تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 11 جولائی، 2013

نئے لوگ پرانے لوگ

اپنے دیس کے بڑے بوڑھے، چاہے کسی شہر  سے  ہی کیوں ناں  ہوں، جب اپنا ماضی کھول بیٹھیں تو کچھ ایک جیسی لگی بندھی باتیں  ہی ان سے سننے کو ملتی ہیں، کچھ مخصوص باتوں کو سُن کر  تو  کان ہی پک جاتے ہیں؛ اپنے دور کی عظمت کا ایک جیسا ہی  قصہ ہوگا ان سب بابوں کے پاس۔  کہیں گے یہ بھی بھلا  کوئی مرغی ہے؟ نا کھانے کا سواد اور لذت ، اور اتنی چھوٹی سی مرغی اور  اتنی زیادہ قیمت ۔ مرغیاں تو ہمارے وقتوں میں ہوا کرتی تھیں۔ اب مرغیوں کے اوصاف بیان ہونگے تو لگے گا ان کے زمانے میں مرغیاں بھیڑ کے برابر ہوتی ہونگی، اور بھیڑ؟ شاید وہ تو ڈائناصور کے حجم کی ضرور رہتی ہوگی۔ پھول تو بس ان کے زمانے میں ہوا کرتے تھے، کسی ایک کے گھر میں کھل گیا تو محلے بھر نے خوشبو سونگھ لی۔ ایک سیب کھانے سے ان کا پیٹ بھر جاتا تھا۔ برکت ایسی کہ سیر بھر مالٹے  آئے تو گھر والوں نے مہمانوں کو بھی کھلائے اور خود بھی کھائے پھر بھی بچ رہتے تھے۔  گانے ان کے زمانے کے مہذب ہوا کرتے تھے،  فلمیں ان کے زمانے میں حیا والی ہوا کرتی تھیں۔ اصلی دیسی  گھی ایک روپے کا پانچ پاؤ ملا کرتا تھا۔ دودھ کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی، مہمان آنے پر دو چار سیر تو ویسے ہی ہمسایوں سے مانگ لیا جاتا تھا ۔

ان سب باتوں میں قصہ گوئی ہو سکتی ہے مگر ان کی عظمتوں کو سلام ہو کہ جو شر م و حیا ان کے زمانے میں ہوا کرتی تھی ان اقدار کو اب صرف کتابوں میں ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ میں پچھلے دنوں ایک پاکستانی ٹی وی چینل پر  ایک پاکستانی بڑے شہر کے باسیوں کی ایک جرم کی کہانی دیکھ رہا تھا۔  لڑکے نے فون کر کے لڑکی کی ماں کو کہا کہ خالہ جی میری اب منگنی ہو گئی ہے اپنی بیٹی سے  کہیں یہ اب میرے پاس نا آیا کرے۔ اس عورت نے کہا بیٹا اسے واپس  بھیج دو ہم سمجھا لیں گے۔ دوسرے دن لڑکے کو دعوت دے دی گئی کہ آ کر اچھے طریقے سے الوداع ہو جاؤ، لڑکا جاتے ہوئے ایک دوست کو بتاتا گیا کہ میں وہاں جا رہا ہوں۔ شام تک واپسی نا ہوئی تو لڑکے والوں نے ڈھونڈھنا شروع کیا،  دوست کے توسط سے لڑکی کے گھر پہنچے جہاں لڑکی والوں  کی بدحواسی دیدنی تھی۔ اس سے پہلے کہ معاملہ کشیدہ ہوتا پولیس نے فون کیا کہ تمہارا لڑکا زخمی حالت میں مل گیا ہے جلدی پہنچو۔ پہنچنے پر علم ہوا پولیس نے جھوٹ بولا تھا  اور لڑکے کے سر میں گولی لگی لاش ان کے انتظار میں تھی۔ تحقیق بڑھی تو لڑکی کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

یہاں سے بات کل اور آج کے فرق کی شروع ہوتی ہے۔  لڑکی نے ٹی وی رپورٹر کو کہا؛  جس طرح میں اس کی دوست ہوں فلاں لڑکا بھی تو اسکا دوست ہے، پولیس صرف مجھے ہی حراست میں کیوں لے رہی ہے اسے کیوں نہیں ساتھ حراست میں لیتی۔ لڑکی کی ماں کا کہنا تھا؛ یہ سچ ہے کہ ہماری لڑکیاں لڑکوں سے دوستی لگاتی ہیں مگر اس کا یہ تھوڑا مطلب ہے کہ دوستی ٹوٹے تو وہ ان لڑکوں کو قتل کرانا شروع کردیں۔

شرم و حیا قصہ پارینہ بن گئی ہے، جس بات پر ندامت آئے، وہ بات اتنی سادگی سے کہی  جانے لگی ہے اب، کمال ہو گیا ہے۔ اپنے دماغ کو خراب کرنے کی بجائے میں نے ایک مشہور پنجابی سٹیج ڈرامے کا ایک کردار یاد کیا جو اپنے دوست کو بار بار کہتا تھا؛ او بے غیرتا، ایہہ بیستی اووو۔

آج سے تیرہ مہینے پہلے میں نے ایک معزز دوست  کو  یہاں چین  میں نقد پیسے دیئے، شرائط طے تھیں کہ وہ جو گارمنٹس اپنے لیئے  خریدے گا میرے پیسوں سے میرے بیٹے کیلئے بھی خریدے گا۔ پاکستان میں جا کر اس نے مزید پیسے مانگ لیئے کہ جلدی دیں آپ کا مال آگیا ہے اور کسٹم ادا کرنا ہے۔ میں نے  جلد ہی مزید پیسے بجھوا دیئے۔ مال اتفاق سے اچھا اور بروقت تھا جو کہ ان صاحب نے بوروں میں بند  دوگنے  منافع پر بیچ دیا اور مجھے کہا کہ مال آپ کے بیٹے نے نہیں بیچ سکنا تھا اس لیئے نہیں دیا۔ پیسوں کی واپسی سال بھر میں بھی نا ہو سکی۔ اس شعبان  کے آخر میں یہ صاحب یہاں چین تشریف لائے تو یہ ماحول بنا کر آئے کہ وہ آتے ہی مجھ سے معافی بھی مانگیں گے اور پہلے پیسے دیکر پھر اپنا کام شروع کریں گے۔ یہ ساری باتیں انہوں نے ایک مشترکہ دوست کو کہہ کر میرے ذہن میں ڈالیں تاکہ میں پرسکون رہوں کہ اب تو پیسوں کا مسئلہ حل ہورہا ہے۔ یہاں آنے پر پیسوں کو تو عید کے بعد پر ڈال دیا گیا مگر  مجھے یہ بھی  کہا گیا کہ پتہ نہیں میں نے کس قسم کے پیسے ان کو دیئے تھے جس سے ان کا سارا  سال نقصان ہوتا رہا، ان کا خیال تھا میرے پیسے حرام کے تھے یا میں نے کسی سے ہتھیائے ہوئے تھے۔

مجھے گلی محلوں کے بابے یاد آگئے جن کے زمانے میں مروت ہوا کرتی تھی، وعدے ایفا ہوتے تھے اور سچ کا بول بالا ہوا کرتا تھا۔  ان کے زمانے میں لوگوں کو پتہ ہوتا تھا کہ ایفائے عہد کیا ہوتا ہے اور دروغ گوئی کیا ہوتی ہے۔ لوگ اپنی کیئے پر نادم ہوا کرتے تھے۔ کسی کے گھر کا  نمک کھائے ہوئے کی لاج رکھی جاتی تھی۔

دماغ کو مزید خراب ہونے سےبچانے کیلئے میں نے ایک بار پھر وہی والا ڈائیلاگ یاد کیا؛ او بے غیرتا، ایہہ بیستی اووو۔

34 تبصرے:

  1. یعنی کہ تہاڈے پیسے ای غلط ؟؟
    ہاہاہاہاہا
    بڑے بڑے ڈارمے لوگوں‌میں سے یہ بھی ایک ڈرامہ ہی ہوں‌گے

    جواب دیںحذف کریں
  2. مطلب یہ کہ اخرکار اچھو پھنس گیا۔
    جناب آپکی طرح میں ہوں،ایک بندہ آگیا کہ مجھے چند ہزار روپے دو ،میری والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔میں نے اسکو دئے تو اس نے دس دن میں واپسی کا وعدہ کیا لیکن اب تک ان دس دنوں کو دو مہینے ہورہے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. میرے بچپن کے لوگ اس زمانے کے اخلاق جینے کا دھنگ یاد کرتی ہوں تو حیرت ہوتی ہے زمانہ کتنی تیزی سے بدل گیا ۔ آج دھوکا دینا چھوٹ بول وعدہ توڑنا عیب کی چگہ فن تصور کیا جاتا ہے ۔ اگر ہم پرانے طرح سے رہیں تو بیوقوف بنا کر خوش ہوتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. شمار تو میں بھی شاید بابوں میں ہوتا ہوں کہ داڑھی سفید ہو گئی ہے ۔ پچھلی 6 دہائیوں پر نظر ڈالوں تو ماضی بعید میں وعدہ خلافی والے بھی نظر آتے ہیں لیکن زیادہ تر اپنی زبان کا پاس رکھنے والے نظر آتے ہیں مجھے ایک ایسا آدمی بھی یاد آتا ہے جس سے بڑے بڑے ڈرتے تھے ۔ میں نے اُسے چوہدری صدیق کہنے کی بجائے دیقا بدمعاش کہہ دیا ۔ اُس نے سُن لیا ۔ واپس مُڑا اور میرا کندھا تھپکاتے ہوئے بولا ” بابو ۔ اسی شریف آدمیاں تو ڈرنے آں ۔ اگر کوئی تنگ کرے تے مینوں دسیں“۔ کچھ ماہ بعد ہم سے بڑی عمر کے لڑکے ہمیں کرکٹ کھیلنے نہیں دے رہے تھے ۔ ہم نے اس کا ٹھکانہ ڈھونڈا اور اُسے بتایا ۔ اُس نے کھیلنے کا وقت پوچھ لیا ۔ دوسرے دن جب وہ لڑکے آئے اور ہمیں تنگ کرنے لگے تو جانے کہاں سے دو جوان نمودار ہوئے اور اُنہیں دو چار لگا کر بھگا دیا ۔ یہ تو خاص واقعہ ہے ۔ عام صورتِ حال یہ ہوا کرتی تھی کہ عام طور پرمحلے دار آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے تھے اور مددگار بھی ۔ ویسے اب بھی کچھ لوگ بہت اچھے مل جاتے ہیں جیسے لاہور میں ہمارے دو سالہ قیام (2009ء تا 2011ء) میں ہمارے ہمسائے تھے ۔ مرغی برائلر تو ہوا ہی نہیں کرتی تھی ۔ دیسی مُرغی کھاتے تھے اور کوئی شک نہیں وہ اب بھی کھانے کو کہیں سے مل جائے تو بہت ذائقے والی ہوتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. شکر کیجئے سلیم صاحب ۔۔۔ اسنے آپ کے پیسے ہی حرام کے بتائے، دوسری صورت میں ہی آپ اسکا کیا کرسکتے تھے

    جواب دیںحذف کریں
  6. ہاہاہاہاہاہا
    زندگی میں پہلی بار پاکستان گاڑیاں بھیجی تھیں۔
    کہ چلو اپنا ملک ہے کاروبار ہونا چاھئے۔
    تین بار اکاونٹ فیکس کیا!
    تینوں بار بیچارے شریف بندے سے اکاونٹ گم ہو گیا۔
    چوتھی بار بیچارے نے کہا کہ تین گاڑیوں میں اسے ایک لاکھ نقصان ہو گیا ہے۔
    مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ ایک ٹکے کی ادائیگی کے بغیر ایک لاکھ کا نقصان کیسے ہو گیا!!!
    اور گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
    اور مزے کی بات ایک لاکھ میں نے ادا کر دیا تھا!!
    اب گزشتہ دو سال سے ان کا نقصان چار لاکھ ہو گیا ہے!!
    میں نے انہیں ہی سپورٹ کرنے کی غرض سے گاڑیاں بھیجی تھیں کہ
    کام چلا لیں تو ان کا ہی بھلا ہو جائے گا۔
    ویسے پورٹ پر ہی میرے جاننے والے بی ایل خریدنے کو بے تاب تھے
    جس سے ان صاحب کو پچاس پچاس ہزار بچت ہو رہی تھی۔
    بات وہی ہے ،کہ ہاتھی کہے مجھے آہستہ آہستہ مزے لے لے کر کھاؤ
    اور کھانے والا دُم لیکر بھاگ جائے۔
    کیا کریں جی سپورٹ اب بھی کبھی کبھی کرنی پڑتی ہے۔
    ہنس کر کر دیتے ہیں۔۔
    ہماری کمائی ہی حرام کی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. کیا کہون جی۔ بس نیکی کر دریا مین دال یا پھر مت کر۔اتنی مار ملی ھے نیکی کر کے کہ بتاتے بھی شرم اتی یے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. اچھے برے ہر دور میں ہوتے ھیں ، بات یہ یے کہ آپ کا واسطہ کس سے ہوا ، فرق یہ آیا کہ پہلے لوگ نیکی کرکے شرمندہ نہیں ہوتے تھے ، اب نیکی کرنے والے کو بےوقوف سمجھا جاتا ہے ، جو چالبازی کرے اس کی مہارت سمجھی جاتی ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ اس رججان کو بدلنے کے لیے کوئی سوچ نہیں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  9. حاجی صاحب "اچھو" کو پھر صحیح پہچانا تھا ناں :)

    جواب دیںحذف کریں
  10. سر جی، خیر سے آپ الٹرا ساؤنڈ ڈیوائس ہیں، سب کچا چھٹا کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. سليم بهائى! دراصل غلطى هم خود کرتے ہیں- اسلام نے تو ہمیں بتا دیا کہ جب لیں دین کرو تو لکھ لیا کرو اور گواہ مقرر کر لیا کرو- لیکن ہم بھائی چارے میں یہ سوچ کر کہ بندہ اعتماد کا ہے کوئی بات نہیں- کچھ دیر بھی ہو گئی تو دے دے گا، اسلام کے بتائے ہوئے اصول کو نہیں اپناتے اور پھر نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  12. جی خاور بھائی، بس ایسے ہی سمجھ لیں کہ بجائے شکرگزاری کے چند کلمات کے ابھی تو پیسوں کی خرابی کا سننا پڑ گیا ہے۔ اللہ ان کا بھلا کرے، بہتر ہے اسی جہان میں دیدیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. خراسانی صاحب، کوئی ایسا ویسا؟ آپ کا اچھو برے طریقے سے پھنسا پڑا ہے۔ جہاں تک ایسے لوگوں کو پیسے دینے کا سوال ہے جو ماں کی بیماری کا کہہ کر لینے کیلئے آئیں، ان کے منہ مانگے سے کچھ کم دیدیں مگر گنجائش ہو تو واپس نا لینے کی نیت کر لیا کریں۔ آ گئے تو ست بسم اللہ نا آئے تو اللہ قبول کرے۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. جنابہ سروت صاحبہ، بلاگ پر خوش آمدید، تبصرہ کیلئے شکریہ۔ جی، سچ کہا آپ نے آج نیکی کرنے والا شرمندہ پھرتا ہے اور چالباز فراڈیئے معتبر اور معزز شمار ہوتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. یاسر بھائی، پھر کیسی رہی، ہنسا دیا ناں آپ کو۔ المیئے سارے مشترک ہیں جی، ہمارا قصور باہرلا ہونا ہے دیس کے لوگ تو ہمیں قربانی کے بکرے گردانتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  16. جی ہاں آپ بابے ہی ہیں، وہ والے بابے جن کے سامنے سر اٹھانا بے ادبی شمار ہوتا ہے۔ اپنے تجربات و واقعات سے فیضیاب کرنے کا شکریہ قبول فرمائیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  17. جی بہن کوثر بیگ صاحبہ، کل کا گزرا وقت آج سے بہت اچھا ہے اور آنے والا کل آج سے برا ہوگا۔ اللہ پاک رحم فرمائے ہم سب پر۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  18. جناب ارشد صاحب، بلاگ پر خوش آمدید۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔ تبصرہ کیلئے شکریہ قبول کیجیئے

    جواب دیںحذف کریں
  19. رانا صاحب، زہے نصیب آپ بلاگ پر تشریف لائے، اھلا و سھلا، شکریہ۔
    جی ہاں آپ سچ کہتے ہیں کہ اس پر فتن دور میں کچھ کمزور ایمان مکر بھی تو جایا کرتے ہیں، ایسی صورت میں بندہ کیا کرے گا۔ اللہ پاک ایمان کی سلامتی سے نوازیں

    جواب دیںحذف کریں
  20. دروغ بر گردن راوی کسی نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اگر تم سے سوال کیا جائے تو اتنا ہی دو کہ واپس نا ملنے پر اسکا افسوس نا ہو۔
    میرا قول یہ ہے کہ پیسے آپ کے وہی ہیں جو آپ کی جیب میں ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  21. جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، شریعت کی ہر معاملے میں تطبیق بہت ساری قباحتوں سے بچا لیتی ہے مگر ہم لوگ مروت کے مارے ان پر عمل پیرا نا ہو کر اپنا نقصاں اٹھا بیٹھتے ہیں۔ اکابرین کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ ہیں اور آپ کا کہنا ایک حقیقت۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے

    جواب دیںحذف کریں
  22. اسلام و علیکم
    جناب عالی میرا خیال ھے کہ سارا معاشرہ ایسا نہیں ۔ کبھی ھمیں آزماوء
    ھاں ھم بھی آزماءش پر کم ھی پورے اتریں گے۔
    لیکن نیکی اور اعتماد چلتا رھے برے لوگوں کی وجہ سے رکھنا نہیں چاھیے۔
    حضرت علی کا قول ھے جس سے نیکی کرو اس کے شر سے بھی بچو۔

    جواب دیںحذف کریں
  23. جی ہاں، معاشرے میں سارے لوگ ایسے نہیں ہوا کرتی، آخر کو یہ دنیا بس ہی رہی ہے ناں۔ اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول لکھنے کا شکریہ قبول کریں

    جواب دیںحذف کریں
  24. محمد سلیم صاحب ، آپ نے بہت خوب لکھا لیکن سچ یہی ہے کہ کبھی کبھار بابوں کے کارنامے بھی ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ اور سن کربے اختیار کہنے کو جی چاہتا ہے "بابے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے"۔

    جواب دیںحذف کریں
  25. سلیم صاحب، آپ کا فیسبوک ایڈریس کیا ھے؟

    جواب دیںحذف کریں
  26. محمد بلال اعظم18 جولائی، 2013 کو 12:01 AM

    نئے دور کے المیوں میں سے ایک

    جواب دیںحذف کریں
  27. بلاگ پر خوش آمدید، میرا فیس بک پتہ درج ذیل ہے
    https://www.facebook.com/hajisahb

    جواب دیںحذف کریں
  28. جی بھائی، آپ نے ٹھیک کہا ہے، نئے دور کے بہت سارے نئے المیوں میں سے ایک المیہ

    جواب دیںحذف کریں
  29. ساجد صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، بابے ہمارے لیئے مشعل راہ ہیں، میں نے ان کے بارے میں کچھ بھی غلط نہیں کہا۔

    جواب دیںحذف کریں
  30. اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ ہم نے اس کو ختم کرنے کے لئے کیا کیا۔ اگر چائنا جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان کا حال تو کافی برا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  31. بھای آپ کے مال میں حاجت اور ضرورت مندوں کا بھی تو حصہ ھےضمیر کسی کا بھی نہیں مانتا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کا اللہ کا بہت کرم ھے کہ لوگوں کی ضروریات آپ سے وابستہ ھیں...کیا کہے گے آپ....

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں