مصر کی ایک کہاوت (احنا دافنینہ سوا ۔ ہم نے اکٹھے ہی تو دفنایا تھا اسے) وہاں پر تو ہر زبان پر زد عام ہے مگر اس کہاوت کے پیچھے کیا کہانی ہے اسے بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔
مصر میں کہیں دو غریب بھائی رہتے تھے جنہوں نے مشترکہ طور پر ایک گدھا خرید رکھا تھا۔ ان دونوں کی گزر بسر کا انحصار اسی گدھے سے حاصل آمدن پر تھا، ایک گاوں سے دوسرے گاوں اس پر سامان لاد کر لے جاتے اور اپنی روزی روٹی کماتے۔ ان دونوں کو اپنے گدھے سے بہت پیار تھا۔ گدھے کے ساتھ ان کا معاملہ بھائیوں جیسا ہی تھا۔ اپنے ہاتھوں سے کھلاتے پلاتے اور اسے اپنے ساتھ ہی سلاتے۔ اپنی محبت کے اظہار کیلئے انہوں نے اسے ایک نام بھی دے رکھا تھا اور اسے ہمیشہ اس کے نام (ابو الصبر) سے پکارتے۔
ایک بار ان کے سفر کے دوران صحراء میں یہ گدھا گرا اور مر گیا۔ ان دونوں کیلئے یہ صدمہ تو بہت بھاری تھا، مگر دل پر پتھر رکھ کر نہایت عزت و تکریم کے ساتھ اسے ایک قبر بنا کر دفن کیا اور اس قبر پر بیٹھ کر رونے لگ گئے۔ جب بھی کسی مسافر کا یہاں سے گزر ہوتا ان دونوں کو روتا دیکھ کر وہ بھی افسردہ ہوتا۔ جب بھی ان دونوں سے پوچھا جاتا کہ مرحوم کون تھا اور تم دونوں کا مرحوم سے کیا رشتہ تھا تو وہ نہایت ہی سادگی سے جواب دیتے کہ مرحوم ابو الصبر انکی کل کائنات اور انکی زندگی کا سہارا تھا، ان کی زندگی کا سارا بھار اسی ابو الصبر نے ہی اٹھا رکھا تھا، ناں کرنے کی تو ابو الصبر کو عادت ہی نہیں تھی، کونسی ایسی ضرورت تھی جس میں انہوں نے ابو الصبر کو بلایا ہو اور ابو الصبر نے انکار کیا ہو۔ لوگ سوچتے تھے ابو الصبر یقینا کوئی بہت ہی نیک اور صالح شخص تھا جو ان دونوں کی کفالت کرتا تھا یا ان دونوں کی مشکلات میں انکا مددگار ثابت ہوتا تھا۔ کچھ رحمدل لوگ تو ان کے ساتھ ہی بیٹھ کر روتے اور جن کے پاس استطاعت ہوتی ان کو کچھ مالی مدد دے کر جاتے۔ دن گزرتے گئے، آنے والے تبرعات اور آمدنی سے ان دونوں نے ابو الصبر کی قبر پر ایک خیمہ لگا دیا۔ آمدنی اور زیادہ ہوئی تو ان لوگوں نے خیمہ ہٹا کر ایک باقاعدہ حجرہ تعمیر کر دیا۔ لوگ دور دراز سے ابو الصبر کے قصے سن کر آنے لگے اور ابو الصبر کا نام عزت اور احترام سے لیا جانے لگا، ایسے لگتا تھا جیسے کسی نیک، صالح اور جلیل القدر شخصیت کا ذکر کیا جا رہا ہو۔ اب تو لوگ باقاعدگی سے ابو الصبر کی قبر پر کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھتے اور ابو الصبر کی درجات کی بلندی کیلئے دعائیں مانگتے یا پھر ابو الصبر سے اپنی حاجتوں کا رونا روتے۔
لوگوں کا ہجوم بڑھا تو ابو الصبر کی باتیں معجزات اور کرامتیں لگنے لگیں، لوگ تو یہاں تک بھی کہنے لگے کہ ابو الصبر کے در پر حاضری دو تو جادو بے اثر ہو جاتا ہے، جہاں محبت ہو ادھر شادی کی راہیں کھل جاتی ہیں، فقیر یہاں آ کر غنی بن جاتے ہیں، مریض شفا پاتے ہیں اور کوئی ایسی مشکل مشکل نہیں رہتی جس کا حل نا نکل آتا ہو، ابو الصبر کی قبر باقاعدہ ایک مزار کا درجہ پا گئ ، اور اس نیک اور صالح ولی کی نظر عنایت حاصل کرنے کیلئے نذر و نیاز اور صدقہ خیرات کی مقدار بھی زیادہ ہونے لگی۔
ان دونوں بھائیوں پر مال و دولت کی بارش ہو گئی، ابو الصبر کے مزار پر احمقوں کے چڑھاووں نے ان کو دولت مند بنا دیا، دونوں مال و دولت کو آپس میں تقسیم کرتے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے لگے۔
مال و دولت اپنے ساتھ حرص و طمع اور دوسری خرابیاں بھی لایا کرتی ہے، ان دونوں بھائیوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا اور مال کی تقسیم پر ان دونوں کے درمیاں اختلاف پیدا ہو گیا۔ ایک بھائی نے غصے سے کانپتے ہوئے ابو الصبر کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی قسم میں ابھی ابو الصبر سے فریاد کرونگا کہ وہ تجھ سے انتقام لے اور تجھ پر اپنا غضب ڈالے تاکہ تجھے آئندہ میرا حق دبانے کی ہمت بھی نا ہو۔ دوسرا بھائی یہ سن کر ہنس پڑا اور بولا، کون شیخ ابو الصبر اور کیسا غضب و انتقام، کیا تو بھول گیا ہے کہ یہ ایک گدھے کی قبر ہے، ہم نے اکٹھے ہی تو دفنایا تھا اسے۔
[...] اس مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں Share this:EmailFacebookTwitterDiggStumbleUponPrintLinkedInLike this:LikeBe the first to like this post. [...]
جواب دیںحذف کریںبھائی صاحب ! کیا مجھے اردو بلاگر کا تھیم مل سکتا ھے ؟
جواب دیںحذف کریںآپ کا موجودہ تھیم یا کوئی اور لنک بتا دیں ۔
شکر یہ !
یہ تو کہانی ہے ۔ ہمارے ہاں سچ مُچ ایسی قبریں موجود ہیں جہاں کوئی انسان دفن نہیں اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں
جواب دیںحذف کریںپاکستان میں کئی ایسی قبریں ہیں جن میں بے شمار (ابو صبر) پڑئے ہیں ،اور (ابناء صبر) اس پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںبہت اعلیٰ جناب۔۔۔ بہت ہی اعلیّ
جواب دیںحذف کریںیہ تو پاکستان کی کہانی لگتی ہے۔فرق یہ ہے کہ پاکستان میں گدھا قبر کے باہر ہوتا ہے۔
ڈبل تھمبز اپ۔۔۔
بھت خوب فرمایا ڈاکٹر جواد صاحب
جواب دیںحذف کریںمحترم محمد دانش صاحب، تشریف آوری کا شکریہ، بلاگ کا تھیم بلال بھائی کا مرہون منت ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی اور تھیم انہوںنے آپ احباب کیلئے اپنے بلاگ پر فری ڈاونلوڈ کیئے رکھے ہیں، درج ذیل لنک سے لے لیجیئے۔
جواب دیںحذف کریںhttp://www.mbilalm.com/download/
جناب عالی، تشریف آوری اور تبصرہ کیلئے شکریہ۔ آپ کی بات سے گھوڑے شاہ اور طوطا پیر جیسے فرضی مزارات یاد آرہے ہیں یا پھر بی بی پاکدامن کے مزارات جہاںکئی بیبیوں کی عزت تار تار ہو جاتی ہے
جواب دیںحذف کریںدرویش خراسانی بھائی، تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ نے سچ کہا ہے۔ پاکستان میںہر مزار میںدفن کرنی والا ہوتا ہے اور پیر فقیر پہنچا ہوا ہوتا ہے جب تک کہ مزار سے جاسوسی کے آلات نا برآمد ہوجائیںیا جعلی پیر ڈبہ پیر نا ثابت ہو جائے۔
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر صاحب، تشریف آوری اور مضمون کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںقبر سے باہر گدھا سے آپکی مراد بے اعتقاد لوگوںسے تھی یا قبر پر بیٹھے مجاوروںکی جو آئندہ اسمبلیوںکے متوقع ممبران ہوتے ہیں؟
راو صاحب، اھلا و سھلا
جواب دیںحذف کریںیہ ہی کہانی میں نے پنجابی میں سنی تھی ، لیکن وہ تھوڑی سی مختلف تھی ۔۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںبہت خوب
بہت اعلیٰ اور عمدہ !
جواب دیںحذف کریںلو جی یہ واقعہ ہم لوگ ہمیشہ ایک لطیفہ کے طور پر سنتے اور سناتے رہے، ہنستے ہنساتے رہے، کہ یہ خوامخواہ کے پیر و مزار ہمارا ہی اثاثہ ہیں، اب مصر میں آپ ثابت کرتے ہیں تو مان لیتے ہیں، اگر مصر والوںکی حرکات بھی ہم سے مماثل ہیں تو اس کا مطلب نہیں ہے کہ وہ عقل میں ہم سے زیادہ ہیں، اور یہ کہ ہم لوگ بھی اپنوں سے دستبردار ہونے کو بلکل تیار نہیں۔
جواب دیںحذف کریںجناب ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب
جواب دیںحذف کریںآمد نت باعث آبادی ما، اھلا و سھلا، تشریف آوری کا شکریہ، اصلاح کیلئے تشریف لاتے رہا کریں۔
مصری پیر پرستی میں ہم سے بھی دو قدم آگے ہیں، ان کے ہاں بھی ایسے قصوں کی کوئی کمی نہیں
محمد بلال خان، تشری آوری کا بہت شکریہ، آپ نے تحریر کو پسند کیا جس کیلئے میں ممنون ہوں، تشریف لاتے رہا کریں
جواب دیںحذف کریںمحترمہ کوثر بیگ صاحبہ، آپ میرے بلاگ پر تشریف لائیں جس کیلئے میں آپکا بیحد ممنون ہوں
جواب دیںحذف کریںپیارے انکل ٹام، بہت عرصے کے بعد تشریف لائے ہیں، خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںادب کی اب کوئی سرحد نہیں رہی، کم و بیش فرق کے ساتھ اکثر قصے اور کہانیاں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں ہر جگہ
ایک قصہ یاد آ گیا ۔۔۔۔ سندھ کے ایک گاؤں میں کسی "بزرگ" کا مزار تھا جہاں ایک "پہنچے ہوئے" پیر صاحب بیٹھتے تھے، مزار پر آس پاس کے دیہات سے خوب لوگ آتے تھے، چنانچہ کافی آمدن ہو جاتی تھی۔ پیر صاحب کا ایک مرید تھا۔ کچھ عرصہ ساتھ رہنے کے بعد ایک دن وہ رخصت ہونے لگا۔ توقع تھی کہ پیر صاحب خاصا مال دے کر رخصت کریں گے، مگر انھوں نے تو "سوکھے منہ" بھی نہ پوچھا۔ بلآخر مرید کو خود ہی عرض کرنا پڑا کہ حضرت اپنی کوئی عنایت بندے کی نذر کر دیں۔ پیر صاحب نے کافی غوروخوض کے بعد مزار کے صحن میں بندبے ہوئے ایک مریل سے گدھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " اسے لے جاؤ "۔ مرید منہ بناتا ہوا گدھا لے کر چل پڑا۔ گدھے کی حالت کافی خراب تھی، چنانچہ دو گاؤں دور پہنچ کر مر گیا۔ مرید نے بمشکل زمین کھود کر اسے دفنایا اور خود افسردہ سا قبر کے قریب بیٹھ گیا۔ دور سے مزار کی طرف جانے والے لوگ اسی طرف سے گزرتے تھے۔ چنانچہ جب لوگوں نے قبر بنی دیکھی تو مزار کی طرف جانے کی بجائے وہ اِدھر ہی دعا مانگنے اور چڑھاوے چڑھانے لگے۔ مدید اِس صورتحال سے بڑا خوش ہوا اور پیر صاحب کو خوب دعائیں دیا کرتا جن کے عنایت کردہ گدھے کے طفیل اُس کا کام چل پڑا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوتا گیا، چنانچہ قبر پر پہلے خیمہ لگایا گیا، پھر تھوڑے عرصے کے بعد وہاں پکا مزار بن گیا، جبکہ پرانے مزار پر الو بولنے لگے۔ پیر صاحب اس صورتحال سے خاصے پریشان ہوئے اور بلآخر ایک دن اس نئے مزار پر پہنچ گئے جس کی وجہ سے انکا کام " ٹھپ " ہو گیا تھا۔ یہاں انکی ملاقات اپنے مرید سے ہوئی جو اس مزار پر مجاور بنا بیٹھا تھا۔ اس نے پیر صاحب کی خوب آؤ بھگت کی۔ پیر صاحب نے پوچھا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ مرید نے بتایا کہ یہ سب آپکی ہی عنایت ہے، آپکا دیا ہوا گدھا یہاں پہنچ کر "داغِ مفارقت" دے گیا، چنانچہ اُسی کو یہاں پر دفن کیا اور کام چل پڑا۔ پیر صاحب بولے " ہاتھ مار اوئے، میں نے بھی وہاں مزار پر اِسی گدھے کی ماں ' دابی ' تھی" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جواب دیںحذف کریںجناب محترم ہارون خالد صاحب، بلاگ پر خوش آمدید
جواب دیںحذف کریںآپ نے مجھے اتنا وقت دیا اس کیلئے شکر گزار ہوں۔
جی ہاں آپ کی بات بالکل درست ہے، شرق الاوسط اور ایشیائی ممالک کی کہانیاں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں سارے پیر سچے اور کھرے ہوتے ہیں جب تک ان کا بھید نا کھلے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان توہمات اور شرکیات سے بچائے رکھے۔ آمین
hahahahaha
جواب دیںحذف کریںROFL
جناب سلیم صاحب!
جواب دیںحذف کریںایک عرصے بعد ملاقت ہورہی ہے آپ سے۔ سوغات کم پڑنے لگ جائے تو آپ کے ہاں چکر لگتا ہے۔ ماشااللہ وائٹل پاکستان نیٹ ورک کامیابی کے سفر پر ہے۔ تمام قصے اور سلسلے پڑھتے ہوئے جب اس صفحہ پر آیا تو اس تحریر کو پڑھتے ہوئے نوگزی قبر جو قدیم ایبٹ آباد کے اندرون علاقے میں مشہور ہے کہ بارے میں خیال آیا کیونکہ اس کے حوالے سے بہت سے شواہد بھی سامنے آئے ہیں اور تقریباٌ سب افراد گدھے اور نوگزی قبر کے حوالے سے متفق بھی ہیں۔ شائید تمام واقعات کی کڑی یہیں سے بنتی ہے۔
سلیم صاحب۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی قائیدہ میں تو مشورہ کرنے کی طرف زیادہ زور دیا گیا ہے۔ پھر اس سلسلہ پیری کی ترویج اور بنیاد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ گدی نشینی سلسلہ اور اس کی تاریخ کیا ہے۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو برائے مہربانی اس پر روشنی ڈالیئے گا۔
آپکا خیر اندیش کلیم راجہ
محمد سلیم صاحب ۔ عورت کے لیے محترمہ ہوتا ہہے محترم مرد کے لیے ہے۔۔۔۔ اپنی اردو ٹھیک کرو۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریںبرادرم زاہد صاحب، میرے بلاگ پر خوش آمدید۔ انسان ساری عمر سیکھتا ہی رہتا ہے اور یہی کچھ میری مثال ہے۔ توجہ دلانے کیلئے مشکور ہوں، جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں