تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 1 اپریل، 2011

باپ اور بیٹے میں فرق

ایک 85 سالہ عمر رسیدہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے ھال کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے قریب آ کر شور مچایا۔

باپ کو نجانے کیا سوجھی، اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا، بیٹے یہ کیا چیز ہے؟

بیٹے نے جواب دیا؛ یہ کوّا ہے۔ یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔

کُچھ دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس کر آیا اور دوبارہ اُس سے پوچھا، بیٹے؛ یہ کیا ہے؟

بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا: یہ کوّا ہے۔

کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا: بیٹے یہ کیا ہے؟

بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا؛ ابا جی یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے مُخاطب ہو کر پوچھا؛ بیٹے یہ کیا ہے؟

اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا، نہایت ہی اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے باپ سے کہا؛ کیا بات ہے، آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہو۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو یہ سب کُچھ بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی نہ تو آپ کو سُنائی دے رہا ہے اور نہ ہی سمجھ آرہا ہے!

اس مرتبہ باپ یہ سب کُچھ سننے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس باہر آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا، بیٹے دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے؟

بیٹے نے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا؛ آج میرے بیٹے کی عمر تین سال ہو گئی ہے۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے؛ یہ کیا ہے۔ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہورہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال ۲۳ بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے ۲۳ بار ہی جواب دیا ہے۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے سے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں۔

سُبحان اللہ

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے (سورۃ الاسراء – 17)


ترجمۃ: اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں "اُف" بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔

یاد رکھیئے کہ والدین کیساتھ احسان کرنا اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے بعد اللہ کے مقرر کردہ واجبات میں سے سب سے اہم واجب ہے۔ والدین کیلئے ایذاء رسانی اور اُنکی حکم عدولی اور نافرمانی کا سبب بننا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ۔ حبیبنا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں مضمر ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں۔ آپکو یہ بھی جاننا چاہیئے کہ وہ تین اشخاص جن پر جنت کو کو حرام کردیا گیا ہے اُن میں سے ایک ماں باپ کا نافرمان بھی ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہاد پر جانے کی بجائے والدین کی خدمت کو ترجیح عطا فرمائی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟  اس نے کہا جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  تو انھیں (کی خدمت) میں کوشش کر۔ (کیونکہ وہ بوڑھے اور بے سہارا تھے(

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اُس کی ناک خاک میں ملے (اِس بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دُہرایا) یعنی وہ رُسوا ہو۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ جس نے ماں باپ دونوں یا ایک کو بُڑھاپے کے وقت پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا یعنی اُن کی خدمت نہ کی کہ جنت میں جاتا۔

یاد رکھیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہر نظر کے بدلے حج مقبول کا ثواب لکھتا ہے۔ لوگوں نے کہا اگر دِن میں سو مرتبہ نظر کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اللہ بڑا ہے اور اطیب ہے۔

ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ وہ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (یعنی اُنہیں راضی رکھنے سے جنت اور اُنکی ناراضگی کی صورت میں دوزخ کا مُستحق بنو گے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ والدین کی خدمت اور حُسن سلوک یہ بھی ہے کہ اُن کے انتقال کے اُن کے ملنے والوں سے حُسن سلوک و احسان کیا جائے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ارشادِ مُبارک ہے کہ اپنے باپ کے دوست کا خیال رکھو، اُس سے قطع تعلق نہ کرو (ایسا نہ ہو کہ اُسکی دوستی قطع کرنے کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ تمہارا نور بجھا دے۔

حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول  ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان مرجاتاہے تو اس کے اعمال کا ثواب ختم ہوجاتاہے۔ مگر تین چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتارہتاہے: ایک صدقہ جاریہ، دوسرے : وہ علم جس سے لوگوں کونفع پہنچتارہے، تیسرے: نیک اولاد جو اس کے لئے مرنے کے بعد دعاکرتی ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے  اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں، اگرمیں ان کی طرف سے صدقہ دوں توکیاانہیں اس کا فائدہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم -   نے فرمایاہاں، اس شخص نے کہا: میرے پاس ایک باغ ہے اور میں آپ کو گواہ بناتاہوں کہ میں نے یہ باغ اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ میں دے دیا۔

ابن ماجہ کی ایک حدیث مبارک کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ بنی سلمہ سے ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ، میرے والدین فوت ہو چکے ہیں، کیا اب بھی اُن کے مُجھ پر کوئی حقوق باقی رہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، یہ کہ تو اُن کے لئے دُعا اور استغفار کرتا رہے، اُن کے کئیے ہوئے وعدوں کو پورا کرے، اُن کے دوستوں کا احترام کرے اور اُن کی صلہ رحمی کا سلسلہ نہ ٹوٹنے دے۔

حضرت أبو ہریرۃ - رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ مرنے کے بعد میت کادرجہ اونچا کردیاجاتا ہے تو مرنے والا پوچھتاہے : اے پروردگار یہ کیا ہے؟ اس کو جواب دیاجائے گا: (تیرے لڑکے نے تیرے لئے مغفرت کی دعاء کی ہے)۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ مردہ اپنی قبر میں اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو پانی میں ڈوب رہاہو اور ہرطرف سے کسی مدد کا خواہشمند ہواور وہ اس کا منتظر رہتاہے کہ باپ، بھائی، وغیرہ اور کسی دوست کی طرف سے کوئی مدد دعاء کی (کم ازکم) اس کو پہنچ جائے اور جب اس کو کوئی مدد پہنچتی ہے تو وہ اس کے لئے ساری دنیاسے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔آپ سے التجا ہے کہ کبھی بھی اپنے والدین کیلئے دُعا میں بُخل اور کنجوسی سے کام نہ لیں، آئیے مل کر ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرتے ہیں کہ




  • اللھم يا ذا الجلال و  الإكرام يا حي يا قيوم ندعوک باسمك الأعظم الذي إذا دعيت بہ أجبت أن تبسط علی والدي من بركاتك ورحمتك ورزقك۔


  • اللھم ألبسھما العافيۃ حتی یہنئا بالمعيشۃ, و اختم  لھما بالمغفرۃ حتی لا تضرھما الذنوب , اللھم اكفيھما كل ھول دون الجنۃ حتی تبلغھما إياھا .. برحمتك يا ارحم الراحمين۔


  • اللھم لا تجعل لھما ذنباً إلا غفرتہ, ولا ھماً إلافرجتہ، ولا حاجۃ من حوائج الدنيا ھی لك رضا ولھما فيھا صلاح إلا قضيتھا، اللھم ولا تجعل  لھما حاجۃ عند أحد غيرك۔


  • اللھم اجعلھما في ضمانك وأمانك وإحسانك۔


  • اللھم ارزقھما عيشًا قارا, ورزقا دارا, وعملا بارا۔


  • اللھم ارزقھما الجنۃ وما يقربھما إليھما من قولٍ او عمل, وباعد بينھما وبين النار وبين ما يقربھما إليھما من قول أو عمل۔


  • اللھما ارزقنا رضاھما ونعوذ بك من عقوقھما، اللھما ارزقنا رضاھما ونعوذ بك من عقوقھما، اللھما ارزقنا رضاھما ونعوذ بك من عقوقھما۔ اللھم آمين۔ اللھم آمين۔ اللھم آمين۔

24 تبصرے:

  1. بہترین مضمون یے، آیندہ دعا یا عربی الفاظ میں اگر اعراب کا استعمال ھو تو خوب ھو جاے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ڈیئر بدر، بہت دنوں کے بعد بلاگ پر آئے ہو، تجویز بہت اچھی ہے، آئندہ خیال رکھوں گا

    جواب دیںحذف کریں
  3. جزاك اللهُ خيراً

    جواب دیںحذف کریں
  4. اللہ ہمارے مرحوم والدین کی مغفرت فرمائے اور جن خوشنصیبوں کے والدین کا سایا اللہ کی رحمت سے ان پر قائم ہے انہیں توفیق دے کے دونوں جہانوں میں وہ اس سائے سے فیض حاصل کر سکیں۔۔۔ آمین

    محترم سلیم صاحب۔۔ اللہ تعالی آپکو اس صدقہ جاریا کا بہترین اجر عطا فرمائے۔۔ آمین

    اس نہایت خوبصورت تحریر کیلیئے بہت ہھت شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. راؤ محمد صاحب، آپکا تبصرہ آپکی درد دل رکھنے والی شخصیت کا عکاس ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو والدین کے حقوق ادا کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب

    جواب دیںحذف کریں
  6. [...] ۔ محمد سليم ۔ بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ يہاں اس سلسلہ ميں ميرا ايک ذاتی [...]

    جواب دیںحذف کریں
  7. يہ تحرير آج ميں نے اپنے بلاگ پر شائع کر دی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  8. اللہ مجھے بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک بلکہ اس سلوک کے کرنے کی توفیق دے جسکا اللہ نے مجھے اور تمام مسلمانوں کو حکم دیاہے

    جواب دیںحذف کریں
  9. اللہ آپکو صحت و سلامتی کی بادشاہی عطا فرمائے۔ آمین یا رب۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. Very nice sir you are doing very wel job. thanks

    جواب دیںحذف کریں
  11. asalm o alikum
    aap mashallah bahot hi achy kaaam pe l;agye hein
    agar 1 kaam or bhi kare to miharbani ho gi k aap jo bhi hadiis sharif bayaan karte hein
    hawaly k sath bayan kar diya karein is se yaqiinbadh jata he
    jazak ALLAH

    جواب دیںحذف کریں
  12. Dear Zubair, wa alaikum salam, You are welcome to my blog. Thanks for your kind appreciation.
    G, aap ny bohot hi ehm noktay ki taraf tawaja dilai hay, main koshish karounga keh aainda yeh khami na ho... Jazak Allah Khairan

    جواب دیںحذف کریں
  13. allah pak se dua hai k allah pak apko aur hum sab ko naik ammal kerne ki tufiq atta fermaye aur shetan merdood k sher se mehfooz kery aur tamam momin merd aur momin aur ko apni rahmat ke khazane se mala mal kere aur apko es naik ammal ke ajjar ata fermaye ammen sum ammmen. Thanks

    جواب دیںحذف کریں
  14. allah pak se dua hai k allah pak apko aur hum sab ko naik ammal kerne ki tufiq atta fermaye aur shetan merdood k sher se mehfooz kery ammmen. Thanks

    جواب دیںحذف کریں
  15. Bhai aapki taharirien badi chashm kusha hoti hain.waqay aap halat ki nazakaat ko madd e nazar rakh kar article likhte hain jazakallah mujhe aapki tahriron se mere aziz dost maulana afroz ne ashna karaya unka bhi bepanah mashkur hun jazakumullah u khairal jaza

    جواب دیںحذف کریں
  16. برادرم خرم علی شاہ۔ بلاگ پر خوش آمدید، نیک خواہشات اور دعاوں‌ کا بہت بہت شکریہ، اللہ تبارک و تعالیٰ آپکو بھی خوش و خرم رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  17. برادرم اختر نور صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، آپ کا اور آپکے پیارے دوست مولانا افروز صاحب کا بہت بہت شکریہ کہ آپ لوگوں نے میری تحریروں‌کو پسند کیا۔ نیک خواہشات اور تمناوں‌پر ممنوں‌ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپکو بھی خوش رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  18. [...] بقیہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں Share this:EmailFacebookTwitterDiggStumbleUponPrintLinkedInLike this:LikeOne blogger likes this post. [...]

    جواب دیںحذف کریں
  19. منصورالحق منصور12 اگست، 2012 کو 5:09 PM

    یہ واقعہ چھ سات سال پہلے میرے ایک استاد محترم نے سنایا تھا دوبارہ پڑھ کر یاد دہانی ہوگئی۔ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  20. جناب منصور الحق منصور صاحب، آپ کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ۔ میرے بلاگ پر خوش آمدید۔ اھلا و سھلا
    آپ نے جس دلچسپی سے میرے کئی ایک بلاگ پڑھے ہیں میں ان کیلئے آپکا شکر گزار ہوں، ا،ید ہے آپ وقتا فوقتا تشریف لا کر راہنمائی کرتے رہا کریں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  21. سبحان اللہ
    حبیبنا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں مضمر ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں۔ آپکو اللہ کی رضا حاصل ھو آمین

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں