تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 27 جولائی، 2013

مہمان خصوصی

شانتو (Shàntóu -  Chinese:  汕头) مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے ایک بانجھ شہر ہے۔ یہاں پر ایک بھی پیدائشی یا رجسٹرڈ مسلمان ہوتا تو پچھلے سال یہاں کی لوکل گورنمنٹ مسجد کیلئے ایک پلاٹ دینے پر آمادہ ہو گئی تھی مگر وائے حسرت! شہر میں ایک وقت میں دو سو سے زیادہ چینی مسلمان آباد رہتے ہیں۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں چین کے دوسرے مسلمان اکثریتی صوبے لانچو کی مشہور سوغات ہاتھوں کی بنی ہوئی تازہ سویوں بنا کر بیچنے والے ریسٹورنٹس کے مسلمان مالکان اور عملہ ہیں جو شانتو کو اپنا دوبئی بنا کر ادھر آباد ہیں۔


جادوئی ہاتھوں سے سیکنڈوں میں بیسیوں اقسام کی موٹی، باریک یا چپٹی سویاں بنانے کے یہ ماہر لوگ،  لانچو سے بھلے دوگنی قیمت پر یہاں شانتو میں یہ نوڈلز فروخت کریں مگر یہاں کے لوکل کھانوں سے پھر بھی نصف قیمت اور سستے ہیں۔ یہ نوڈلز پورے چین میں ان لوگوں کی مناسبت سے لانچو لامیان کہلاتی ہیں۔  ان سب لوگوں کے ریسٹورنٹ  کے ماتھے پر لگا "حلال - الاطعمہ الاسلامیہ" والا سائن بورڈ اور ریسٹورنٹ کے اندر دیوار پر لگا باتصویر  مینیو ایک جیسا بلکہ ایک جیسا ہی چھپا ہوا (لانچو سے چھپوا کر لاتے ہونگے) ہوتا ہے ان کی سب سے  زیادہ بکنے والی ڈش  تو  وہی لانچو بیف نوڈلز ہوتے ہیں  مگر باقی کے کھانے جیسے  ڈمپلنگ، باؤ میان اور چھاؤ میان بھی کھانے والے ہوتے ہیں۔



لانچو والوں کا دیواری مینیو

لانچو  کا صوبہ شانتو سے بذریعہ بس کم از کم  پینتیس گھنٹے کی دوری پر ہے اس لیئے  یہ لوگ بھلے یہاں پر سالوں سے مقیم ہیں مگر اپنے آپ کو  آج بھی  پردیسی سمجھتے اور پردیسیوں جیسا رہن سہن رکھتے ہیں۔ سال دو سال میں ایک آدھ بار واپس اپنے صوبے میں جاتے ہیں اور مہینہ دو مہینے چھٹیاں گزار کر یا  آرام کر کے واپس آجاتے ہیں، ان چھٹیوں میں ان کے بچوں کی شادیاں اور دوسرے فرائض سے سبکدوش ہوا جاتا ہے۔

بچیوں کی شادیاں کم سنی میں ہی کر دیتے ہیں۔ بچیوں کے رشتے ان کی شکل و صورت کے اعتبار سے نہیں ، کام کرنے کی لگن اور صلاحیت کے اعتبار سے  ہوتے ہیں۔ ادھر شادی ہوئی ادھر دولہا دلہن کو ایک نیا ریسٹورنٹ کھول کر چلتا کر دیا گیا۔ مرد ہاتھوں سے نوڈلز بناتا ہے اور لڑکی سارا دن چولہے کے سامنے کھڑی ہوکر باقی کے کھانے تیار کرتی ہے۔ محنت رنگ لاتی ہے اور دو تین سالوں میں یہ دلہن خاوند کو تین چار بچے اور ایک عدد نئی کار بھی لیکر دیدیتی ہے۔ کار کا استعمال اس خاندان کیلئے کیا ہوگا کے بارے میں  کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہی ہوگی کیونکہ سال کے تین سو پینسٹھ دن کام کرنے والے، ریسٹورنٹ کے میزین فلور پر رہائشی، صبح سےرات گئے تک بلا تکان محنت اور محبت سے کام کرنے والے  یہ لوگ کب اپنی ذات کیلئے وقت نکالتے ہونگے کو میں گذشتہ کئی برسوں سے نہیں دیکھ پایا۔

لانچو کے ہر شہر میں مساجد کی بہتات ہے، وہاں رہن سہن اور کھانے پینے کی اشیاء  بہت سستی، اور ماحول اسلام دوست ہے۔ شانتو میں بھی ان لوگوں کا اسلام سے تعلق جیسا بھی ہو مگر جمعہ اور عیدین پران  کی اسلام دوستی (ان کا اجتماع اور اہتمام) دید کے قابل ہوتی ہے۔ اکثر لوگ حفاظ ہیں اور وقت پڑے تو سارے کے سارے ہی امام اور مؤذنین ہیں۔ میں جب یہاں پر نیا نیا آیا تو مسجد کی تلاش  میں میرا  واسطہ ان لوگوں سے پڑا۔ مسجد کیا تھی، لفٹ سے محروم  ایک سالخوردہ عمارت کی ساتویں منزل پر چھوٹے سے ایک کمرے کے فلیٹ پر مشتمل تھی۔ اس مسجد کا کرایہ اور خرچہ یہ ریسٹورنٹ والے لوگ برداشت کرتے تھے۔ میرے جیسا آدمی اوپر پہنچ کر نماز نہیں آرام کی سوچتا تھا باقیوں کے دلوں پر کیا بیتتی ہو گی اس کا اندازہ خود لگا لیجیئے۔ ان کی سادہ لوحی کا یہ عالم تھا کہ افطار و سحر کیلئے اپنے صوبے لانچو فون کر کے اوقات پوچھتے تھے۔تو عید اور رمضان کا تعیین تو یقینا وہاں کے چاند کے حساب سے ہی ہوتا تھا۔

میں کیونکہ سعودیہ کی ایک کمپنی کے کام کے سلسلے میں یہاں آیا ہوا تھا اس لیئے میرے  رابطے سعودیہ کے مخیر لوگوں سے تھے۔ مسجد کی حالت جیسی تھی ویسی کی بنیاد پربتانا ہی اثر کر گیا اور مجھے فنڈز مل گئے کہ مسجد کو گراؤنڈ فلور پر نہیں تو کم از کم پہلی منزل تک ضرور لاؤں، جگہ کشادہ ہو، عمارت صاف ستھری ہو، وضو کی سہولت ہو، ایئر کنڈیشن ہو وغیرہ وغیرہ۔  فنڈز کی ایسی ریل پیل کہ ہر شخص کہتا اگلی بار ہمیں موقع دینا۔ میں نے مسجد کے متولی انکل صالح کو کہا مسجد کو نیچے منتقل کرو پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پھر چند ہی دنوں میں ہم نئی جگہ منتقل ہوگئے۔ عیدین کی نماز کیلئے کیونکہ آس پاس کے چھوٹے شہروں کے لوگ بھی شانتو کا رُخ کرتے ہیں ۔ اس کیلئے انکل صالح نے باقاعدہ لوکل گورنمنٹ سے دریا کے کنارے ایک جگہ کا پرمٹ لے رکھا ہے جہاں کھلے میدان میں  نماز پڑھائی جاتی ہے۔ انکل صالح میری بہت زیادہ عزت کرتے ہیں، انہیں جب بھی کچھ اخراجات درپیش آتے مجھے کہتے اور میں انتظام کرا دیتا۔ یقینی بات ہے ہر ریسٹورنٹ والے کو میرا بتایا گیا ہوگا کہ کہ  وہ مخیر حضرات والا ٹوٹکا میں ہی ہوں۔ میری عزت افزائی کیلئے مجھ سے چندایک  بار اذان دلوائی گئی تو ایک آدھ بار مولوی صاحب کی عدم موجودگی میں مجھ سے جمعہ بھی پڑھوایا گیا (حیران نا ہوں، مسجد میں خطبے کی کتاب رکھی ہوئی ہے کوئی بھی پڑھ کر خطبہ دے سکتا ہے اور جمعہ پڑھا سکتا ہے)۔

ہماری شانتو مسجد میں جمعہ کے علاوہ کسی اور نماز کا تو کوئی  انتظام نہیں مگر رمضان شریف میں تراویح  ضرور پڑھائی جاتی ہے۔ پہلا عشرہ تو محض تراویح ہوتی ہیں مگر دوسرے عشرے سے ان لوگوں کی ایک دوسرے کو دعوتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر تراویح کے بعد کوئی ایک سب کو اپنے ساتھ لیکر جاتا ہے۔ ان کی یہ دعوت ایک قسم کا فیمیلی ایونٹ ہوتی ہے۔ اکثر شریک لوگوں کے بیوی بچے بھی ادھر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سب کا کاروبار کھانا پکانا ہی  ہے، اس لیئے یہ دعوت گویا ایک دوسرے کو اپنے فن سے مات دینے کا مقابلہ بھی ہوتی ہے۔ بیسیوں کھانے  محنت اور محبت سے بنائے جاتے ہیں تو کھانے والے بھی تعریف میں کنجوسی نہیں کرتے، اتنی ہی چاہت سے کھاتے اور تعریف کرتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری نہیں کہ میں ہر جگہ معزز مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود اور راجہ اندر بنا ہوا ہوتا ہوں۔

پرسوں تراویح پڑھ کر باہر نکلنے لگا تو ایک صاحب نے بازو تھام لیا، میں سمجھ گیا کہ آج کہیں دعوت ہوگی۔ انکل صالح  مسجد کو تالا لگا کر باہر آئے تو مجھے کہا تم میرے ساتھ چلو گے جس پر مجھے کیا اعتراض تھا۔ انکل صالح کے بیٹے عبدالحکیم کی چم چم کرتی  بڑی سی کار نیچے میرے انتظار میں کھڑی تھی، مجھے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا گیا اور کار مطلوبہ ریسٹورنٹ پر جانے کی بجائے انکل کے ریسٹورنٹ کی طرف چلدی جہاں دیگر لوگ تو دعوت کے مقام پر پہلے ہی جا چکے تھے مگر انکل صالح کی گھر والی اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ انتظار کر رہی تھی۔ یہ کوئی چھ بچے بچیاں ہونگی ان میں سے سب سے  بڑے کی عمر پانچ سال سے کم ہوگی۔ یہ سارے چینی بچے لگتا تھا کہ پری سکول کنڈر گارٹن جاتے ہونگے کیونکہ انہوں نے دادا اور دادی سے لپٹ کر،   لے میں گا گا کر،  اور سُر میں تالیاں بجا کر بچوں والی نظمیں  پڑھنا شروع کردی تھیں۔ انکل نے ایک دو بار تو سنا مگر پھر ڈانٹ کر کہا یہ نہیں گاؤ،  ذکر کرو۔ بس پھر کیا تھا سب بچوں نے بڑے نظم و نسق کے ساتھ بہت ہی خوبصورتی سے کلمہ طیبہ پڑھا۔ ان چینی بچوں کا لب و لہجہ اور ادئیگی ایسی تھی کہ میں حیرت زدہ ہو ہی رہا تھا کہ انہوں نے کلمہ پڑھ چکنے کے بعد ایمان مجمل پڑھنا شروع کردیا۔


میرا دماغ یکدم سے چکرایا، معانی اور مفہوم کی اور بات ہے میں یہ اچھی طرح جانتا ہونگا ، وقت پڑے تو یہ ساری صفات ترتیب سے نہیں تو کم از کم ویسی ہی سنا بھی دونگا۔  مگر  بات یہ تھی کہ یہ  کلام مجھے پڑھے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا تھا سوچ کر ہی مجھے ہول سا اٹھا۔ میرے اپنے گھر میں بھتیجے بھتیجیاں ہیں، بھانجے بھانجیاں بھی ہیں، کیا میرے بھائی بہنیں بھی اپنے بچوں کو یہ سب کچھ یاد کراتے ہونگے سوچ کر میرا دل خراب ہونے لگا۔ میں نے جلدی  سے بچوں کے ساتھ مل کر دہرایا کہ کیا واقعی میں ان الفاظ اور کلمات کا اقرار اپنی زبان سے کر بھی سکتا ہوں  کہ نہیں۔ دل مطمئن نا  ہوا تو  موبائل سرچ پر ایمان مفصل اور ایمان مجمل لکھا، امیج سرچ کرکے سیو کیا اور پڑھ کر دہرانے لگا ۔ ہماری کار کب ریسٹورنٹ پہنچی کے بارے میں جاننا اب میرا مقصد نہیں تھا نا ہی مجھے وہ لوگ جو اسپیشل کرسی میرے لیئے بڑھا کر مجھے پہلے بٹھانے کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے محسوس ہو رہے تھے۔ مجھے تو لاشعور سے بس ایک ہی آواز آ کر میرے دماغ میں ہتھوڑے برسا برسا کر کہہ رہی تھی: "او جھوٹے مہمان خصوصی "

35 تبصرے:

  1. بڑے خوش قسمت ہیں آپ کہ اللہ تعالیٰ آپ سے دین کا کام لے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید فیوض و برکات سے نوازے۔ آمین۔
    امید ہے کہ اب ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل یاد رہے گا :)

    جواب دیںحذف کریں
  2. الدال علی الخیر کفاعلہ ۔۔۔ اللہ تعالی مساجد کے حوالے سے مسلمانوں کی ضرورت کی تکمیل اور سہولت کے بہم پہنچانے میں آپکے وسیلہ بننے کو قبول فرماکر دارین میں بہتر سے بہتر بدلہ عنایت فرمائیں ۔۔۔ دنیا میں تو آپکو مہمان خصوصی بناہی دیا اللہ تبارک و تعالی نے دعا گو ہوں کہ اللہ جل شانہ و عم نوالہ آخرت میں بھی آپکو یونہی مہمان خصوصی بناکر عزتوں سے نوازیں ۔۔۔ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ ، آپ کو دین و دنیا میں اللہ پاک ایسے ہی عزت سے نوازتا رکھے۔

    عجیب اتفاق ہے فجر کے بعد بچوں کو تلاوت کے دوران ترجمہ سنایا تو اس میں گواہی کی بات آئی میں نے گواہی کے بارے میں سمجحاتے سمجھاتے اللہ نے میرے دل میں یہ گواہی بھی ڈالی اور بات کلمہ اور ایمان مجمل کی بھی نکل آئی پھر میں نے جاننا کہ سب سے اہم سب سے زیادہ ہمیں ان کی تجدید کرتے رہنا چاہے پھر اللہ نے مجھے مزید پکا کرنے تحریم کے بلاگ اور پھر آپ کے بلاگ سے توجہ دیلائی ہے جزاک اللہ خیر

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاءاللہ بہت عمدہ لکھا ہے آپ نے
    اللہ آپ سے اپنے دین کی مزید خدمت کروائے اور آپ کو دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشاللہ آپ کی تحریر بہت جاندار ہے۔ ایک تو چینی مسلمانوں کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی دوسرے آپ کی مذہب کیساتھ وابستگی نے متاثر کیا۔ براہ مہربانی جب تک آپ ادھر ہیں اس جگہ کے بارے میں لکھتے رہیے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. سلیم بھائی!
    آپ نے ہمیشہ اچھی اور ایمان تازہ کرنے والی تحاریر لکھی ہیں ۔ایک سے بڑھ کر ایک نیکی پہ آمادہ کرنے والی تحاریر تخلیق و ماخوذ کی ہیں ۔ مگر اس تحریر سے آپ نے شانتو میں بسنے والے لانچو کے مسلمان بھائیوں سے ملاقات کروادی ھے ۔ اللہ آپکی اور ان سب مسلمان بھائیوں کی محنتیں بارآور کرے۔ اور اسلام کو ترقی دے اور مسلمانوں کق ہر شت سے محفوظ رکھے۔
    آپکی وساطت سے چینی مسلمانوں سے ملاقات ہونے سے وہاں کے مسلمانوں کے حالات زندگی سے آگاہی ہوئی ۔ یہ کم از کم میرے لئیے بہت اہم ہے۔
    آپ کو پاکستان میں شیطان کی آنت کی طرح پھیلے انتہائی مہنگے اور تعلیمی نقطہ نظر سے انتہائی ناقص انگریزی اسکولوں سے براہراست پالا نہیں پڑھا۔ آپ انکا نصاب اٹھا کر دیکھیں کہ کسطرح مسلمان بچوں اور بچیوں کو انگریزی کلچر کے انگریز بچوں کے کردار پڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارا سارا معاشری بے حس ہوتا جارہا ہے ۔ پاکستان میں امپورٹیڈ نصاب سے ایک ایسی پود تیار ہوگی کہ کچھ سالوں بعد بچے ایمان مفصل اور ایمان مجمل کو یاد کرنے رکھنے کی بجائے اسلام کے بنیادی ارکان پہ شرماتے پھر رہے ہونگے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. اللہ تعالٰی آپ کو آخرت میں بھی مہمانِ خصوصی بننے کی نعمت سے سرفراز کردے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  8. ایمان کی دونوں سفات پاکستان میں لوگوںکو ترجمعے کے ساتھ یاد کروا کر ان کی تکرار سے بہت سے فتنے ختم کیے جا سکتے ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. دل و دماغ سوچنے والا ہو توزندگی میں کہیں بھی کبھی بھی انسان کا شعور بیدار ضرورہوتا ہے۔ اوریہ بہت بڑی نعمت ہے۔ شعور بیدار ہوجائے تو انسان عمل کی راہیں تلاش کرہی لیتا ہے۔ گراں قدر چینیوں سے ملاقات بہت اچھی رہی۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو صحت و ایمان کے ساتھ دین و دنیا میں ہمیشہ عزت و توقیر سے نوازے۔
    آپ کی اپنی ذاتی تحریریں ہوں یا کہ ترجمہ کی ہوئی ہمیشہ سونے کے تاروں سے جڑی ہوتی ہیں۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  11. بہت عمدہ جناب۔۔۔
    مہمان خصوصی بننا بھی کسی کسی کی قسمت میں ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. جاوید بھائی۔
    وہ ایک حدیث ھے نا کہ
    ایسے لوگ ھونگے جو دن رات قرآن پڑھیں گے، لیکن قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
    وہ حدیث ہماری نسل کے لیے ہی ھوتی ھے۔
    ہماری نسلوں نے انتہائی اعلٰی معیار کی اردو میڈیم تعلیم پائی ھے۔
    اکثریت نے مسجد میں کئی سال جا کر قرآن بھی ختم کیا ھے۔
    میں خود دسویں جماعت تک مسجد میں پڑھتا رہا ہوں۔
    ہماری نسل نے اس اعلٰی نصاب کے نتیجے میں سکھائے گئے درست طور پر زندگی گزارنے کے اصولوں پر کتنا عمل کیا ھے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے آپ پاکستان تشریف لائٰیں۔

    لوگ اپنے بچوں کو انگریزی نصاب انگریزی کلچر کے کردار پڑھانے یا انگریز بنانے کے لیے نہیں پڑھاتے، بلکہ اس لیے پڑھاتے ھیں کہ اُن کے دل میں ایک موہوم سی امید ھوتی ھے کہ شائد یہ نصاب پڑھ کر بچے انگریزوں کی طرح اخلاقی طور پر اعلٰی اقدار کے مالک بن جائٰیں۔ (اُن کا یہ ٹرسٹ انگریزی سسٹم پر ھے۔ نہ کہ انگریزوں پر۔ سارے انگریز حاجی نہیں ھوتے۔) اور اُن پر کسی حرام زدگی کے بغیر وافر حلال روزی کمانے کے دروازے کُھل جائٰیں۔

    مزید یہ کہ نصاب جو کوئی بھی ہو، جن بچوں کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری ماں باپ نے ٹیوٹر، مولوی اور مائیوں کو تفویظ کر رکھی ہو، اُن کو چاہے سارا قٰرآن اور انگریزی نصاب یاد ہو، انہوں نے لٹ ہی بننا ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. بہت خوب، ماشا اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  14. جناب فیصل مشتاق صاحب، پسندیدگی کیلئے شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  15. علی بھائی، آپ بھی ناں بس۔ کچھ کھل کہتے، میں نے تو مزاح میں بھی لکھا تھا کہ : دو تین سالوں میں یہ دلہن خاوند کو تین چار بچے اور ایک عدد نئی کار بھی لیکر دیدیتی ہے، مگر آپ نے اس جملے کو شاید مس کر دیا

    جواب دیںحذف کریں
  16. جناب ڈاکٹر صاحب، آپ کی تشریف آوری اور مضمون کی پنسدیدگی کیلئے شکریہ قبول کریں

    جواب دیںحذف کریں
  17. محترم جناب نجیب عالم صاحب، بلاگ پر خوش آمدید۔اھلا و سھلا یا مرحبا
    ان خوبصورت کلمات کیلئے شکریہ قبول کریں، یقیناً یہ الفاظ نیرے لئے باعث فخر اور آپ کی طرف سے سند ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  18. سروت جی، بلاگ پر تشریف لانے کا بہت شکریہ، آمدنت باعث آبادی ما۔
    آپ کے زریں تبصرہ کیلئے ممنون ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  19. جی ہاں خاور بھائی، آپ کا کہنا درست ہے۔ ایمان ان سیدھے سادے لفظوں سے مزین ہے اور دنیا پتہ نہیں کن چکروں میں پڑ گئی۔ اللہ پاک ہم سب کو سمجھ دے

    جواب دیںحذف کریں
  20. محترم ڈاکٹر محمد اسلم فہیم صاحب، بلاگ پر خوش آمدید۔ ست بسم اللہ جی آیاں نوں
    خوبصورت دعا کیلئے ممنون ہوں، جزاک اللہ خیراً و ایاک

    جواب دیںحذف کریں
  21. محترم میرا پاکستان، آپ کے زریں تبصرے کیلئے مشکور ہوں، ان شاء اللہ آئندہ بھی یہاں کے بارے میں لکھوں گا

    جواب دیںحذف کریں
  22. جناب محمد اشفاق راجپوت صاحب، شکریہ شکریہ شکریہ
    آپکی دنیا و آکرت کی کامیابی کیلئے بہت سی دعاؤں کے ساتھ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے

    جواب دیںحذف کریں
  23. بہن جی، اتنی دعائیں، آج تو دامن کی تنگی کا گمان ہو گیا۔ اللہ پاک آپ کیلئے خوشیوں کے میلے لگائے رکھے، آمین
    چلو میری تحریر نے آپ کیلئے اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کی بات پر آخری مہر لگائی

    جواب دیںحذف کریں
  24. محترم سعید صاحب، جزاک اللہ خیرا علی ھذہ الامنیاتک و دعواتک لی۔ ربنا تقبل منک و اجزیک بالخیر
    آپ کے تبصرے کیلئے اشک بار آنکھوں سے آپ کا ممنون ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  25. ارے عمار ابن ضیاء بھائی، آپ نے بھی کمال کیا کہ نظر خامیوں پر ڈالنی بجائے خوبیوں پر ٹکا دی۔ ہاں آئندہ یہ کلام تو یقیناً یاد رہے گا۔
    میرے بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ، راہنمائی کیلئے آتے رہا کریں

    جواب دیںحذف کریں
  26. جاوید بھائی، تبصرے کیلئے شکریہ۔ اللہ ہماری آئندہ نسل کو اسلام اور ایمان پر کاربند رکھے اور ہمیں اپنے فرائض سے بدرجہ اتم سرخرو کرے آمین۔ آپ ایک درد دل رکھنے والے حساس انسان ہیں، آپ کا پیغام ہر والدین کیلیئے مشعل راہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  27. جوانی پٹا (معذرت اصلی نام سے لاعلم ہوں)، بلاگ پر خوش آمدید، تبصرے کیلئے شکریہ۔ تشریف لاتے رہا کریں، راہنمائی ملے گی۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  28. ماشاء اللہ، سبحان اللہ، جزاک اللہ،

    شانتو کی سیر بھی خوب کرائی، عادات و اطوار و معیشت کا تعارف بھی ہوا اور آخر میں جھنجوڑ بھی دیا۔

    اُٹھ اوئے اچھو :)

    جواب دیںحذف کریں
  29. محبوب بھوپال21 نومبر، 2013 کو 6:03 AM

    اسلام و علیکم
    سبحان اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  30. ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان5 دسمبر، 2013 کو 6:53 PM

    اصل میں ہمارے علما آج کل کتوں کی موت مرنے والوں کی شہادت اور ناشہادت کے عظیم فتوے دینے میں مصروف ہیں۔ انھیں اس سے غرض ہی نہیں کہ بنیادی ایمانیات کیا ہے۔
    بہت شکریہ بھائی آپ کا۔

    جواب دیںحذف کریں
  31. عامر خاکوانی4 فروری، 2014 کو 11:25 PM

    ماشا اللہ، سلیم بھائی خوب کام کر رہے ہیں۔ مجھے آپ کے بیشتر بلاگز نے بہت متاثر کیا ہے۔ اللہ آپ کی تحریر کو قبولیت بخشے ، اس میں‌برکت عطا فرمائے۔ ذریعہ روزگار توآپ کا کچھ اور ہے، مگر آپ کسی نہ کسی طرح‌ایسی بامقصد تحریروں کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنی تحریروں‌کا ایک مجموعہ شائع بھی کرائیں، پاکستان میں کئی پبلشر مل جائیں گے جو انہیں‌شائع کرنے کو تیار ہوں گے۔
    ویسے تو ہم بھی لکھنے لکھانے کا کام کرتے ہیں، مگر افسوس کہ ہماری زیادہ تر انرجی کرنٹ‌افئیرز اور فضولیات میں ضائع ہوجاتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ زندگی بدلنے والی تحریریں تخلیق کریں، کچھ لکھا بھی ،مگر وہ ناکافی لگتا ہے۔ ایک بات البتہ ذہن میں اٹکتی ہے کہ ایسی تحریریں لکھنے سے پہلے اپنے اندر تبدیلی آ جائے تاکہ بات کی تاثیر بڑھ سکے اور بے عمل واعظ کی وعید سے بھی بچا جا سکے۔ پھر یہ سوچتا ہوں کہ اپنے اندر تبدیلی نہ جانے کب آئے، تب تک کہیں مہلت ہی نہ ختم ہوجائے۔ خدا نے جو صلاحیت دی ہے، جو تھوڑا بہت اس کا ہم استعمال کر سکتے ہیں، وہ بھی تو کریں۔ اپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ مثبت تحریریں لکھنے کی توفیق دے اور وہ کام لے لے جو اس کو پسند ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  32. عامر خاکوانی4 فروری، 2014 کو 11:26 PM

    ایک بات اور عرض کرنا تھی کہ آپ اپنے اس بلاگ میں اپنی پسندیدہ تحریروں کو بھی شامل کریں۔ ساتھی بلاگرز کے وہ بلاگ جو آپ کو اچھے لگیں، جو زندگی بدل دینے والے ہوں، ان کی بھی نشاندہی کریں۔ پورا بلاگ نہ دے سکتے ہوں تو لنک ہی دے دیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  33. جناب محترم عامر خاکوانی صاحب، آپ کی بلاگ پر تشریف آوری کیلئے ایک بار پھر شکر گزار ہوں۔ آپ وقت نکال کر میرے بلاگز دلچسپی سے پڑھتے ہیں کے لئے آپ کا مشکور ہوں۔
    آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں، اللہ پاک نے آپ کو ایک نرم اور دردمند دل سے نوازا ہے اور اللہ پاک اس میں مزید برکت دیں۔ آپ کی راہنمائی کا شکرگزار ہوں۔ میں ان پر بعینہ عمل کرونگا۔ ایسے ہی راہنمائی کرتے رہا کریں۔ جزاک اللہ۔

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں