تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 24 ستمبر، 2012

صانکی یدم


مساجد کے ناموں میں ایک نام (مسجد یہ چیز تو میں نے کھائی ہوئی ہے)  بہت ہی حیرت سے سنا جائے گا۔ مسجد یہ چیز تو میں کھائی ہوئی ہے اصل میں ترکی لفظ Sanki Yedim Camii کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ مسجد ترکی کے مشہور شہر استنبول کے ایک محلے فاتح میں واقع ہے۔ اور اس کی وجہ تسمیہ کے پیچھے ایک بہت ہی سبق آموز قصہ ہے۔

مشہور عراقی مفکر اسلامی اور مؤلف اورخان محمد علی (1937-2010) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب (روائع من التاریخ العثمانی) میں اس مسجد کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

استنبول شہر کے ایک محلے فاتح میں ایک غریب مگر مخلص اور دردمند دل رکھنے والا شخص خیرالدین آفندی رہتا تھا۔ خیرالدین آفندی کا جب بھی بازار  سے گزر ہوتا اور اسے کوئی کھانے کی چیز اچھی لگتی یا کبھی پھل، گوشت یا پھر کسی مٹھائی وغیرہ کے کھانے کا دل کرتا تو وہ اپنے آپ کو کہتا صانکی یدم، یعنی یہ چیز تو میری کھائی ہوئی ہے یا اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ فرض کیا یہ چیز میری کھائی ہوئی ہے، اور اس کے ساتھ ہی وہ اس چیز کو کھانے پر خرچ ہونے والے پیسوں کو علیحدہ کرتا اور گھر جا کر ایک صندوقچی میں ڈال دیتا۔

مہینوں اور سالوں تک یہ شخص اپنے آپ کو دنیا کی لذت سے محروم رکھ کر پیسے اکٹھے کرتا رہا اور یہ تھوڑے تھوڑے پیسے اس صندوقچی کو بھرتے چلے گئے۔  حتیٰ کہ بیس سال کے بعد وہ دن آن ہی پہنچا جب خیرالدین آفندی کے پاس اتنے پیسے جمع ہو چکے تھے کہ وہ ان سے اپنے محلے میں ایک مسجد تعمیر کر سکتا تھا۔ محلے میں مسجد کی تعمیر ہونے پر جب اہل محلہ کو اس غریب مگر اپنے مقصد کیلئے اس قدر خلوص نیت کے ساتھ جدوجہد کرنے والے شخص کا قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس مسجد کا نام ہی صانکی یدم رکھ دیا۔

حاصل موضوع: ہم لوگوں کو اپنا ذہن اور اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس کسی رفاہی کام میں دینے کیلئے زیادہ پیسے ہوتے نہیں اور تھوڑے دیتے ہوئے ہم ندامت اور خجالت محسوس کرتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے۔

گھروں میں نعمتوں کی بھرمار ہوتی ہے، سبزیاں اور پھل فریج میں رکھے رکھے باسی اور خراب ہو رہے ہوتے ہیں مگر وافر سامان خریدتے ہوئے ہمارے منہ سے کبھی بھی یہ فقرہ نہیں نکلتا کہ یہ چیزیں تو ہم نے کھائی ہوئی ہیں تاکہ بچ جانے والے وہ پیسے ہم کسی مستحق کو ہی دیدیں۔

18 تبصرے:

  1. بہت عمدہ اور نصیحت آموز داستان ہے۔
    لیکن اپنی لذتوں کو ترک کرنا اتنا آسان ہوتا تو ہر شخص ولی اللہ ہوتا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. منصورالحق منصور24 ستمبر، 2012 کو 9:04 AM

    بہت خوبصورت اور بھولا ہوا سبق یاد دلانے والی تحریر ہے۔ زورقلم اور زیادہ ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بجا فرمایا۔ صدقہ دینا معمول بنا لینا چاہیئے چاہے کتنا ہی کم کیوں‌ نہ دیں۔
    جمعہ کو مسجد جاتے ہوئے، قابل اعتبار این جی اوز (اخوت، سیلانی، ایدھی وغیرہ وغیرہ) کو ضرور کچھ نہ کچھ دیتے رہنا چاہئے۔ آج کل سیلاب زدگان کو امداد کی ضرورت ہے ان کےلیے کچھ تو کیا ہی جا سکتا ہے، پچاس سو تو کچھ بھی نہیں اتنا تو دے ہی سکتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، تشریف آوری اور مضمون کیلئے پسندیدگی پر شکریہ قبول فرمائیں
    لذتوں کو ترک کرنا تو ممکنات میں‌سے نہیں مگر ان آسائشوں‌میں‌اوروں‌کو کسی حد تک شامل کرلینا انسانیت کی خدمت ہوگی۔ اللہ رب العزت ہمیں‌نیکی کی توفیق دے۔ آمین یا رب

    جواب دیںحذف کریں
  5. جناب منصورالحق منصور المحترم ، خوش آمدید، پسندیدگی اور نیک خواہشات کیلئے مشکور ہوں۔ حوصلہ افزائی کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. محترم جناب فراز اکرم صاحب، اھلا و سھلا، مجھے یہ جان کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ آپ میری تحاریر کو پسند کرتے ہیں۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  7. ماشاءاللہ، ہمیشہ کی طرح دل میں اترنے والی تحریر۔
    صدقہ دیتے وقت یہ بات ضرور مدِنظر ہو کہ جسے دیا جا رہا ہو واقعی میں ضرورت مند ہے۔ یہاں یہ حال کہ جب کسی فقیر کو 100 کا نوٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں 90 واپس کرو اور وہ اپنی شلوار قمیض کی خفیہ تجوری کھولتا ہے تب اپنی غربت کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ پھر اسی موقع پر خیال آتا ہے کہ "اللہ بھلا کرے" کی دعا ہی ان لوگوں کے لئے بہترین صدقہ ہے۔
    اللہ ہمیں صحیح جگہ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  8. جناب محترم فیصل مشتاق صاحب، جی ہمارے معاشرے میں ایک مسئلہ یہ پیشہ ور مانگنے والے بھی ہیں جو حقداروں تک حق پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ اسی لئے تو قرآن مجید نے ایک اصول وضع کیا ہے کہ:
    « لِلْفُقَراءِ الَّذِینَ أُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ لا یَسْتَطِیعُونَ ضَرْباً فِی الْأَرْضِ یَحْسَبُهُمُ الْجاهِلُ أَغْنِیاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِیماهُمْ لا یَسْئَلُونَ النَّاسَ إِلْحافاً »
    (اور ہاں تم جو خرچ کرو گے تو) ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ کر اور) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ خدا اس کو جانتا ہے (البقرۃ - 273)
    میں اس بار رمضان شریف میں پاکستان میں تھا، مسجد میں جوتیوں والی جگہ کے نزدیک ایک شخص کے چہرے پر دل کو پھاڑ دینے والی ناداری دیکھی، تھوڑے سے پیسے ڈرتے ڈرتے دیئے کہ وہ بھکاری نہیں تھا مگر اس نے رکھ لئے۔ میرا ایک ہمسایہ مجھے دیکھ رہا تھا جس نے باہر نکلنے پر مجھے بتایا کہ آپ نے جس شخس کو پیسے دیئے ہیں وہ سامنے والی مارکیٹ کا مالک ہے مگر اولاد نے قبضہ کر لیا اور اس بیچارے کو در در پر دھکے کھانے کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ اس آدمی کے حالات جان کر دل خون کے آنسو رویا ۔ ایسی ہی اور مثالیں پاکستانی کلچر میں نو وارد اولڈ ایج ہومز میں رہائش پذیر بد نصیبوں کے منہ سے سننے کو ملتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان سب آفتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب۔
    آپ کے قیمتی تبصرے کا بہت بہت شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. پیارے دوست، شکریہ۔ اتنے فکر انگیز اور راہ نما تبصرہ کیلئے شکریہ۔
    اسلام میں صدقہ و خیرات کیلئے مقدار کی تو اہمیت ہی نہیں ہے۔ جس کی مثال یہ آیت کریمہ (فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یره) ہے جسکا مفہوم ہے کہ جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی تو وہ اسکا اجر ضرور پائے گا۔ لفظ ذرہ کا مطلب ایٹم ہے جو اس کائنات کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔ اور اتنی چھوٹی نیکی کا بھی اجر ملے گا۔ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کھجور کا ایک دانہ بھی صدقہ کیا کرتی تھیں بلکہ اس دانے کو صدقہ کرنے سے قبل باقاعدہ اہتمام (ہاتھ دھو کر اور باقاعدہ ہاتھوں پر خوشبو لگا کر)بھی کیا کرتی تھیں۔
    صدقہ تو ہے وہی کہ جسے دینے کے بعد آپ کو کسی قسم کی تنگی نا ہو۔ بس ذہن بدلنے کی ضرورت ہے کہ سوالی کو انکار یا اسے جھڑکنے کی بجائے کچھ دیا جائے۔
    اس تحریر کو لکھنے کی شہ کویت کے ایک سکالر ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط کی ایک ٹی وی پروگرام میں یتیم بچوں کیلئے چندہ اکٹھی کرنے کی مہم کے دوران کی گئی گفتگو تھی۔ وہ اسی بات کو سمجھا رہے تھے کہ اگر حیثیت اور فراوانی نہیں ہے تو تھوڑا دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
    بلکہ اسلام میں تو مادیت سے ہٹ کر بھی کچھ کام صدقہ شمار ہوتے ہیں کہ دوست کو ملتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ ہی لائی جائے، راہ پڑے اذیت کا باعث بننے والے پتھر کو ہی راستے سے ہٹا دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
    امید ہے کہ وہ دوست جو یہ سوچ کر کہ اس رفاہی کام میں ان کے تھوڑے سے پیسے کیا اثر دکھائیں گے کا بہانہ بنا کر ہاتھ جیبوں سے باہر رکھنے کی بجائے آئندہ تھوڑا سا دیتے ہوئے بھی نہیں جھجکیں گے۔ یا اللہ ہمیں اپنی راہ پر خرچ کرنے والا بنا دے۔ آمین یا رب العالمین۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. محمد اسلم انوری27 ستمبر، 2012 کو 11:53 PM

    اسلام علیکم
    محمد سلیم صاحب
    ڈاکٹر جواد احمد خان کا تبصرہ ھی اس تحریر کا حق ہے ، بھت خوب مبارک باد قبول کیجے۔
    "لیکن اپنی لذتوں کو ترک کرنا اتنا آسان ہوتا تو ہر شخص ولی اللہ ہوتا"۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. جناب محمد اسلم انوری صاحب، و علیکم السلام و رحمۃ اللہ۔ تبصرہ کیلئے شکریہ۔
    جی ہاں، ڈاکٹر صاحب نے خوب فرمایا تھا جس کی آپ نے تائید کی۔ شاید اسی لئے تو مولانا الطاف حسین حالی مرحوم نے کہا تھا۔
    فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا - مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

    جواب دیںحذف کریں
  12. بہت خوب تحریر ہے- سلیم انکل آپ نے قرآن مجید میں بتائے اصول کا بہترین حوالہ دیا ہے- واقعتآ آجکل بھکاریوں کو صدقہ دیتے ڈر لگتا ہے - صدقہ ہمیشہ یکھ بھال کر اور جانچ پڑتال کر دینا چاہیے- آپ سب لوگ کی اس بارے میں کیا آراء ہیں -

    جواب دیںحذف کریں
  13. بہت خوب تحریر ہے- سلیم انکل آپ نے قرآن مجید میں بتائے اصول کا بہترین حوالہ دیا ہے- واقعتآ آجکل بھکاریوں کو صدقہ دیتے ڈر لگتا ہے - صدقہ ہمیشہ دیکھ بھال کر اور جانچ پڑتال کرنے کے بعد دینا چاہیے- آپ سب لوگ کی اس بارے میں کیا آراء ہیں -

    جواب دیںحذف کریں
  14. اسلام و علیکم

    تحریر پڑھ کر تحریک ملتی ہے کاش ھم بھی کوئی کام کر جائیں کہ مرنے کے بعد لوگ یاد کریں آمین
    سلیم صاحب بہت اچھا

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں