تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 28 ستمبر، 2012

زندگی خامیوں کے ساتھ


کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا۔ ہر بار ایسا ہوتا  کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکی کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا۔ جبکہ دوسرا مٹکا  پورا  بھرا  ہوا  گھر پہنچتا۔  
ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس۔ حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ  اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔


اور پھر مسلسل دو سالوں تک  ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے  نے ایک دن  اس عورت سے کہا: میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے  لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے۔    

گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا: کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جسطرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا۔

مجھے  اس پانی کا  پورا پتہ ہے جو تمہارے  ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے،   اور اسی لئے تو میں نے  نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے  تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں۔ ان دو سالوں میں ، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا۔ اگر تم میرے پاس نا ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ  ہی نا پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔

*****

یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔  لیکن ہماری یہی خامیاں، معذوریاں  اور ایسا ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کیلئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بناتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ  میں دب کر نہیں دکھا  پاتے۔ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی  اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جی ہاں، ہم سب میں کوئی نا کوئی عیب ہے،    پھر کیوں نا ہم اپنے ان عیبوں کے ساتھ، ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کو ملا کر  اپنی اپنی  زندگیوں سے بھر پور لطف اٹھائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا ہے کہ ہماری خوبیاں ہماری خامیوں پر پردہ ڈال رہی ہوں۔

18 تبصرے:

  1. بہت خوب جناب لیکن۔۔۔۔۔۔ ایک ٹوٹے ہوئے مٹکے کا فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن ایک خود غرض انسان کا کیا فائدہ؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. اور اگر اس ٹوٹے مٹکے کو سالم مٹکا کہیں کا نہ رہنے دئے،،،تو

    جواب دیںحذف کریں
  3. بے شک مایوسی گناہ ہے اور ہمیشہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہئے۔

    سلیم بھائی آپ کو پی ایم کرنا چاہ رہا تھا لیکن بلاگ میں آپ سے رابطہ کرنے کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہے۔
    جواب کا منتظر ہوں۔شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. آپ نے بہت اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیں دوسروں کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں پر میں دیگر احباب کے لیئے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ خامی اور برائی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مشال کے طور پر کم عقل ہونا ، چھوٹا قد ہونا ، کم تعلیم یافتہ ہونا ، وغیرہ خامیاں ہے اور جبکہ منفی سوچ کا حامل ہونا ، شر انگیز ہونا ، جاہل ہونا برائیاں ہیں۔
    خامیوں کی وجہ سے کسی پر طعنہ زنی نہیں کرنی چاہئیے۔ جبکہ برائی کا تو مقابلہ کرنا پڑے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. سیدہ ناعمہ آصف28 ستمبر، 2012 کو 11:26 AM

    بہت ہی خوب۔

    یقینا ہم سب میں‌کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور ہیں۔ اچھا سبق ہے کہ ان خامیوں کو نظر انداز کر کے ان خوبیوں کی طرف توجہ دی جائے جو کسی فرد میں‌ موجود ہیں۔ مثبت سوچ اور مثبت نظریہ یقینا زندگی کو سہل بنا دیتا ہے۔ اس ٹوٹے مٹکے کی طرح بہت سے لوگ بھی نہیں‌جانتے کہ وہ کس طرح کسی کے لیے نفع کا سبب بن رہے ہیں۔

    اور میرے نزدیک سب سے خوبصورت بات اس ٹوٹے مٹکے کی آگہی رہی، وہ جانتا تھا کہ اس میں کچھ کمی ہے جسے اس نے نہ صرف کھلے دل سے قبول کیا بلکہ اظہار کرتے ہوئے کسی کی تکلیف کا سبب نہ بننا پسند بھی کیا۔ جبکہ دوسری طرف ہر طرح سے صحیح و سالم مٹکے کو اس کی تندرستی نے تکبر کے نزدیک کر دیا۔
    ایسے ہی کچھ انسان جو بظاہر مکمل ہیں یا بظاہر بہتر ہیں دوسروں سے خود کو بہتر سمجھتے ہوئے تکبر کے نزدیک اور خدا سے دور ہو جاتے ہیں۔ بہت ہی اچھا پیغام ہے۔ لکھتے رہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. منصورالحق منصور28 ستمبر، 2012 کو 2:15 PM

    یقیناً ہر انسان میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ کچھ خامیاں بھی موجود ہوتی ہیں مگر انسان کو اپنی خامیوں کی طرف دیکھ کر مایوس ہونے کی بجائے اپنی خوبیوں کی طر‌ف دیکھنا چاہئے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی خوبیوں سے دوسرے انسانوں کو نفع پہنچایا جائےتو اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوگا اور اپنی خامیاں بھی بے حقیقت محسوس ہوں گی۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، خوش آمدید، شکریہ۔
    جی ہاں، زندگی میں ہر قسم کے لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔ بڑے بڑے قیافہ شناس بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں انکی فطرت سے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آپکو اس آدمی کی کہانی تو یاد ہے ناں جو بچھو کو ڈوب مرنے سے بچانے کیلئے ندی سے باہر نکالتا تھا تو ہر بار بچھو سے ڈسا جاتا تھا۔ پوچھنے پر اس نے یہ تاویل دی تھی کہ اگر بچھو اپنی بری فطرت نہیں چھوڑ سکتا تو میں کیوں اپنی اچھی عادت سے باز آجاؤں۔
    ہاں معتدل رویہ اور اسلام کی دلیل کچھ اور ہے کہ درس دیا گیا ہے لا یلدغ المؤمن مرتین من الجہر الواجد- مؤمن کسی بچھو کے بل سے ہرگز دوبار نہیں ڈسا جاتا۔
    لوگوں سے تعلق ان کی برائیوں سے بچتے بچاتے، اللہ ہمیں محفوظ رکھے آمین یا رب

    جواب دیںحذف کریں
  8. جناب درویش خراسانی صاحب، اھلا و سھلا۔ جی بندے کا جینا تو بندے ہی دوبھر کیا کرتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. جناب رضوان صاحب، جی آیاں نوں۔ تبصرہ کیلئے شکریہ۔ جی تصویر کسا دوسرا رخ ہمیشہ روشن ہوتا ہے۔ اس بلاگ میں کچھ خامیاں ہیں جن پر بلال بھائی کی توجہ مبذول کرئی ہے۔ میں آپ کو ایک ایمیل بھیج رہا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. علی بھائی، اصلی والے بلاگر تو آپ ہیں، تشریف لانے اور حوصلہ افزائی کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  11. جناب فقیر محمد صاحب، ویلکم۔ خامی اور برائی کی تشریح آپ نے بہت ہی اچھی طرح سے کی ہے۔ اس کہانی میں جو بھی جھول تھا آپ کے تبصرے سے حل ہو گیا۔ اس خوبصورت تبصرے کیلئے شکریہ قبول فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں
  12. محترمہ جنابہ سیدہ ناعمہ آصف صاحبہ، خوش آمدید، اس قیمتی تبصرے کیلئے شکریہ قبول فرمائیں۔ اس میں کوئی شخص بھی مکمل نہیں ہوتا، اپنی خامیوں سے آگاہی بھی ایک خوبی ہے۔ خامیوں کے باوجود تکبر اور بھی ظلم ہوتا ہے۔
    آپ کی نیک خوہشات کیلئے ممنون ہوں، حوصلہ افزائی کیلئے شکریہ قبول فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں
  13. جناب منصور الحق منصور صاحب، خوش آمدید۔ خامیوں‌کی بجائے اپنی خوبیوں‌کی طرف دیکھنا انسانی عظمت ہے اور مکمل کیلئے تواضع تو نام ہی اسی کا ہے کہ متفوق رہ کر بھی عاجزی و انکساری دکھائے ۔
    اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں‌اپنا شکر گزار بندہ بنا دے آمین۔
    اس خوبصورت تبصرہ کیلئے شکریہ قبول کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. بہت خوب سلیم صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  15. جناب علی نعیم صاحب، خوش آمدید، حوصلہ افزائی کیلئے ممنون ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  16. محبوب بھوپال6 اکتوبر، 2012 کو 8:14 AM

    رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

    واہ کیا خوب پھول کھلائے ھہں آپ نے ٹوٹے مٹکے سے

    جب لوگوں کے پاس پیسے اور نخرے کم تھے تو انہی ٹوٹے مٹکوں میں مٹی ڈال کر پھول اگائے جاتے تھے

    ویسے ایک محاورہ ھے کہ کھوٹے سکے بھی کبھی کام آ جاتے ھیں
    اس دنیا میں آللہ نے کوئی چیز بےفائدہ پیدا نہیں کی۔ اس لیے کسی کو حقیر نیں سمجھنا چاہیئے دوستوں کے ریفرنس کے لیے علام اقبال کی ایک نظم پہاڑ اور گلہری پڑھیں۔

    اسی ٹاپک پرایک حکایت یاد آ گئی اگر کسی کو اس پر اعتراض ھو تو معذرت
    حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے پوچھا کہ یا آللہ تو نے چھپکلی کیوں پیدا کی ھے آللہ تبارک تعالٰی نے فرمایا یہ سوال مجھ سے چھپکلی کر رہی ھے کہ تو نے موسٰی کو کیوں پیدا فرمایا ھے۔

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں