یہ آپ کو چینی بولنا سکھائے گی۔ آؤ اور ہم مل کر چائے بھی پیتے ہیں۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے فون بند کیا اور سو گیا۔

شاہ جی ایک ورسٹائل شخصیت کے مالک انسان تھے، اگر آپ کی رفاقت نا ہوتی اور آپ مجھے گوانگزہو تک کے لگ بھگ پانچ گھنٹے کے سفر میں تفہیم القرآن سے اقتباسات نا سُناتے جاتے تو یقین جانیئے میرا بوریت سے بہت بُرا حشر ہوتا۔ شکریہ شاہ جی۔

8 تبصرے:

  1. مجھے بھی آئس کریم کھانا ہے سلیم بھائی لیکن ارمچی والی نہیں :)

    جواب دیںحذف کریں
  2. نامعلوم کونسی آپ کی نیکی یا والدین کی کی ہوئی خدمت اللہ کو پسند آ گئی اور آپ کو بچا لیا ۔ میں نے بچپن سے پُل صراط اور اس کی مکتوب تفصیلا ت پر بہت غور کیا ۔ کئی دہائیاں سوچ بچار کرنے کے بعد آخر سمجھ یہ ہی لگی کہ انسان کے نیکی کی طرف جانے اور بدی کی طرف جانے میں سر کے بال کی موٹائی جتنا فرق ہوتا ہے ۔ ذرا سی جُنبش ادھر یا اُدھر کر سکتی ہے ۔ ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف جہنم

    جواب دیںحذف کریں
  3. بھائی۔ یہ آئیسکریم واحد چیز ہے جو نا پارسل کی جا سکتی ہے اور ناں‌ہی کوریئر۔ صبر کریں، موقع ملے تو مل کر کھائیں‌گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. سر افتخار اجمل بھوپال صاحب، کیا حال ہیں؟ دوبئی سے واپسی ہو گئی؟
    سر، آپ ہر تحریر کو مثبت نگاہ سے دیکھتے ہیں، آپ کی مہربانی۔ تشریف آوری کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بھائی سلیم اپ کا بلاگ بھت پسند ایا

    جواب دیںحذف کریں
  6. جناب ۔ ابھی تو دبئی آئے ہوئے 2 ہفتے ہوئے ہیں ۔ اِن شاء اللہ 22 اپریل تک یہیں قیام رہے گا

    جواب دیںحذف کریں
  7. اب بندہ پاکستانی بھی ہو اور الٹرا ساؤنڈ بھی نا کرے۔۔۔۔۔۔ بہت خُوب!
    اچھا کیا جو چینی سیکھنے دوبارہ نہیں چلے گئے۔
    ویسے باہر ملک میں ایسے مواقع پر بچنا بہت مشکل ہوتا ہو گا!
    اللہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. سلیم بھائی آپ نے بلاگ پر توجہ چھوڑ دی۔ اس پر توجہ کریں، فیس بک کی تحریر یہاں ڈال دیا کریں۔ یہاں آسانی سے پڑھی جاسکتی اور ضرورت کے مطابق دیکھی جاسکتی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں